• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’بھونگ مسجد‘ منفرد طرزِ تعمیر کے باعث اسے خاص شہرت حاصل ہے

بھونگ مسجد صوبہ پنجاب کی تحصیل صادق آباد، ضلع رحیم یار خان میں واقع ایک گاؤں بھونگ میں قائم ہے۔ یہ مسجد بہاولپور سے240 کلومیٹر اور رحیم یارخان سے تقریباً 55کلومیٹر دور واقع ہے۔ اپنے عمدہ ڈیزائن، منفرد طرزِ تعمیر اور جاذبِ نظر خطاطی کی وجہ سے اس مسجد کو خاص شہرت حاصل ہے۔ مسجد بھونگ کی تعمیر، قیامِ پاکستان سے قبل 1932ء میں بھونگ کے سردار رئیس غازی نے شروع کی۔ آپ کے جد امجد حضرت بہاؤالدین زکریا کے خلفا میں سے تھے۔

رئیس غازی کا شمار امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ بہت ہی درویشانہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ اعزازی مجسٹریٹ اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ دینی تعلیم کا حصول، عبادت و ریاضت، سماجی کاموں اور مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر ان کی زندگی کا مشن رہا۔ یہی وجہ تھی کہ رئیس غازی نے مختلف علاقوں میں مساجد تعمیر کروائیں۔ اسی مشن کے تحت انھوں نے کثیر سرمایہ کے ساتھ اپنے خاندانی محل میں بھونگ مسجد تعمیر کرنے کی ہدایات جاری کیں اور اس کی تعمیر کے ایک ایک مرحلے میں خصوصی دلچسپی لی۔

البتہ مسجد کی تعمیر کی نگرانی کے لیے ماسٹر عبدالحمید کو مقرر کیا، جنھوں نے نہایت محنت اور توجہ سے مسجد کی تعمیر کی نگرانی کی۔ مسجد کی تعمیر کےلیے آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور دیگر ممالک سے سنگِ سرخ، سنگِ مر مر، سنگِ خارا، سنگِ سرمئی اور سنگِ سیاہ منگوائے گئے۔ ان پتھروں کو کاٹنے اور تراشنے والے، ٹائلوں پر پھول بنانے والے، میناکاری و خطاطی کرنے والے، صندل کی لکڑی پر باریک اور نفیس کام کرنے والے، گلکاری کرنے والے اورسونے کے پھول بنانے والے سیکڑوں کاریگروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔

مسجد بھونگ کی تعمیر 1932ء سے1982ء تک تقریباً 50 سال میں مکمل ہوئی۔ اس عرصہ میں ہزاروں کاریگروں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ مسجد کی تعمیر کے دوران کئی کاریگر عمر رسیدہ ہو گئے اور کئی انتقال کر گئے۔ ان کے بیٹوں اور بعض کے پوتوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ یوں تین نسلوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ تمام کاریگروں کو ان کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اُجرت دی جاتی تھی۔ ماہر کاریگروں کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا بلکہ ان کے بچوں کی شادیوں کے اخراجات بھی رئیس غازی ادا کرتے تھے۔

تعمیر اتی کام کے دوران صادق آباد سے بھونگ تک مناسب ذرائع نقل و حمل موجود نہ تھے، نہ ہی کوئی پختہ سڑک تھی۔ لہٰذا بھاری مشینری اور تعمیراتی سامان صادق آباد ریلوے اسٹیشن سے بھونگ تک تقریباً 20 کلومیٹر کچے راستوں پر بیل گاڑیوں اور اونٹوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔

مسجد کی تعمیر کے لیے کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ایک خاکہ رئیس غازی محمد کے ذہن میں تھا، جس کے مطابق تعمیرات کا آغاز کیا گیا۔ اس دوران انھیں جب کسی ملک جانے کا موقع ملتا وہ وہاں کی مساجد دیکھتے اور جو چیز پسند آجاتی ، اس کے مطابق مسجد کے ڈیزائن اور تعمیر میں تبدیلی کرواتے رہتے۔ اس وجہ سے مسجد کے کئی حصوں کو دوبارہ اور کچھ کو تو سہ بارہ نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔

مسجد کی تعمیر کے دوران ہی 1975ءمیں رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے رئیس شبیر محمد نے مسجد کے کام کو آگے بڑھایا، جو خود بھی درویش صفت انسان تھے۔ 1982ءمیں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔

دنیا بھر سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے آنے لگے۔ اس کی خوبصورتی اور انفرادیت کی وجہ سے 1986ءمیں اسے تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔12 مئی 2004ءکو حکومت پاکستان نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ مسجد میں داخل ہونے والا مرکزی دروازہ مشہد میں حضرت امام رضا کے مزار کے صدر دروازے جیسا ہے۔ اندر کئی ایکڑ پر مشتمل وسیع لان فواروں سے مزین ہے۔ راہداری سے گزر کر سیڑھیاں چڑھنے کے بعد مسجد کا صحن آتا ہے جو سنگِ مرمر اور سنگِ سیاہ سے آراستہ ہے۔ یہاں بیک وقت دو ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ایک بڑے گنبد کے نیچے خواتین کے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مخصوص ہے، جو خواتین کی جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔

مسجد کے تمام دروازے ہاتھی دانت کے نفیس اور باریک کام سے مزین ہیں۔ مسجد کے برآمدے میں تقریباً 500 نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد میں ایک گنبد،چار مینار اور نماز کے لیے ایک بڑا ہال موجود ہے جن پر ہزاروں کی تعداد میں ہاتھ سے بنی ٹائلیں نصب ہیں جو اس مسجد کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہیں۔

مرکزی محراب کی تزئین و آرائش میں خالص سونا، چاندی اور قیمتی پتھر استعمال کیے گئے ہیں۔ صندل کی لکڑی کا نہایت نفیس اور دیدہ زیب کام کیا گیا ہے۔ دلکش نقش و نگار، خوبصورت گلکاری اور منفرد ڈیزائن پر مشتمل یہ مسجد سیاحوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔

تازہ ترین