• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں بیوی کے حقوق و فرائض اور باہمی ذمے داریاں

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

ارشادِ ربّانی ہے: اور (مردوں پر ) عورتوں کا حق ہے جیسا کہ (مردوں کا) عورتوں پر حق ہے معروف طریقے پر اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ (سورۃ البقرہ ۲۲۸) اس آیت مبارکہ میںصرف حُسن معاشرت کے لیے ہی نہیں کہا گیا کہ عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا مردوں پر اللہ نے فرض کیاہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے مسائل کے بارے میں کہا گیا ہے۔اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا، اس جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اِس رشتے میں کبھی بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی۔اسلام دین فطرت اور دین انسانیت ہے ،اس نے مسلمانوں کو ایسا نظام معاشرت عطا فرمایا ہے کہ جس میں انسانی زندگی اور ہر طبقے کے افراد کے حقوق و فرائض متعین کردیے گئے ہیں۔بالخصوص میاں بیوی اور زوجین کے حقوق و فرائض کے حوالے سے اسلامی تعلیمات بہت واضح ہیں۔اسلام میں حقوق و فرائض کے حوالے سے زوجین کے باہمی تعلق اور اس رشتے کی بنیاد انتہائی پائیدار ہے۔ اس کے لیے مرد و عورت دونوں پر ذمے داریاں اور ایک دوسرے پر دونوں کے حقوق وفرائض متعین کئے گئے ہیں ،جن سے خاندان کی بنیاد مضبوط ہوتی اور معاشرے میں امن وسکون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔سورۂ نساءمیں حکم دیا گیا : ’’اور ان کے ساتھ اچھی طرح گزر بسر کرو‘‘۔ (ترجمہ روح القرآن جلد دوم) عورتوں کے ذمے احکام بیان کرنے کے بعد قرآن مجید دوبارہ شوہروں کو بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے کہ تمہارے اوپر عورتوں کے جو حقوق ہیں، انہیں اچھی طرح ادا کرو، اور خود کو بالادست و بااختیار سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ دستور شرعی کے خلاف بدسلوکی نہ کرو‘‘۔(تفسیر روح القرآن)’’یعنی ان کے بارے میں اچھی بات کرو، اپنے افعال اور اپنی ہیئت (کردار اور رویے) کو اچھا کرو، جیسا کہ تم ان سے اپنے لیے چاہتے ہو، ویسے ہی تم ان کے ساتھ (رویہ اور حسن سلوک کا معاملہ اختیار )کرو‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر)

یہاں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں سے حسنِ معاشرت یعنی معروف طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حکم دیا ہے اور ’’معروف‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کا حق پورا پورا ادا کیا جائے، مثلاً مہر، نفقہ اور باری، اگر کئی بیویاں ہوں تو ان کے درمیان باری مقرر کرنا،اسی طرح بدگوئی ترک کرکے اس کی اذیت کو ختم کرنا، اسی طرح اس کی طرف سے بے اعتنائی اور دوسروں کی طرف میلان کو ترک کرنا وغیرہ، اسی طرح ناک بھوئیں چڑھانا اور ترش روئی سے اس کے سامنے پیش آنا، جب کہ اس کا کوئی قصور بھی نہ ہو اور اسی طرح کی دوسری باتیں جو ان صورتوں میں آتی ہوں‘‘۔(احکام القرآن )

پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، یہ امر نفس انسانی کے لیے بہترین اورخوش گوار زندگی کی ضمانت ہے‘‘۔ (تفسیر قرطبی )حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اپنی بیویوں کے بارے میں اچھائی کی میری نصیحت کو قبول کرو‘‘۔ (صحیح مسلم )

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو‘‘۔ (جامع ترمذی)رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کے لیے بہتر ہو اور خود مَیں اپنے اہل و عیال کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تمہاری رفیقہ حیات مرجائے تو اس کے لیے دعا کرو‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف )حضور اکرمﷺ نے بیویوں کے حقوق کے حوالے سے فرمایا: ’’جو خود کھاؤ، انہیں بھی کھلاؤ، جیسے اچھے کپڑے اور بہترین لباس خود پہنو، انہیں بھی ویسا ہی پہناؤ، انہیں مارو نہیں اور نہ انہیں برے الفاظ کہو‘‘۔ (سنن ابوداؤد، کتاب النکاح)حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’انسان حُسن اخلاق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے‘‘۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حُسن الخلق )

قرآن میں حکم دیا گیا: ’’وَعَاشِرُوہُنّ بِالمَعرُوف‘‘ عورتوں سے حُسن سلوک سے پیش آؤ۔ (سورۃ النساء: ۱۹)

چناںچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاؤ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:’’ خیرُکمُ خیرُکمُ لأہلہ‘‘ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہوں۔(مشکوٰۃ، کتاب النکاح)

بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ ﷺنےحجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو ،وہ تمہاری زیر نگیں ہیں، تم نے انہیں اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور انہیں اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں ،جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو، اگر ایسا کریں تو تم انہیں ہلکی سزا دے سکتے ہو اور تم پر انہیں کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔(مشکوٰۃ بروایت صحیح مسلم ، فی قصۃ حجۃ الوداع)

آپﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔(مشکوٰۃ، باب عشرۃ النساء)

آپﷺ نے فرمایا:کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔(مشکوٰۃ، ترمذی)

نبی اکرم ﷺ کے ارشادات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں، حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے حسن معاشرت کے ساتھ ساتھ صبروتحمل سے کام لینے والا اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔

اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو کتنا بلند مقام حاصل ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں ‘‘معروف‘‘ یعنی اچھے طرزِ عمل اور حُسنِ معاشرت کاخیال کیا جائے، تاکہ وہ زندگی کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن معاشرت برتیں۔ ارشادِ ربانی ہے :اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔(سورۃ النساء: ۱۹)

اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کی تابعدار ی کرتی ہیں ،وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ (سورۃ النساء ۳۴) رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں مرد کا سب سے بہترین خزانہ نہ بتاؤں؟ (بہترین خزانہ )وہ نیک عورت ہے، جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ شوہر کو خوش کردے، جب شوہر اسے کوئی حکم کرے تو شوہر کا کہنا مانے۔ اگر شوہر کہیں باہر سفر میں چلا جائے تو اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔ (ابوداؤـد، نسائی) شوہرکے مال کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کے مال میں سے کچھ نہ لے، اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دے۔ ہاں اگر شوہر واقعی بیوی کے اخراجات میں کمی کرتا ہے تو بیوی اپنے اور اولاد کے خرچے کو پورا کرنے کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر مال لے سکتی ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ہند بنت عتبہ سے فرمایا تھا، جب انہوں نے اپنے شوہر کے زیادہ بخیل ہونے کی شکایت کی تھی: اتنا مال لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہاری اولاد کے متوسط خرچے کے لئے کافی ہو۔ (بخاری، مسلم) شوہر کی آبرو کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل نہ ہونے دے، کسی نامحرم سے بلا ضرورت بات نہ کرے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔

اسلام نے فرد اور معاشرے کی اصلاح ، استحکام، فلاح وبہبود اورامن وسکون کےلیے ہر شخص کے حقوق وفرائض مقرر کردیے ہیں۔میاں بیوی ایک دوسرے کالباس ہیں، ایک دوسرے کی عزت ہیں ایک کی عزت میں کمی دونوں کےلیے نقصان کا باعث ہے۔ ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے۔زوجین اگر دینی تعلیمات کے مطابق ایک دوسرے کےحقوق خوش دلی سے پور ے کرنے لگیں تونہ صرف بہت سی خرابیوں کا خاتمہ ہوجائے گا، بلکہ ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔

تازہ ترین