• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب جبکہ انتخابی مہم عروج پر ہے اور پولنگ ڈے ہفتوں کی نہیں دنوں کی مسافت پر ہے۔ ماضی کی نسبت انتخابی مہم کے کئی پہلو نہایت مثبت ہیں جن کی وجہ سے انتخابات کا منصفانہ ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انعقاد ممکن ہو سکتاہے تاہم بعض پہلو قابل توجہ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی توجہ اس سمت ضرور مبذول کرائیں۔
بیرون ملک پاکستانیوں کا حق ووٹ
آئین پاکستان تمام پاکستانیوں کو رائے دہی کا حق تفویض کرتا ہے یقینا اس میں تارکین وطن بھی شامل ہیں۔ حقیقت میں ملک سے باہر رہتے ہوئے بھی ان کے دل پاکستان کے لئے دھڑکتے ہیں ۔ وہ پاکستان کو زرمبادلہ سے مالا مال کرتے ہیں، وہ پاکستان کے لئے اپنے دل میں درد رکھتے ہیں اس لئے ان کو پاکستان میں حکومت سازی کے عمل میں شرکت سے محروم رکھنا ان کے ساتھ وہ زیادتی ہے کہ جو برسہا برس سے جاری ہے اور وعدے کرنے اور یقین دہانی کرانے کے باوجود انہیں یہ حق نہیں دیا گیا۔ ان کے حق ووٹ کے لئے قومی اسمبلی میں سب سے پہلے میں نے آواز اٹھائی اور قرارداد پیش کی تھی۔ سپریم کورٹ اس سلسلے میں واضح ہدایات دے چکی ہے لیکن حکمران اور الیکشن کمیشن انہیں کم از کم موجودہ الیکشن کی حد تک ووٹ کا حق نہیں دینا چاہتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں لازماً ووٹ کا حق دیا جائے اس مقصد کے لئے یہ طریق کار کیا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کوئی کارآمد سافٹ ویئر بنائے اور بیرون ملک پاکستانی اپنے اپنے ملکوں میں سفارت خانوں کے تحت مختلف شہروں میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ کا استعمال کریں۔ اس طرح ووٹ پارٹیوں کو بھی پڑ سکتے ہیں اور مخصوص انتخابی حلقوں میں جماعتوں کے نشانات کو بھی۔ بہرحال یہ لاینحل مسئلہ نہیں، اس طرف فوری اور لازمی توجہ کی ضرورت ہے ۔
پولنگ اسکیم اور SMS
الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھاکہ ہم ووٹ نمبر کے علاوہ پولنگ اسٹیشن بھی بذریعہ SMS بتائیں گے تاحال یہ سروس شروع نہیں کی گئی ۔ الیکشن کمیشن سے اپیل ہے کہ وہ لازمی طور پر اس سروس کا فوری آغاز کرے ۔ نیز پولنگ اسکیم کا سافٹ ویئر فوراً جاری کرے ۔
ووٹر اور سواریاں
الیکشن کمیشن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پولنگ ڈے پر امیدوار ووٹروں کے لئے سواری کا اہتمام نہیں کریں گے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا یہ اہتمام الیکشن کمیشن کرے گا اور اگر وہ نہیں کرے گا تو پھر غریب ووٹر کس طرح سے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچنے گا۔ الیکشن کمیشن اس سلسلے میں رہنمائی دے ۔ اگر پولنگ ڈے پر حکومت کی طرف سے شٹل سروس کا اہتمام کیا جائے تو اس سے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
لوڈشیڈنگ
الیکشن کمیشن نے اگرچہ 12-11-10 مئی کو لوڈشیڈنگ نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن اس وقت بھی جو لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اس کے سلسلے میں بھی الیکشن کمیشن کو بھی مداخلت کرنا چاہئے اس لئے کہ جو وقت انتخابی مہم کا ہے اس میں بھی زیادہ وقت بجلی بند ہوتی ہے اس دوران نہ کارنر میٹنگز ہوسکتی ہیں اور نہ ڈور ٹو ڈور کمپین ، تو پھر انتخابی مہم کہاں؟
ضلعی حکومت لاہور اور PHA کا رویہ
میرے علم کی حد تک پاکستان کے کسی شہر کی انتظامیہ نے الیکشن کو کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا جبکہ لاہور کی ضلعی حکومت اور PHA نے انتخابی ہینگرز لٹکانے کا بھاری کرایہ عائد کیا ہے اگر کوئی امیدوار 1000 کھمبوں پر 6ہفتوں کے لئے فلیکس لگائے گا تو کرایہ 30 لاکھ روپے بنتاہے۔
میری طرف سے اس معاملے کو دلیل کے ساتھ اٹھایا گیا اور الیکشن کمیشن کو بھی متوجہ کیا گیا تھاکہ یہ عمل تو الیکشن کو بھی ایک کاروباری سرگرمی بنانے اور الیکشن کو صرف دولت والوں کا کھیل بنانے کے مترادف ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلوں اور الیکشن کمیشن کے اعلانات کے قطعی منافی ہے لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی اور اب PHA لاہور میں امیدواروں کا لاکھوں روپے کا تشہیری میٹریل اتار رہا ہے اس سے انتخاب کی غیر جانبداری بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔ الیکشن کمیشن کو فوری مداخلت کر کے اس مسئلے کو بند کرانا چاہئے ۔
انتخابی اخراجات کی حد
الیکشن کمیشن نے اگرچہ انتخابی اخراجات کی حد مقرر کی ہے اور یہ حد قومی اسمبلی کے لئے 15 لاکھ روپے ہے اس وقت الیکشن کمیشن کی مانیٹرنگ ٹیم کے نمائندے اگر جائزہ لیں تو اب تک اکثر امیدوار 50/50 لاکھ روپے کے صرف فلیکس اور بینرز آویزاں کر چکے ہیں ۔ الیکشن کمیشن اگر 15 لاکھ روپے کی حد کی پابندی کرا سکتا ہے تو اب کرائے، انتخابات کے بعد اخراجات کے جھوٹے بل تو ہر کوئی دے لے گا اگر مانیٹرنگ ٹیم کے نمائندے این اے 121 کی صرف دس سڑکوں پر تشہیری مہم کی گنتی کرے اور ہزاروں روپے روزانہ کے اخراجات سے چلنے والے گلی گلی کے دفاتر کو ہی شمار کرے تو اس پر واضح ہو جائے گا کہ 15 لاکھ روپے کی حد کی دھجیاں کیسے بکھر رہی ہیں۔
تازہ ترین