اسلام آبا د (نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نشاندہی پر پاکستان تحریک انصاف کے حامی وکلاء کی تنظیم ’’آل پاکستان انصاف لائرز فورم‘‘ کی تقریب میں شرکت پر وزیر اعظم عمران خان اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب،احمد اویس کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے جبکہ کنونشن سینٹر اسلام آباد کی انتظامیہ سے اس تقریب کے اخراجات سے متعلق بھی مکمل رپورٹ طلب کرلی۔ جبکہ پیمرا کو انصاف لائرز فورم تقریب کی نشریات کاریکارڈپیش کرنےکی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے صدر اور وزیر اعظم سمیت اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے اپنے عہدہ کے استعمال سے متعلق آئین کے آرٹیکل 248 اور لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل ایکٹ کی مختلف شقوں کی تشریح میں معانت کیلئے اٹارنی جنرل، پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین، سپریم کورٹ بار ا یسوسی ایشن کے صدر اورپنجاب بار کونسل کو بھی نوٹسز جاری کر دئیے ہیں۔
عدالت نے قرار دیاہے کہ لاء افسران اور دیگر فریقین تیاری کرکے عدالت میں پیش ہوں اور بتائیں کہ کیا ایک سرکاری عمارت، وزیر اعظم کے عہدہ اور ایڈووکیٹ جنرل کے عہدہ کو ذاتی یا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے ؟
جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے مخصوص گروپ کی حمایت اور سرکاری وسائل کا استعمال کیوں کیا، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ایسی سرگرمیوں میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں۔ فاضل عدالت نے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت نوٹس لیتے ہوئے اس کیس کو حق استقرار کے دعویٰ سے الگ کردیا اوراز خود نوٹس کیس کی حد تک مقدمہ کی سماعت کیلئے کسی موزوں بنچ کی تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوانے کاحکم جاری کیا ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سوموار کے روز حق استقرار سے متعلق دعویٰ کی سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل احمد اویس حاضر نہ ہوئے جبکہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے ان کی جانب سے کیس میں التواء دینے کی ایک درخواست پیش کرتے ہوئے بیان کیا کہ احمد اویس کو ایڈوکیٹ جنرل پنجاب مقرر کردیا گیا ہے اس لئے درخواست گزار کو نئے وکیل کی خدمات لینے کیلئے کچھ مہلت دی جائے۔
جس پر عدالت نے کمرہ عدالت میں موجود ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے اس حوالے سے استفسار کیا تو انہوںنے بتایا کہ احمد اویس کو 29جولائی 2020کو ایڈوکیٹ جنرل پنجاب مقرر کیا گیا ہے،جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس عرصہ کے دوران تو درخواست گزار کے پاس نئے وکیل کی خدمات لینے کیلئے کافی وقت تھا،تاہم عدالت نے درخواست گزار کو دو ہفتوں کی مہلت دیدی۔
دوسری جانب اس کیس کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایڈیشنل سیکرٹری سید رفاقت حسین شاہ نے عدالت کو بتایا کہ جمعہ 8اکتوبر کو ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس اور وزیر اعظم عمران خان نے حکومتی جماعت کے حامی وکلاء کی ایک تنظیم ’’آل پاکستان انصاف لائر فورم‘‘ کی تقریب میں شرکت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بارایسوسی ایشنوں کی سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ بلحاظ عہدہ پنجاب بار کونسل کے چیئرمین بھی ہیں، اور یہ ادارہ صوبہ بھر کے وکلاء کے نظم و ضبط کا ذمہ دار ادارہ ہے،لیکن بدقسمتی سے انہوںنے خود کو وکلاء کی سیاست میں ملوث کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے آئندہ منعقد ہونے والے انتخابات میں وکلاء کے ایک مخصوص گروپ کے امیدواروں کی مدد کیلئے منعقد کی گئی اس تقریب میں شرکت کی ۔
انہوں نے عدالت کے استفسار پربتایا کہ یہ تقریب ایک سرکاری عمارت ’’کنونشن سنٹر اسلام آباد‘‘ میں منعقد ہوئی ہے، جس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نمایاں تھے۔ انہوںنے مزید بتایا کہ اس تقریب کو تمام ٹیلی ویژن چینلوںنے نشر کیا ہے،جس میں ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس،وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔
فاضل وکیل نے مزید کہا کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں وہ خود کو کسی مخصوص وکلاء گروپ کے ساتھ نتھی نہیں کرسکتے ہیں جبکہ ایک پرائیویٹ تنظیم کی تقریب ایک سرکاری عمارت میں اور سرکاری خرچے پر منعقد ہوئی ہے، جوکہ عوامی عہدہ،عوام کے بنیادی حقوق بالخصوص آئین کے آرٹیکل ہائے 18,25,26سے متصادم اور وزیر اعظم کے حلف سے رو گردانی کے مترادف ہے۔
جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک ونگ ہوتا ہے،آئین کا آرٹیکل 17 جلسے جلوس منعقد کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے، بظاہر کنونشن سینٹر میں وزیراعظم نے ذاتی حیثیت میں شرکت کی ہے، وہ ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کررہے ہیں؟ ان کی کسی خاص گروپ کے ساتھ لائن نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے مخصوص وکلا کی تقریب میں شرکت کرکے کسی ایک گروپ کی حمایت کی ہے، انچارج کنونشن سینٹر بتائیں کہ کیا اس تقریب کے اخراجات ادا کیے گیے ہیں؟ کیا وزیراعظم نے نجی حیثیت میں کنونشن سینٹر کا استعمال کیاہے؟انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان تو ملک کے ہر فرد کا وزیراعظم ہوتا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل بھی کنونشن سینٹر میں ہونے والے سیاسی اجتماع میں بیٹھے رہے، وزیراعظم کا رتبہ بہت بڑا ہے،یہ تقریب کسی پرائیویٹ ہوٹل میں منعقد ہوتی تو اور بات تھی؟ تقریب کیلئے ٹیکس ادا کرنے والے عوام کا ریونیو استعمال کیا گیاہے ؟ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کی اپنی ذمہ داریاں ہیں لیکن وہ ایسی سرگرمیوں میں شریک ہوئے ہیں جن کا ان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بننے کے بعد وہ اس قسم کی سرگرمیوں میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں؟کنونشن سینٹر کسی کی ذاتی جائیداد نہیں ہے،کیا سپریم کورٹ کا کوئی جج وکلا پینل کی تقریب منعقد کرواسکتا ہے؟
بعد ازاں فاضل عدالت نے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت نوٹس لیتے ہوئے اس کیس کو حق استقرار کے دعویٰ سے الگ کردیا اوراز خود نوٹس کیس کی حد تک مقدمہ کی سماعت کیلئے کسی موزوں بنچ کی تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوانے کاحکم جاری کیا ۔
تحریری حکمنامہ کے مطابق عدالت نے وزیر اعظم عمران خان اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کونوٹس جاری کردیے ہیں جبکہ سرکاری عمارت میں ایک ایسی تنظیم جس کا بظاہر’’ سرکار اور کار سرکار‘‘ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے،کی تقریب میں وزیر اعظم عمران خان کی شرکت کے حوالے سے (صدر اور وزیر اعظم سمیت اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے اپنے عہدہ کے استعمال سے متعلق) آئین کے آرٹیکل 248 اور لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل ایکٹ کی مختلف شقوں کی تشریح میں معانت کیلئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا ہے۔
عدالت نے قرار دیاہے کہ لاء افسران اور دیگر فریقین تیاری کرکے عدالت میں پیش ہوں اور بتائیں کہ آیا کہ وزیر اعظم کے عہدہ، ایڈوکیٹ جنرل کے عہدہ اور ایک سرکاری عمارت کو ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ؟عدالت نے کنونشن سینٹر کی انتظامیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے رپورٹ طلب کی ہے کہ کنونشن سنٹر میں اس تقریب کے انعقاد کے لئے کس نے اجازت طلب کی تھی؟ اور کس سرکاری عہد یدار نے اسکی اجازت دی تھی؟
کیا اس پر اٹھنے والے اخراجات کا بل تیار کیا گیا تھا ؟ اور کیا اسکی ادائیگی کی گئی ہے، اگر کی گئی ہے ؟ تو کس نے کی ہے ؟عدالت نے ان سوالوں کے جواب کے ساتھ دستاویزی ثبوت بھی لف کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے پیمرا کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے جمعہ 8اکتوبر کو کنونشن سینٹر میں منعقدہ پاکستان تحریک انصا ف کے حامی وکلاء کی تنظیم ’’آل پاکستان انصاف لائر فورم‘‘ کی تقریب کی مکمل ریکارڈنگ اور اس میں کی جانے والی تقاریر کا مکمل متن پیش کرنے کا حکم جاری کرنے کے ساتھ ساتھ جن جن ٹیلی ویژن چینلوںنے اسے براہ راست یا بعد میں نشر کیا ہے اور جتنی بار نشر کیا ہے ؟ کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
فاضل عدالت نے قرار دیا ہے کہ چونکہ یہ بار ایسوسی ایشن، اس کے انتخابات اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب/ پنجاب بار کونسل کے چیئرمین کے عہدہ کی عزت ووقار کا معاملہ ہے اس لئے عدالت کی معاونت کے لئے پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین، سپریم کورٹ بار یسوسی ایشن کے صدر اور پنجاب بار کونسل کو بھی نوٹسز جاری کیے جاتے ہیں۔