• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے حالیہ دورۂ پاکستان سے پاک افغان تعلقات میں ان شاء اللہ بہتری آئے گی۔ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ، اقوامِ متحدہ اور یورپی ممالک پاکستان کی قیامِ امن کے حوالے سے کوششوں کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ماضی میں بھارت نواز افغان لیڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اُن کے پاکستان مخالف بیانات آن ریکارڈ ہیں۔ لگتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے۔ انہیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ ہندوستان کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ افغانستان کا امن پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پاکستانی حکام نے بھی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورے کو کامیاب اور خوشگوار قرار دیا ہے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل اور سی پیک کی کامیابی کے لئے افغانستان میں امن کا خواہشمند ہے لیکن بھارت افغانستان میں امن کا قیام نہیں چاہتا۔

نائن الیون کے واقعہ کے بعد ہندوستان نے افغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان، کراچی اور قبائلی علاقوں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا۔ امریکہ میں اب صدارتی انتخابات قریب آ چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ امریکی عوام کی ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ افغانستان کے معاملے میں انڈیا سے دور ہٹتا جا رہا ہے۔ جموں و کشمیر کے معاملے میں امریکہ کا دہرا کردار ہے۔ وہ بھارت پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈال رہا۔ یہ امریکہ کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حالانکہ امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بننے اور افغانستان میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے پر ماضی میں امریکہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستانی حکا م سے وعدے کئے تھے مگر وہ آج اپنے تمام وعدوں سے مکر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیراعظم عمران خان کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے وڈیو لنک خطاب اچھا تھا لیکن اب پاکستانی قوم صرف تقریروں سے تنگ آ چکی ہے۔ حکومت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ اور عملی اقدامات اٹھانا چاہئیں۔ المیہ یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت تبدیل کرکے اسے اپنا علاقہ قرار دے دیا ہے۔ ڈومیسائل بنا کر لاکھوں ہندوؤں کو آباد کرنے کے منصوبہ پر کام شروع ہوچکا ہے ، اس سے بڑھ کر جارحیت اور کیا ہوسکتی ہے؟ ہندوستان مسلسل 80لاکھ نہتے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ خطے میں پائیدار امن کے لئے مسئلہ کشمیر کا اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ناگزیر ہے۔ ہندوستان کی حکومت آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کےبیانیے پر کام کررہی ہے۔ انڈیا میں آباد اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ مودی کے شر سے دنیا کو بچانا ہوگا۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ ترک صدر طیب اردوان کی جانب سے بھی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ورچوئل خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کر نے کا مطالبہ خوش آئند اور قابل تحسین امر ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لئے عالمی برادری کا کردار ادا نہ کرنا افسوس ناک ہے۔ ہندوستان نے 80لاکھ مسلمانوں کے حقوق کو غصب کررکھا ہے۔

افغانستان میں امن کے ساتھ ساتھ ملکی معاشی صورتحال کو بھی بہتر بنانا وقت کا اہم تقاضاہے۔ حکومت اپنے پہلے دو سال میں اچھی کار کردگی نہیں دکھا سکی۔ کوئی ایک کام بھی ٹھیک سمت میں آگے نہیں بڑھ رہا۔ اے پی سی ایجنڈا صرف اور صرف کرپشن کیسز کا خاتمہ تھا۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تینوں پارٹیوں کی معاشی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پوری ملکی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے مگر کوئی بھی عوام کا پرسان حال نہیں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکمرانوں کے پاس وہ اہلیت ہی نہیں جس سے ملکی معیشت کو سنبھالا جاسکے۔ اشیاء خوردنوش کے نرخ غربا کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں، دو وقت کی روٹی کمانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔ ملکی حالات سے دلبراشتہ ہر سال 8ہزار اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بیرون ملک چلے جاتے ہیں اوربین اقوامی سطح پر اپنی قابلیت کے جوہر دکھا رہے ہیں۔غیرحقیقی پالیسیوں کی بدولت گندم کی قلت پیدا کر دی گئی ہے اس حوالے سے نومبر اوردسمبر میں صورتحال مزید سنگین ہو جائے گی۔ حکومت فوری طور پر ملک میں گندم کی قلت دور کرنے کے لئے اقدامات کرے۔ عوام کو ریلیف دینے کے لئے مقامی سطح پر حکومتوں کا قیام بھی عمل میں لایا جانا چاہئے۔ اقتدار کو عوامی سطح تک منتقل اور بلدیاتی اداروں کی مضبوطی کے لئے ملک میں فوری بلدیاتی انتخابات ناگزیر ہیں۔ سپریم کورٹ کی آرٹیکل 140کی خلاف ورزی کے حوالے سے تشویش درست ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکمران پاور شیئرنگ سے خائف نظر آتے ہیں۔ مختلف حیلوں بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کا مسلسل التواء آئین وقانون کی خلاف ورزی ہے۔ موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ ایسی کوئی ایک بات بھی نہیں جو اس کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہو۔ بی آر ٹی حکومت کا ناکام ترین منصوبہ ہے جو صرف ایک ماہ میں ہی بند کردیا گیا۔ اس منصوبے کی ناکامی سے اربوں روپے کے قومی خزانے کو نقصان پہنچا ہے۔ چیئرمین نیب کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔ 22کروڑ آبادی میں صرف 17لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ حکومت ٹیکس کے فرسودہ نظام کو ٹھیک کرے مزید افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک میں 500خاندان ایسے ہیں جو پورے ملک کے وسائل پر قابض ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین