• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت مولانافضل الرحمٰن ایک بار پھر میدان میں اُتر پڑے ہیں، اُن کی زیر قیادت میدان سجنے کو ہے ہر جماعت پرجوش نظر آرہی ہے۔

معلوم ہوتا ہے سیاست کے کھلاڑی ایک بارپھر خم ٹھونک کر میدان میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ حالانکہ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے یہ طے کیا تھاکہ تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کریں گی۔ مرتا کیا نہ کرتاکےمصداق مجبوراً حکومت مخالف موومنٹ شروع کی جارہی ہےتاکہ حکومت کاتختہ کر دیا جائے۔ ان مخالفین کاجیسا پہلے خیال تھا کہ کپتان کو بہت کمزور ٹیم کےساتھ کھیلنے بھیجا گیا ہے۔ اس ٹیم کے تمام کے تمام کھلاڑی مشرف کی ٹیم میں ناکام کھلاڑی رہے ہیں، یہ وہی ٹیم ہے کہ جس کی کارکردگی کے باعث مشرف کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور سیاسی ہتھیار ڈالنا پڑے۔ اب موجودہ حکومت میں بھی وہی تمام کاریگر سیاست دان جمع ہیں، اس لیے حزب اختلاف کا خیال تھاکہ انہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کپتان کی وکٹ خود اس کے ساتھی ہی گرا دیں گے۔کپتان کےکاریگر ہر روز حزبِ اختلاف کو خواہ مخواہ نہ صرف چھیڑتے بلکہ انہیں اکساتے بھی رہتے اور وہ اُن کی گلفشانیوںکے جواب میں کچھ نہ کچھ کہنے پر مجبورہوجاتے پھر جواب الجواب کا سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ زرداری صاحب جو میاں نواز شریف اور ان کی جماعت سے کسی طرح کی مصالحت پر آمادہ نہ تھے اور میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کسی قیمت پر بھی زرداری صاحب کے قریب آنے کے کسی امکان کے بھی روادار نہ تھے لیکن کپتان کے حواریوں نے یہ کام بھی کر دکھا دیا اور زرداری اور شہباز شریف اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک میز پر آبیٹھے اورمفادات کی جمع تفریق ہونے لگی۔ ابتدائی نظریہ تبدیل ہونے لگا، ایک خیال یہ تھا کہ کپتان کو لانے والوں نے کمزور شاخ پر آشیانہ بنایا ہے اور یہ خود اپنے ہی بوجھ سے جلد گر جائے گا۔مگرایسا ہوا نہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ نیب کا پھندا جو فی الحال میاں برادران اور اب زرداری کواپنی لپیٹ میں لےچکا ہے، خود کپتان اور ان کے بہت سے قریبی ساتھیوں کی طرف رخ کر لے۔

اہلِ سیاست میں چاہے وہ کسی جماعت کے ہوں، خوف کی فضاتو ہے کیونکہ ملک میں یہ پہلا موقع تھا کہ برسر اقتدار وزیر اعظم کو لمحوں میں نہ صرف مسند اقتدار سے اتار دیا گیا بلکہ سلاخوں کے پیچھے کردیا گیا تھا۔اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک میں قانون کی بالادستی ہے۔ کوئی کیسا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو۔ وہ قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتا جبکہ متاثرینِ نیب یا قانون سب کے سبیہی تاثر دے رہے ہیں کہ یہ احتساب کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہاہے، بہت سوچا سمجھا منصوبہ ہےکیونکہ میاں صاحب کا عرصے سے طاقتوروں سے اختلاف چلا آرہاتھاوہ پھر اسی مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔اپنی شدید ناراضی کا بر ملا اظہار کرکے میاں صاحب نے پوری پوری کوشش کی کہ ”آبیل مجھے مار“ اور اس میں وہ کامیاب ہوگئے اور ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہوگئےتھے،اب پھر اسی مرض کاشکار ہوگئے ہیں۔

اسی طرح زرداری صاحب بھی کبھی اینٹ سے اینٹ بجانے اور اپنی سیاسی بصیرت کا اظہار کرنے سے باز نہیں آتے۔ اب پھر ایک بار انہوں نے جانتے بوجھتے اسی رویے کو اپنا لیاہے۔ تاہم اب جب انہیں اپنے گرد گھیرا تنگ محسوس ہوا تو اپنے دفاع کے لیے تمام اختلافات بھلاکر ن لیگ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ویسے بھی اہل سیاست کا کہنا ہے کہ سیاست میں کوئی بھی بات حتمی نہیں ہوتی۔ آج کے دشمن کل دوست ہوجاتے ہیں اور آج کے دوست کل دشمن ہوسکتے ہیں۔ سیاست تو نام ہی موقع محل سے فائدہ اٹھانے کا ہے۔ ویسے بھی آج کل تو خود حکمران جماعت کے خوف زدہ ارکان خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنے آؤٹ ہونے اور حکومت گرانے کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت، قتل و غارت گری اور دیگر جرائم کم ہونے کے بجائے ہر لمحہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ عوام حیران اور پریشان ہیں۔ بقول تجزیہ نگاروں کہ تحریک انصاف کو مسندِاقتدار پر بٹھانے والے بھی سوچ میں پڑگئے ہیں کہ اب کیا کریں۔ ملک کی اقتصادی اور معاشی حالت دگرگوں ہو رہی ہے۔ حکمران بوکھلائے ہوئے ہیں۔ عوام پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ آخر کب تک عوام یہ بوجھ برداشت کرسکیں گے؟ بیرونی قرضوں میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر قرضہ دینے والا اپنی شرائط بھی ساتھ دے رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے آگے ہوتا ہے کیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ اس گھر کو آگ لگ جائے گھر کے چراغ سے۔

تازہ ترین