پشاور (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس گلزار احمدنے کہاہے کہ اسوقت صوبائی دارالحکومت پشاور میں آلودگی کے باعث عوام کا جینا محال ہوچکا ہے، ہر طرف گرد، سانس لینا مشکل ہے، یہاں پر تو کوروناکے بعدبھی ماسک کے بغیر نہیں گھوما جاسکتا،پشاور کا یہ حال تو دیگر شہروں کا کیاہوگا، کہاں گئے وہ بلین ٹری سونامی کے منصوبے ؟جس میں اربوں درخت لگانے کے دعوے کئے گئے ہمیں تو پشاورآتے ہوئے ایک درخت بھی دکھائی نہیں دیا۔
عوام کی صحت پر سمجھوتہ قبول نہیں، صنعتیں لگانے کیلئے ماحولیاتی آلودگی کنٹرول کریں،سیکرٹری ایسے سفید کپڑوں میں آئے ہیں لگتا نہیں کبھی فیلڈ میں گئے ہوں، ایسے افسروں کی ضرورت نہیں،انہیں فارغ کیا جائے، ہمیں کاغذی کارروائی نہیں عملی اقدامات چاہئیں، شہری سخت عذاب میں مبتلاہیں ، ضروری ہے کہ حکومت اس جانب توجہ دے۔
عدالت نے سیکرٹری وڈی جی ماحولیات اور سیکرٹری انڈسٹری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے4ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ طلب کرکے سماعت ملتوی کردی۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس پشاورمیں فضائی آلودگی کے سوموٹوکیس کی سماعت کے دوران دئیے۔ سپریم کورٹ کاتین رکنی بنچ چیف جسٹس گلزاراحمد، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس فیصل عرب پرمشتمل تھا۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل شمائل احمدبٹ، سیکرٹری صنعت جاوید مروت، سیکرٹری جنگلات وماحولیات شاہد اللہ، ڈائریکٹرجنرل ادارہ تحفظ ماحولیات ڈاکٹربشیراحمد عدالت عظمی میں پیش ہوئے۔
اس موقع پر چیف جسٹس گلزاراحمد نے ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ آپ لوگوں نے آلودگی کوکنٹرول کرنے کیلئے کیااقدامات کئے ہیں کیا پالیسی مرتب کی گئی ہے کس طرح آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کیخلاف کارروائی کی جائیگی اورآلودگی کو کس طرح ختم کیا جائیگا۔
ایڈوکیٹ جنرل نے کہاکہ صوبائی حکومت نے متعدد اقدامات کئے ہیں سیمنٹ فیکٹریوں کو جدید فلٹریشن پلانٹ لگانے کی ہدایت کی گئی ہے جن میں بیشترلگا دئیے گئے ہیں جبکہ کوئی سیمنٹ فیکٹری شہری حدود میں نہیں۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ اس وقت پشاورمیں آلودگی کابراحال ہے آپ لوگوں نے جو رپورٹس پیش کی ہیں ان میں کچھ بھی نہیں یہ افسر دفاتر میں بیٹھ کررپورٹ بناکرہمیں بھجوادیتے ہیں یہ ان کاکام نہیں افسرکاکام فیلڈمیں جاناہے تاکہ وہ خوددیکھیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے صرف سفیدکپڑے پہننے سے کام نہیں ہوگا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کیاآپ لوگوں نے تمام صنعتی یونٹس کا ڈیٹا لیاہے کہ وہاں پراس حوالے سے کیااقدامات کئے گئے ہیں۔ایڈوکیٹ جنرل نے کہاکہ بہت سے کارخانوں کو جرمانہ بھی کیاگیا اورٹربیونل کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں ہائی کورٹ میں بھی زیرسماعت ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ عجیب بات ہے کہ آپ لوگوں نے بلین سونامی ٹری کے نام پرمنصوبے شروع کررکھے ہیں اربوں درخت لگانے کادعویٰ کیاہے مگرپشاورموٹروے سے یہاں تک ایک درخت بھی نہیں ہے وہ درخت کہاں گئے لگتاتویہ ہے کہ پشاورمیں دھول ہی دھول ہے اوریہ افسران اے سی میں بیٹھ کرصرف احکامات صادرکرتے ہیں جوخزانے پربوجھ بنے ہوئے ہیں انہیں فارغ کرکے نئے افسرلائیں تاکہ عوام کی فلاح کاکوئی کام ہوسکے۔
ایڈوکیٹ جنرل نے کہاکہ عدالتی احکامات پرمن وعن عمل کیاجارہا ہے تمام امورکی قریب سے نگرانی کی جارہی ہے تاکہ پشاور سمیت پورے صوبے میں آلودگی پر قابو پایا جاسکے۔
جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دئیے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیناہوگاکیونکہ ماحولیاتی آلودگی انتہائی حدکوپہنچ چکی ہے کیاہم بغیرماسک کے پشاورکی سڑکوں پرگھوم سکتے ہیں پچاس سالوں سے ٹیکنالوجی میسرہے لیکن اسکا استعمال نہیں کیاجارہا ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل شمائل احمدبٹ نے عدالت کوبتایاکہ حکومتی مشینری تمام وسائل بروئے کارلارہی ہے تاکہ اسے جدیدخطوط پراستوارکیاجاسکے۔
اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے ایڈوکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کیاآپ لوگوں نے ہسپتالوں سے ایساڈیٹاحاصل کیاہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے کتنی بیماریاں پھیلتی ہیں جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے کہاکہ وہ یہ ڈیٹاحاصل کرلینگے۔ انہوں نے عدالت کویہ بھی بتایا کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں نئے اقدامات بھی تجویزکئے جائیں گے۔