• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرحد کے دونوں طرف غائب ہوتی ہوئی ایک ایسی نسل کے چند لوگ باقی بچے ہیں جنہوں نے ہندوستان کا بٹوارہ اور بٹوارے کے بعد برصغیر کو فسادات کی آگ میں جھلستے ہوئے دیکھا تھا۔ ایسے ہولناک فسادات اور قتل و غارت گری ہوئی تھی کہ دنیا صرف دو سال پہلے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے ایٹم بموں کی وحشت ناک تباہ کاریاں بھول بیٹھی تھی۔ برصغیر کی جس نسل نے انسانیت کی پامالی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی، وہ اب عدم موجود ہوتی جا رہی ہے۔ اِس نسل میں کسی ایک عقیدہ کے لوگ نہیں تھے۔ اُن میں ہندو تھے، مسلمان تھے، سکھ تھے، عیسائی تھے، پارسی تھے، یہودی تھے، بدھ مت کے پیروکار تھے۔ صفحہ ہستی سے مٹتی ہوئی نسل میں اب گنتی کے لوگ حیات ہیں۔ کچھ اسی برس کے ہیں، کچھ نوے برس کے ہیں، کچھ سو برس کے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم، مگر ہو سکتا ہے کہ سو برس کی عمر سے بڑی عمر کے کچھ لوگ ابھی زندہ ہوں۔ ہم آپس میں نہیں ملتے۔ ہم ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے۔ انٹرنیٹ پر ہماری کسی قسم کی کوئی تنظیم نہیں ہے۔ ایک احساس نے ہم سب کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ یہاں سے کوچ کر جانے کا احساس۔ یہاں سے چلے جانے کا احساس۔ سب سے بچھڑ جانے کا احساس۔ ہم برصغیر کے بٹوارے کے چشم دید گواہ ہیں۔ ہم سب تقریباً جا چکے ہیں۔ باقی گنتی کے ہم لوگ جو ابھی تک زندہ ہیں، رخت سفر باندھ بیٹھے ہیں۔

ہم ہندو تھے، مسلمان تھے، عیسائی تھے، پارسی تھے مگر آپس میں لڑتے نہیں تھے۔ ہم ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ ایک دوسرے کی عبادتگاہوں کو آگ نہیں لگاتے تھے۔ ہم سب جانتے تھے کہ دنیا کا بلکہ قدرت کا کاروبار ایک عقیدے، ایک زبان، ایک تہذیب، ایک تمدن، ایک رنگ، ایک نسل، ایک قوم سے نہیں چلتا۔ دنیا میں ایک سے زیادہ عقیدے ہیں۔ ایک سے زیادہ مذاہب ہیں۔ ایک سے زیادہ زبانیں ہیں۔ ایک سے زیادہ تہذیب و تمدن اور ثقافتیں ہیں۔ انیک رنگ اور انیک نسل کے لوگ ہیں۔ لاتعداد اقوام ہیں۔ اِن حقائق سے نابلد لوگ آپس میں لڑتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے عقیدے، تہذیب و تمدن کو اعلیٰ ثابت کرنے کے لئے جنگ و جدل پر اتر آتے ہیں۔ فنا ہوتی ہوئی ہماری نسل میں ایسے نہیں تھا، ہم ایک دوسرے عقیدے، تہذیب، تمدن، ثقافت اور زبان کا احترام کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے تہواروں میں شامل ہوتے تھے۔

پورے ہندوستان میں ٹرین چلانے کے پیچھے انگریز کے کئی مقاصد تھے۔ ایک مقصد گھنائونا تھا۔ وہ تھا ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفاق اور پھوٹ کا بیج بونا۔ انگریز نے اٹھارہ سو ساٹھ کے لگ بھگ ہندستان میں ٹرین کی پٹریاں بچھانے کا کام شروع کیا تھا، انیس سو پچیس کے لگ بھگ پورے ہندوستان میں پٹریاں بچھا کر ٹرین چلا دی تھی۔ تب کراچی سے کلکتہ تک بذریعہ ٹرین آنا جانا ہوتا تھا۔ لاکھوں لوگ ٹرین میں سفر کرتے تھے۔ ریل گاڑی کے ایک ایک ڈبے یعنی بوگی میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی مل کر سفر کرتے تھے۔ صرف خواتین مسافروں کی الگ بوگیاں ہوتی تھیں۔ مخصوص بوگیوں میں مسلمان اور ہندو خواتین ایک ساتھ سفر کرتی تھیں۔ اسٹیشن پر ٹرین رکتی۔ مسافر چائے پانی کیلئے پلیٹ فارم پر اترتے۔ ڈھابوں سے شیشے کے چھوٹے چھوٹے گلاسوں میں چائے لے کر چسکیاں بھرتے۔ برتنوں اور مٹی کے صراحیوں میں پلیٹ فارم پر لگی ہوئی ٹونٹیوں سے پانی بھرتے۔ کچھ عرصے تک کام اسی طرح خیر و خوبی سے چلتا رہا۔ مسلمان اور ہندو ایک ہی ٹونٹی سے پانی پیتے۔ کوئی بھید بھائو نہیں تھا۔ کچھ عرصہ بعد انگریز نے پانی کی پائپ لائنوں میں الگ الگ اضافی ٹونٹیاں لگا دیں۔ کچھ ٹونٹیوں پر ہندو پانی اور کچھ ٹونٹیوں پر مسلمان پانی کی تختیاں ٹنگوا دیں۔ یہاں سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان دوری کی ابتدا ہوئی تھی۔ پائپ لائن ایک ہوتی تھی۔ پائپ لائن سے آتا ہوا پانی بھی وہی ہوتا تھا۔ مگر انگریز نے ٹونٹیاں لگوا کر پانی کو دین دھرم دے دیا۔ ہندوستان میں سینکڑوں ریلوے اسٹیشن تھے۔ سینکڑوں پلیٹ فارم تھے۔ لاکھوں مسافر روزانہ ٹرین سے سفر کرتے تھے۔ ٹونٹیوں پر لگی ہوئی تختیوں ’’ہندو پانی اور مسلمان پانی‘‘ نے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ ڈال دی۔ اس کامیابی کے بعد انگریز نے ہندوستان میں مسلمان اور ہندوئوں کے درمیان یکجہتی پر ایک اور وار کیا۔ ٹرین میں ملنے والےکھانے کو دو نام دیے ہندو کھانا اور مسلمان کھانا۔ سینکڑوں پلیٹ فارموں پر ملنے والے کھانے کو ’’ہندو کھانا اور مسلمان کھانا‘‘ میں تقسیم کر دیا گیا۔ انگریز کی یہ حرکت تضحیک آمیز تھی۔ انگریزی ڈکشنری کے مطابق دو متبادل نام انگریز کے پاس تھے، ویج Vegاور نان ویج Non-Vegمگر انگریز نے کھانا نہیں ، کھانے کے درپردہ ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہندوستان کے بہت بڑے سیاسی لیڈروں قائداعظم محمد علی جناح، کرم چند گاندھی، موتی لال نہرو، مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی، شیخ عبدالمجید سندھی، خان عبدالغفار خان اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے رہنمائوں نے مسلمان اور ہندوئوں کے درمیان کھانے اور پانی کے نام پر دراڑ ڈالنے پر انگریز کی جامع مخالفت نہیں کی۔ انگریز نے بڑی چالاکی سے مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان نفرت کا بیج بو دیا۔ آج سرحد کے دونوں طرف انتہا پسند سیاستدان نفرتوں کی آبیاری کر رہے ہیں۔

تازہ ترین