ہالینڈ کے (DEN HAAG) شہر دی ہیگ میں موسم گرما کی ایک دھنک رنگ خشک شام تھی۔ یہ 1992ء کی بات ہے، ہم کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کے لئے نکلے تھے، پاک فوج کے اس نوجوان ریٹائرڈ بانکے اور سجیلے میجر نے جس نے حال ہی میں فوج کی نوکری کو چھوڑ اتھا، جنرل ضیاء الحق کی آمریت اور مارشل لاء کے دور کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ (ریٹائرڈ) میجر انوار الحسن علوی نے چلتے چلتے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: ”کیا آپ تصور یقین کریں گے کہ نواز شریف کو لاہور کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات کا موقع میں نے فراہم کیا تھا؟“ میں میجر علوی کی بت سن کر مسکرا پڑا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ عام طور پر یہ مشہور ہے کہ وہ جنرل جیلانی کے وسیلے سے جنرل ضیاء کے دربار تک پہنچے اور پھر منظور نظر ٹھہرے۔ میجر علوی نے بتایا کہ یہ تو اگلا مرحلہ ہے۔ لوگ جنرل جیلانی تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ معلوم نہیں کرتے کہ میاں صاحب جنرل جیلانی تک کیسے کیسے مراحل سے ہو کر گزرے۔ میں ہمہ تن گوش ہوگیا اور علوی سے کہا، اچھا آپ بتایئے آپ نے کہاں اور کیسے ان کی لاہور کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات کرائی؟ میجر علوی نے ایک لمبی سانس لی اور پھر جیسے گزشتہ واقعات ایک فلم کی طرح اس کے ذہن کی سکرین پر چلے لگے۔
انہوں نے بتایا کہ میں لاہور کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے ملاقاتیوں کے ڈیسک کا انچارج اور ان کا پرسنل سیکرٹری تھا۔ ایک دن ایک خوبرو نوجران جو شکل و شباہت سے کشمیری لگتا تھا، عمدہ سوٹ پہنے ہوئے ہمارے دفتر آیا اور خواہش ظاہر کی کہ وہ میجر جنرل صاحب سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ میں نے تعارف پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کا نام محمد نواز ہے اور وہ اتفاق فونڈریز کے میاں محمد شریف کا بیٹا ہے۔ میں نے اس کا نام لکھ لیا اور کچھ دیر بعد اندر جاکر جنرل صاحب کو دوسرے ناموں کی فہرست کے ساتھ نوجوان کا نام بھی پیش کردیا۔ جنرل صاحب نے ناموں کی فہرست میں اجنبی نام دیکھ کر کہا ”یہ کون ہے؟“ میں نے وہی بتایا جو نوجوان کاروباری شخص نے بتایا تھا۔ جنرل صاحب نے کہا: ”اسے بٹھاوٴ، ابھی مت بھیجنا، جب میں کہوں تو اندر بھیج دینا“۔ وقت کافی گزر گیا تو نوجوان بڑے مودبانہ انداز سے اٹھتا اور بڑے رکھ رکھاوٴ والے سلیقے سے میجر سے پوچھتا کہ: ”کب ملاقات ہوگی؟“ اور میجر اسے بتاتا کہ: ”ابھی انتظار کریں اور بیٹھ جائیں۔ جب آپ کی باری آئے گی، پپ کو اندر بلا لیا جائے گا“۔ بہرحال نوجوان کی باری بھی آ ہی گئی۔ اور وہ ملاقات کرنے چلا گیا۔ وہاں سے جنرل جیلانی اور پھر جنرل جیلانی سے جنرل ضیاء تک پہنچنا اور جنرل ضیاء کا ان کے لئے یہ کہنا کہ ان کا ”کِلا“ مضبوط ہے اس لئے انہیں کوئی نہیں اکھاڑ سکتا، یہ سب کچھ سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ میجر انوارالحسن علوی نے اس دن مجھے بتایا کہ اگر اس پہلی ملاقات کے دن مجھے یہ کہتا کہ یہ نوجوان جو ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات کا منتظر ہے اور بار بار میرے ڈیسک پر آکر مجھے ملاقات کے لئے اندر بھجوانے کی گزارش کررہا ہے، ایک دن پاکستان کا وزیراعظم بنے گا تو میں کبھی نہ مانتا۔ لیکن یہ ہو کر رہا۔ میجر علوی کے نزدیک یہ محض اتفاق تھا کہ اس نوجوان محمد نواز شریف کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات کا موقع فراہم کیا اور وہ پھر سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے پاکستان کی انتظامیہ کی سربراہی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
درحقیقت جسے ہم اتفاق سمجھے ہیں وہ اتفاقات محض ہمارے لئے ہوتے ہیں اللہ رب العالمین کے علم میں ہر چیز موجود ہے اور وہ علیم و خبیر رب جانتا ہے کہ کس کو کس کس مراحل سے گزار کر امتحان گاہ میں آزمائش میں ڈالا جائے گا۔ مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ دراصل یہ معلوم کرنا ہے کہ تم میں سے کون ”احسن عمل“ کرتا ہے۔ میجر علوی نے جو کہانی بیان کی تھی اس سے قطع نظر یہ کہانی تو تقریباً ہر کسی کو معلوم ہے کہ میاں محمد نواز شریف ائرمارشل اصغر خان کی جماعت تحریک استقلال سے تعلق رکھتے تھے اور صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے امیدوار تھے۔ ائر مارشل اصغر خان سے میرا ایک قلبی اور جذباتی تعلق ہے اگرچہ میں ان کی تحریک استقلال کا یا ان کی سٹوڈنٹس فیڈریشن کا کبھی رکن نہیں رہا لیکن میرے دور طالب علمی میں ان سے ملاقاتیں رہیں اور ان کے مختلف جگہوں پر خطابات سننے کا موقع ملا۔ وہ 1965ء کی جنگ کے حوالے سے میرے بچپن کے ہیرو تھے۔ ان کے متعلق بہت کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا اس لئے بحیثیت ایک بہادر ہواباز اور قومی ہیرو کے ان کا احترام رہا۔ ائرمارشل صاحب تعلقات نبھانا جانتے ہیں۔ وہ انگلستان میں تشریف لائے تو میری دعوت پر میرے پاس تشریف لائے اور میں نے ان کی ملاقات کمیونٹی کے سرکردہ لوگوں سے کرائی۔ پاکستان میں انہوں نے اسلام آباد اپنے گھر پر مجھے چائے پر بلایا، بات چیت کے دوران مجھ سے کہنے لگے کہ میاں نواز شریف نے میرے گھر آکر جنرل ضیاء الحق کی حمایت کے فیصلے سے مجھے آگاہ کیا تھا۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ ائرمارشل اصغر صاحب نے بتایا کہ وہ جن دنوں ایبٹ آباد اپنے گھر میں جنرل ضیاء الحق کے حکم کے تحت نظربند تھے، میاں صاحب ان سے ملاقات کے لئے آئے، کہنے لگے میں بہت متاثر ہوا کہ بہت کم لوگ ملنے کے لئے آتے ہیں۔ یہ نوجوان صنعت کار مجھ سے ملنے آرہا ہے، پہلے تو کم گو اور شرمیلے نوجوان سیاست دان نے خاموشی اختیار کئے رکھی اور پھر یوں لب کشائی کی: ”ائر مارشل صاحب میں آپ کی پارٹی چھوڑ رہا ہوں۔ ابا جی نے کہا ہے کہ آپ کو جاکر اطلاع دے دوں“۔ ائر مارشل نے بتایا کہ انہوں نے پوچھا آپ کون سی پارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا: ”ابا جی نے کہا ہے کہ اب ہم جنرل ضیاء الحق کی پارٹی میں شامل ہوں گے“۔ ائر مارشل اصغر صاحب نے مجھے بتایا کہ میں مسکرا پڑا اور اس شرمیلے نوجوان کی سادگی پر حیران ہو کر اسے بتایا کہ جنرل ضیاء الحق نے ابھی کوئی پارٹی نہیں بنائی۔ نوجوان صنعت کار نے بتایا کہ: ”ابا جی نے یہی کہا ہے کہ ہم ان کی پارٹی میں شامل ہوں گے“۔ اس طرح میاں صاحب ائرمارشل اصغر صابح سے مل کر واپس آئے تو پھر زینہ بہ زینہ، ایک سڑھی سے دوسری سیڑھی تک، سیاسی کامیابی کا سفر طے کرتے کرتے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔ اب 2013ء کے الیکشن میں ایک بار پھر میاں محمد نواز شریف بظاہر مقبولیت کے عروج پر ہیں اگر وہ وزیراعظم بن بھی گئے تو شاید یہ ان کی زندگی کا آخری موقع ہوگا کہ وہ اس کرسی پر براجمان ہوں گے کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ پاکستان کے بے شمار مسائل کی دلدل میں پھنس کر اور کرپشن کی کچھ جھوٹی اور سچی کہانیوں میں ملوث ہو کر کوئی بھی پرائم منسٹر مسلسل دو مرتبہ منتخب نہیں ہوا۔ اور اگر ہوا تو رہ نہیں سکا۔ بذریعہ عدالتی قتل اوپر بھیج دیا گیا۔ اگلا الیکشن شاید عمران خان جیت جائیں وہ بھی شاید ان کی زندگی کی پہلی اور آخری کامیابی کا الیکشن ہوگا کیونکہ پاکستان کے مسائل اتنے زیادہ اور وسائل اس قدر محدود ہیں کہ پانچ سال کے عرصے میں مسائل تو حل نہیں ہوسکتے البتہ اگر خلوص دل سے کوئی کوشش کرے تو موجودہ مسائل پر قابو پاکر نئے مسائل پیدا کرنے کی رفتار کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف ہوں یا عمران خان، دونوں سیاست کے کھلاڑی نہیں تھے، اللہ رب العالمین دونوں کو سنہری موقع دے رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری پہر جبکہ شام قریب ہے توشہٴ آخرت کے لئے کیا کچھ کرسکتے ہیں کہ جب روز محشر رب تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں تو سرخرو ہوسکیں۔ وہاں نامہٴ اعمال پیش کیا جائے گا۔
”پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے“