• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعری میں منفرد مزاج رکھنے والے جون ایلیا کا خط بھی منفرد

آج دنیا بھر میں ڈاک کا عالمی دن منایا جا رہا ہے،  دورِ جدید میں تیز ترین میڈیا کے باعث خط لکھنے کی روایت تو  تقریبا ختم ہی ہوگئی ہے۔

اسی دن کی مناسبت سے اردو ادب میں بیک وقت لفظی جمالیات سے مرصع اور زندگی کی تلخیوں سے لبریز اشعار تخلیق کرنے والے نابغہ روزگار شاعر جون ایلیا کا ایک خط شیئر کر رہے ہیں جو اُن کی شاعری کی طرح منفرد ہے۔

جون ایلیا نے یہ خط 11 دسمبر 1968 کو قریبی دوست عبید اللّٰہ علیم کو لکھا تھا۔

جون کا اس خط کے بارے میں کہنا ہے کہ ’عبید معلمِ عشق تھا اور میں ایک بدذوق طالب علم، جب میں نے دیکھا کہ علیم کے قریب رہ کر میرے اندر بھی عشق کے جراثیم پیدا ہوتے جارہے ہیں تو میں نے شہر سے راہِ فرار اختیار کی۔‘

شہر چھوڑنے کے بعد جون ایلیا نے عبیداللّٰہ علیم کے نام خط لکھا۔

جون ایلیا کا منظوم خط عبیداللّٰہ علیم کے نام

اے علیم اے بہارِ زخم چٹاں

موسمِ گل کی لا لا رنگ خزاں

اے زلیخا پناہ کشورِ فن

کج کلہائے دیار و دستِ سخن

اے غزالِ غزل، غزل کے شہید

آج کے چارہ ساز کل کے شہید

اے ادب اشنائے مجلسِ غم

حالت افضائے حلقہِ ماتم

اے انیسِ دلِ دل افگاراں

شاہدِ شاہدانِ شہر مغاں

وہاں سے ناشاد آ گیا ہوں میں

حیدرآباد آ گیا ہوں میں

جانے اس وقت تو کہاں ہو گا

میں نہیں ہو جہاں ، وہاں ہو گا

چاندنی لئے کی کھل رہی ہو گی

درد کی داد مل رہی ہو گی

حلقہِ نقطہ پروراں ہو گا

یار یاروں کے درمیاں ہوگا

اک فضاء بے وبالِ جاں تو ملی

کہیں مجھ سے تجھے اماں تو ملی

بند وہ ہجرہء جنوں تو ہوا

چند روزہ سہی،، سکوں تو ہوا

کرب جاں کا بہانہ جو نہ رہا

اب تو آشوبِ ہا، ہو نہ رہا

اب کے جب میں ہوں اک دور نشیں

اب تو واں فتنہ و فساد نہیں

شعر ارشاد ہو رہے ہوں گے

زخم زخموں کو دھو رہے ہوں گے

زخمِ اتھر مہک رہا ہو گا

اور سینہ دہک رہا ہو گا

جب وہ کوچے میں جانِ جاں کے گئے

سرگراں، گر، پہ،، سرگراں کے گئے

اُس کا انجام کیا ہوا ہو آخر

شامِ ازوردگی بتا آخر

مثلِ باد صبا گئے تھے وہ

چند ساتھ وہاں رہے تھے وہ

اُن پہ وہ مہرباں ہوا کہ نہیں

کاروبارِ جنوں چلا کے نہیں

اے علیم، اے ناوا تر ازِ حزیں

یارِ تسخین بخش و بے تسخین

تو بہت یاد ارہا ہے آج

دل زدہ ہائے تیری سعی علاج

چارہ گر ہائے تیری بیماری

ہائے بیمار تیری دلداری

فرضِ یاری نبھانے والے

میرے دکھ میں کراہنے والے

شعلہ سامانِ جزبہ جاں سوز

حرام عشق کے نیاز اموز

جادہ بندگی کے تُند خرام

عشق میں خد سپردگی کے امام

میری اصلاح ہے تجھے منظور

یعنی ڈھے جائے مرا قصرِ غرور

نہ رہے مجھ میں خیشتن داری

ہو انا نظرِ ناز برداری

اپنی اصلاح کر رہا ہوں میں

پندگر لے بکھر رہا ہوں میں

ہاں مگر اک بات کہنی ہے

پھر تیری بحث آ کے سہنی ہے

ائے وفا کے مبلغ اورنقیب

اے میاں ممبرِ وفا کے خطیب

خوئے تسلیم کے مسیح سلیم

تو نے کیا پا لیا وفا کر کے

ہاں زرا مرا سامنہ کر کے

کر کے مسمار اپنا قصرِ انا

داورِ حرف تو مٹا کے بنا

ناز برداریوں کے آزاری

مجھ کو بھی پندِ ناز برداری

یوں ہی یوسف بنا تھا دیوانے

انگلیاں کاٹ دیں زلیخا نے

دوسری اک مثال بھی سن لے

زکرِ امکان حال بھی سُن لے

یعنی شیوہ ہماری لیلیٰ کا

زخم جلتا ہے دل میں فردا کا

وہی خاطر وہی خرام نہ ہو

یہ بھی اُس زہر کا جام نہ ہو

جس نے تجھ کو ہلاک کر ڈالا

اور مجھ کو سہمناک کر ڈالا

زخم چابوں کے خون تھوکوں میں

کیسے ممکن ہے سر جھکا دوں میں

میں ہو ں یا تو ہو لا زوال ہیں ہم

خالکِ حُسن خد و خال ہیں ہم

ہم سے ہیں اشواہ ہائے اشک انگیز

ہم ہیں یزدانِ دہرِ خوباں خیز

سن حقیقت کہاں مجاز کہاں

ہم کہاں سجدہِ نیاز کہاں

واہ دریغہ میں اور مرا یارِ جانی

کتنے اجنبی ہو گئے ہیں

یارِ جانی لوٹ بھی آ یارِ جانی لوٹ بھی آ

تازہ ترین