• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا نے صرف ہمارے روزمرہ ہی نہیں بدلے بلکہ ہمارے سماجی اور تہذیبی رویے بھی بدل دیے ہیں۔ کورونا سے پہلے ہم سب روز ملتے تھے، شعر سناتے، باتیں اور غیبتیں کرتے، قہقہے لگاتے شام کو رات میں بدل دیتے تھے اور اب ٹیلی فون، واٹس ایپ سے ایک دوسرے کو دیکھ کر اور سامنے والی کھڑکی میں پیالے میں رکھا پانی، جو چڑیوں کے لئے رکھا تھا، اسے منحوس کوئوں کو پیتے دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ اِس وقت اقوامِ متحدہ کا سالانہ اجلاس چل رہا ہے۔ اِس اجلاس کی سائیڈ لائن پر دیگر موضوعات مثلاً ماحولیات، معیشت، خواتین اور سماج کے موضوع، ہر ملک کا وفد شرکت کرتا رہا ہے مگر کورونا کے ساتھ یہ نقشہ بھی بدل گیا ہے۔ خواتین کے اجلاس میں کسی خاتون نے نہیں، وزیر خارجہ نے گفتگو کی۔ ہو سکتا ہے کہ پیسے اور فنڈ نہ ہوں تو زوم پہ ہی بات کر لی جائے مگر اسمبلی میں بیٹھی منتخب خواتین، حزبِ اختلاف پہ تو خوب برستی ہیں۔ جب قریشی صاحب بول رہے تھے تو عندلیب عباس، شیریں مزاری، فہمیدہ مرزا اور وہ سب پڑھی لکھی خواتین میرے دماغ میں گھومنے لگیں جنہوں نے حکومت کا حمایتی ہونے کے باوجود، عورتوں کے لئے بہت کام کیا ہے۔ آخر وہ زوم پر کیوں نہیں بول سکتی تھیں۔ پاکستان کا یہ تاثر جائے کہ خواتین کے عالمی مشن میں بھی ایک مرد بولے تو صنفی مساوات میں ہمارا درجہ بہت نیچے گر جاتا ہے۔ میں قریشی صاحب کو تب سے جانتی ہوں جب یہ سیاست میں نئے نئے آئے تھے، جب سالانہ عرس پر پگ باندھتے ہیں اور فیصل صالح حیات کی طرح نذرانے قبول کرتے ہیں تو میرے منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے۔ ابھی میں نے اُن سے یہ گلہ تو کیا ہی نہیں کہ کسی بھی عدلیہ میں خواتین کیوں سامنے نہیں لائی جاتیں، میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ انکی پارٹی کا ایک بندہ، خاتون پوسٹ ماسٹر کو بےعزت کرنے کا حقدار کیسے ہو گیا مگر نہیں پوچھوں گی، ورنہ سیالکوٹ موٹروے حادثے پر جس طرح پیمرا نے سنسر شپ لاگو کی ہے وہ مناسب تو نہیں لیکن پولیس کے ایک سینئر افسر نے جب کہا کہ ’’وہ خاتون شوہر کی اجازت کے بغیر خود گاڑی چلاتی ہوئی آرہی تھی، پھر یہی کچھ ہونا تھا‘‘۔ یہ ہے نفسیات ہمارے افسران کی۔ ابھی تک نہیں معلوم کہ اُس افسر نے جو کچھ خاتون افسر کے ساتھ کیا تھا، آخر اُسکی بھی سرزنش ہوئی یا نہیں مگر جب وزیروں کو حکم ہے کہ جو کچھ منہ میں آئے حزبِ مخالف کے لوگوں کو کہے جائو۔ دہرائو اور پھر کہے جائو ’’اُنکی جیب میں کتنے چھید ہیں، یہ تو ریڑی والوں کو بھی معلوم ہے‘‘۔ یہ الفاظ میری مائی پوچا پھیرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

خاتون افسر کو مارنے کا واقعہ بلوچستان میں بھی ہو چکا ہے۔ گھروں کی بات اب دفتروں تک، پہلے جنسی فروعات کے باعث، سر چڑھ کے بولتی ہے اور راستہ بند ہوتا ہے کس کا، اُن خواتین کا جو آرمی سے لیکر ڈیانا کی طرح بارودی سرنگیں اُڑانے کا کام کرتی ہیں۔ مجھے فیصل آباد کے ایک باپ پہ یہ پڑھ کر اور دیکھ کر فخر ہوا کہ اسکی آٹھ بیٹیاں ہیں۔ انکو وہ خود ہی الیکٹریشن کا کورس کروا رہا ہے، مجھے یاد ہے چند سال پہلے تک میٹر اُڑ جائے یا گائوں میں ٹریکٹر خراب ہو جائے تو شہر سے کوئی بندہ جاتا تھا۔ اب شکر ہے کہ دیہاتی نوجوانوں اور بچیوں نے یہ کام سیکھ لیا ہے۔ اب وہ فلموں میں بجلی سے ڈر کے مرد کے پہلو میں دبک جانے والی عورت دفن ہو چکی ہے۔ 87سالہ امریکی سپریم کورٹ کی جج کو وفات کے بعد بھی اس لئے عزت مل رہی ہے کہ وہ ساری عمر وکالت میں خواتین کے حقوق کے لئے لڑتی رہی۔ یہ بھی سچ یاد آگیا کہ حسین شہید سہروردی سے لیکر ولی خاں اور شیخ مجیب کو تو غدار کہہ کر مقدمے بنائے گئے۔ ایوب خاں کی حکومت میں جب محترمہ فاطمہ جناح مقابل آئیں تو انکو بھی غدار کہنے والے سامنے آگئے تھے۔ جب لوگ چمچے، کرچھے لیکر جلوس نکالتے تھے تو ایوب خاں پوچھتے تھے یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ الطاف گوہر جواب دیتے تھے۔ کچھ کراکری کے بارے میں شور مچا رہے ہیں اور میں خود گورنمنٹ ہائوس لاہور میں اِن باتوں کی شاہد ہوں۔

ہر دفعہ الیکشن کے دوران، خواتین پہ گند اچھالا جاتا رہا ہے۔ ہر چند ایسا دوسرے ممالک میں بھی ہوتا ہے مگر وہ خواجہ آصف والی بات، کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے۔ اگر جارج فلائیڈ کو مار کر مغربی لغت اور اشتہاروں کی زبان بدل رہی ہے تو ہم تو خود کو ریاستِ مدینہ کے نام لینے والے سمجھتے ہیں۔ زندگی تجربہ، سیاست اور ثقافت سال کے بعد آگے جاتا ہے، پیچھے نہیں جاتا۔ ہماری معاشی اور سماجی قوتیں کیوں کمزور ہوکر پیچھے ہی پیچھے چلی جارہی ہیں۔ ہم بہت یاد کرتے اور زور دیتے ہیں تو سیاحتی سرگرمیوں پر، دنیا کی تصویر ٹی وی پر دیکھیں کہ لوگ لاک ڈائون ختم ہونے پر کیسے باہر نکلتے، خوش ہوتے ہیں اور ہم شکم پروری کرتے ہوئے 40سال کی عمر کے بعد موٹاپا کم کرنے کی کوشش میں اِس طرح بدن کو کمزور کرتے ہیں کہ جیسے سیلفی لیتے ہوئے ہمارے بہت سے بچے جان سے جاتے ہیں۔

تازہ ترین