میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ میں اپنے قلم کے ذریعے ان تمام عظیم شخصیات کو خراج تحسین پیش کروں اور ان سے عقیدت کا اظہار کروں جنہوں نے عملی زندگی میں نمایاں کردار ادا کیا ہو اور جن کی زندگی ہمارےلئے مشعل راہ ہو، اسی حوالے 16اکتوبر کا دن مجھے ایک ایسی شخصیت کی یاد دلاتا ہے جس کی تحریک پاکستان کیلئے لازوال خدمات تھیں،وہ بانی پاکستان قائد اعظم کا دست راست اور قریبی ساتھی تھا،پاکستان سے سچی محبت کرتا تھا اور اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے پر فخر محسوس کرتا تھا۔ میں نواب آف کرنال خانوادہ کے لاڈلے بیٹے نوابزادہ لیاقت علی خان کا ذکر کر رہا ہوںجنہیں آج سے 69سال قبل 16 اکتوبر 1951ء کوملک دشمن عناصر نے شہید کردیا، راولپنڈی کے کمپنی باغ میں منعقدہ جلسے کے دوران پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی سرعام شہادت آج بھی ایک معمہ ہے لیکن ان کی پاکستان سے محبت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، آخری وقت میں بھی وہ خدا سے پاکستان کی حفاظت کی دعا کررہے تھے۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے نوابزادے نے جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سبنھالیں تو سادہ طرز زندگی اختیارکرلیا ، کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم ــلیاقت علی خان کا اپنی ماہانہ تنخواہ میں گزارابہت مشکل سے ہوتا تھالیکن وہ پاکستان کو خوشحال دیکھنا چاہتے تھے، کفایت شعاری کی وجہ سےوہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں تعلیم دلواتے تھے،ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس نہ دولت ہے نہ جائیداد، میں اسی میں خوش ہوں کیوں کہ یہی چیزیں انسان کے ایمان میں خلل ڈالتی ہیں، صرف ایک جان میرے پاس ہے اور وہ بھی پاکستان کیلئے وقف ہے، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر پاکستان کی حفاظت اوربقاء کے لئے قوم کو خون بہانا پڑاتو لیاقت علی خان کا خون بھی اس میں شامل ہوگا۔اور پھر آ خر کا ر 16اکتوبر 1951ء کو انہوں نے قوم سے کیا گیا یہ وعدہ پوراکردیااور انہیںعوام سے خطاب کرنے سے پہلے ہی گولیوں سے چھلنی کردیا گیا ،انہیں شہیدِملت کا عوامی خطاب دیتے ہوئے قائداعظم کے مزار کے احاطے میں دفنایا گیا اور راولپنڈی میں واقع جائے شہادت کو لیاقت باغ کے نام سے منسوب کردیا گیا۔لیاقت علی خان تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے ، کہا جاتا ہے کہ 1930ء کی گول میز کانفرنس میں ناکامی کے قائداعظم دلبرداشتہ ہوکر لندن چلے گئے تھے اور انہوں نے تمام سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیارکرلی تھی، لیاقت علی خان نے اپنی مخلصانہ کوششوںکیںاور قائداعظم کو واپس برصغیر آکر مسلم لیگ کی قیادت کیلئے قائل کیا۔لیاقت علی خان ساری زندگی قائداعظم کے قریب رہے،انہوںنے بانی پاکستان کی قیادت میں بطورپہلے پاکستانی وزیراعظم نوزائیدہ مملکت کو درپیش مسائل پر قابو پانے کیلئے انتھک کوششیں کیں ،انہوں نے قائد اعظم کی رحلت کے بعد نہ صرف ملک وقوم کو سنبھالا بلکہ بھارت کو واضح پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ایک متحد قوم ہے اور اس کو کمزور نہ سمجھا جائے، آج بھی لیاقت علی خان کا مُکہ بھارت کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔شہیدِ ملت عالمی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ایک دوراندیش رہنماء بھی تھے جنہو ں نے امریکہ کے ساتھ خوشگوار قریبی تعلقات کے فروغ کیلئے دورہ امریکہ کو ترجیح دی، انکا یہ فیصلہ جمہوری آزادی، انسانی حقوق ، برداشت و رواداری کے علمبردار مغربی بلاک میں شمولیت کا باعث بنا ۔ قائداعظم کے مطابق قیامِ پاکستان کابنیادی مقصد ایک ایسی رول ماڈل آزاد مملکت بنانا تھا جہاں کے تمام شہری اقلیت اور اکثریت کی تفریق سے بالاتر ہوکر ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں، اس امر کا عملی ثبوت قائداعظم کا دستور ساز اسمبلی سے تاریخی خطاب ہے جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ یکساں حقوق کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی،قائداعظم کے وژن پر عمل پیرا لیاقت علی خان بھی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ساری زندگی سرگرم رہے۔ تقسیمِ برصغیر کے بعد دونوں ممالک میں کمزور اقلیتوں کے خلاف ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جانے لگا تھا، مذہبی بنیادوں پر زیادتیوں کا سلسلہ روکنے کیلئے لیاقت علی خان نے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے کی ٹھانی اور 4اپریل 1950ء کو بھارتی دارالحکومت دہلی جاپہنچے جہاں انہوں نے اپنے ہم منصب پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ دونوں ممالک میں بسنے والی اقلیتی کمیونٹی کے تحفظ کیلئے ایک تاریخی معاہدہ کیا،دونوں ممالک نے یہ تسلیم کیا کہ جغرافیائی حدود میں بسنے والے تمام باشندے متعلقہ ملک کے شہری تصور کئے جائیں گے،تقسیم کے موقع پر مذہب تبدیلی کے تمام واقعات کو جبری مذہب تبدیلی تصورکیا جائے گا، خواتین کا استحصال روکنے کی کوشش کی گئی، اقلیتوں کے مذہبی مقامات اور جائیداد کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے ناپسندیدہ عناصر کے خلاف کڑی کاروائی پر اتفاق کیا گیا ، دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت نے مینارٹی کمیشن کے تحت مقامی اقلیتی کمیونٹی کو قائدانہ کردار سونپنے کا عزم کیا، اس سمجھوتے کی بدولت دونوں اطراف کی اقلیتی کمیونٹی کے احساسِ عدم تحفظ میں کمی آئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ لیاقت نہرو پیکٹ شہیدِ ملت کی انسان دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے،گزشتہ ستر برسوں سے 16 اکتوبر کادن ہم سے تقاضا کررہا ہے کہ ہم اپنے ملک میں مقیم اقلیتوں کے مسائل کا حل یقینی بنائیں، ہمیں نئے پاکستان میں ماضی کی غلطیوں کو نادہرانےاور شہیدملت کا عہد پورا کرنے کیلئے دل و جاں سے کوششیں کرنی چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)