اسلام آباد (انصار عباسی) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پنشن اعداد و شمار کے حوالے سے اپنے نوٹ میں ذکر کیا تھا، یہ نوٹ سپریم کورٹ کے سی ڈی اے کے معاملات کے حوالے سے تازہ ترین فیصلے کا حصہ ہے۔
اس نوٹ کو دیکھ کر اس صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے جس سے حال ہی میں ورلڈ بینک نے ملک کی وزارت خزانہ کو آگاہ کیا تھا کہ ملک میں پنشن کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ ورلڈ بینک کی یہ تحقیق رواں سال سات جون کو دی نیوز کے ساتھ شیئر کی گئی تھی۔ اس میں ملازمین کی پنشن کا حوالہ دیا گیا تھا۔
تاہم، جسٹس عیسیٰ کا نوٹ دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر ملازمین کی پنشن کو ملا کر دیکھا جائے تو اعداد و شمار انتہائی زیادہ ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججوں کو ملنے والی بھاری بھر کم ماہانہ پنشن کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ ’’مالی سال 2020-21ء میں جو رقم پنشن پر خرچ ہوگی وہ 470؍ ارب روپے ہے انہوں نے مزید کہا کہ پنشن کی ادائیگیوں کے سالانہ اخراجات تقریباً اتنے ہی ہیں جتنےحکومت کو چلانے کیلئے درکار ہوتے ہیں یعنی 476؍ ارب 58؍ کروڑ 90؍ لاکھ روپے۔ پاکستان کے عوام ان اخراجات کی ادائیگی کرتے ہیں حالانکہ ان کے اپنے پاس بہت کم بچتا ہے۔
قوم کی خدمت ایک اعزاز کی بات ہے لیکن جب پنشن کے ساتھ ساتھ سرکاری زمینیں بھی لی جائیں (جو ججوں کو الاٹ کی جاتی ہیں) تو یہ بڑی ناانصافی ہے۔‘‘ ورلڈ بینک نے حال ہی میں حکومت پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ پنشن اسکیموں کا بہت بڑا مالی بوجھ ہے اور اگر انہیں نہ روکا گیا تو ملک میں ترقیاتی مقاصد کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ پنشن کے اعداد و شمار دیکھ کر تیار کی گئی تھی۔
حکومت کو دی گئی رپورٹ میں ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ اعداد و شمار اور اندازوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بڑھتے ہوئے تنخواہ کے اخراجات کے ساتھ پنشن کے اخراجات بھی آنے والے برسوں میں بڑھتے جائیں گے اور کم ہوتے دیگر سرکاری اخراجات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
تاہم، ورلڈ بینک کی رپورٹ میں حکومت کو بتایا گیا تھا کہ ایکوئٹی کو فروغ دے کر اور مراعات محدود کرکے اور جلد ریٹائر ہونے والے افراد کی مراعات کم کرنے جیسے اقدامات کرکے یہ اخراجات کم کیے جا سکتے ہیں۔ رپورٹ میں پنشن اسکیموں کے مستقبل کے اخراجات کا بھی اندازہ پیش کیا گیا تھا اور ساتھ ہی مختلف سطحوں پر تبدیلی اور اصلاحات کے بعد کے ممکنہ اعداد و شمار اور مراعات کا احاطہ کیا گیا تھا۔