• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّدِ عرب و عجم، ہادیِ اعظم، حضرت محمّد ﷺ کی شخصیت و سیرتِ عظمٰی ازل سے ابد تک زمان و مکاں کااحاطہ کیے ہوئے ہے۔ کائنات کی ہر شے رسالت مآب ﷺ کی نبوّت و رسالت کے بیکراں جلال و جمال کی گرفت میں ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ سرکارِدوجہاں، رحمۃلّلعالمین، سیّد المرسلین ﷺ کی مدحت و رفعت کا شاہد ہے۔ ’’انّا اعطیناک الکوثر‘‘ اور ’’ورفعنا لک ذِکرک‘‘ کی دل آویز صداؤں سے زمین و آسمان گونج رہے ہیں۔ سرورِ کائنات ﷺ کانامِ نامی، اسمِ گرامی ’’محمّد رسول اللہ‘‘ اور آپؐ کا ذکر اتنا بلند ہوا کہ کون و مکاں کی ساری رفعتیں، بلندیاں اس اسمِ مقدّس اورعظیم ہستی کےسامنےپَست ہوکر رہ گئیں۔ فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک سب ذکرِمبارک سے معمور ہیں اور یہ رتبۂ بلند کُل کائنات میں آپؐ کے سوا نہ کسی کونصیب ہوا ہے، نہ ہوگا۔ اس ابدی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے سیّد صبیح رحمانی کیا خوب کہتے ہیں؎

کوئی مثل مصطفیٰؐ کا کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا

کسی اور کا یہ رتبہ کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا

مشہور مفسّرِ قرآن، علّامہ سیّد محمود آلوسی قرآن کریم کی آیتِ مبارکہ ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں،’’اس سے بڑھ کر آپؐ کی عظمت و رفعت، سیرت عظمٰی اور نام نامی کی بلندی کیا ہوگی کہ کلمۂ شہادت میں اللہ تعالیٰ نے اپنےنام کےساتھ اپنے محبوبﷺ کا نام ملا دیا، حضور اکرمﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کے ساتھ آپﷺ پر درود بھیجا اور اہل ایمان کو آپﷺ پر درود بھیجنے کا حُکم دیا، اور جب بھی خطاب کیا، معزز القابات سے مخاطب فرمایا،گزشتہ آسمانی صحیفوں میں بھی آپﷺ کا ذکرِ خیر فرمایا۔ تمام انبیائے کرامؑ اور ان کی اُمّتوں سے عہدلیاکہ وہ آپﷺ پر ایمان لائیں گے۔

یہ ایک تاریخی اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ آج کرۂ ارض پر آباد کوئی خطّۂ زمین ایسا نہیں،جہاں شب و روز سرورِ عالم، حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا اعلان نہ ہورہا ہو، 24 گھنٹوں کے 1440 منٹوں میں زمین کے کسی نہ کسی کونے اور دنیا کی آبادی کے کسی نہ کسی گوشے میں اذان کی آواز ضرور سُنائی دیتی ہے۔ اذان میں چوں کہ خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ سرورِ کائنات ﷺکا نامِ نامی بھی بلند ہورہا ہے، تو اسم محمّدﷺ کی عظمت و رفعت اس سے بھی نمایاں ہے کہ جب تک کرّۂ ارض پر اذان کی آواز گونجتی رہے گی، اللہ کے نام کے ساتھ اُس کے محبوب پیغمبر، سیّدنا حضرت محمدﷺ کا نامِ نامی بھی سماعتوں میں رَس گھولتارہےگا،لادینیت کےاس دَور میں بھی آپﷺ کے دین متین کی تبلیغ اور آپﷺ کی سیرت و پیغام کو عام کرنےکی کوششیں پورے خلوص کےساتھ جاری ہیں۔ آپﷺ کا اسم گرامی لےکر،ذکرِ خیر کرکے اور آپﷺ کے محاسن سُن کر کروڑوں دِلوں کو جو سرور اور فرحت نصیب ہوتی ہے،اس کاجواب نہیں۔ اپنےتورہے ایک طرف، بیگانوں اور متعصّب مخالفین کابھی بارگاہِ رسالتؐ میں خراج عقیدت پیش کیے بغیر چارہ نہ رہا۔ 

اگر آپ اُن حالات کو پیشِ نظر رکھیں، جن میں یہ آیت نازل ہوئی اور پھر اس آیت کو پڑھیں تو اسے پڑھنے کا لُطف دوچند ہوجائے گا، کفر و شرک کی تاریکیوں میں ڈوبی پوری دنیامخالف ہے، مکّےکےنام وَر سردار چراغ مصطفویؐ کوبجھانے کے درپے ہیں…ان حالات میں یہ آیت نازل ہوئی۔کون تصوّر کرسکتا تھا کہ مکّے کےاس یتیمؐ کاذکرِپاک دنیا کے گوشے گوشے میں بلند ہوگا، آپﷺ کے دین کی روشنی سے مہذّب دنیا کا بہت بڑاعلاقہ منوّر ہوگا، اور کروڑوں انسان آپﷺ کےنام پر جان دینے کو اپنے لیے باعثِ صد افتخار و سعادت سمجھیں گے، لیکن جو وعدہ ربّ العالمین نے اپنے محبوب رسول، اور برگزیدہ بندے حضرت محمّد ﷺ سے کیا تھا، وہ پورا ہوکر رہا اور قیامت تک ذکر محمدﷺ کا آفتاب عالم تاب ضو فشانیاں کرتا رہے گا۔

مولاناعبدالماجددریا آبادی کیا خُوب لکھتے ہیں ’’آخر خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ جس کا نام زبانوں پر آتا ہے، اللہ کے ذکر کے ساتھ جس بندے کا ذکر کانوں تک پہنچتا ہے، وہ کسی قیصر و کسریٰ کا نہیں، دنیا کے کسی شاعر و ادیب کا نہیں، کسی حکیم وفلسفی کا نہیں، کسی جنرل ، سردار کا نہیں، کسی گیانی،راہب کا نہیں،یہاں تک کہ کسی دوسرے پیغمبر کابھی نہیں، بلکہ عبداللہ کےلختِ جگر، آمنہ کے نورِنظر، خاکِ بطحیٰ کے اُسی اُمّی و یتیم کا ہے۔ 

کشمیر کے سبزہ زاروں، دکن کی پہاڑیوں، افغانستان کی بلندیوں، ہمالیہ کی چوٹیوں میں، گنگا کی وادیوں، چین، جاپان، جاوا، برما، روس، مصر، ایران، عراق، فلسطین و عرب کی پوری سرزمین میں، ترکی، نجد، یمن، مراکش، طرابلس، ہندوستان کےگائوں گائوں اور اُن سب مہذّب مُلکوں کو چھوڑ کر خاص نافِ تمدّن و مرکزِ تہذیب لندن، پیرس اور برلن کی آبادیوں میں ہرسال نہیں، ہر ماہ نہیں، ہر روز پانچ پانچ مرتبہ بلند و بالا میناروں سے جس نام کی پکار خالق کے نام کے ساتھ فضا میں گونجتی ہے، وہ اسی عظیم اور مقدس ہستی کاہے، جسےبصیرت سےمحروم دنیا نے ایک زمانے میں محض ایک بے کس و یتیم کی حیثیت سے جانا تھا، یہ معنیٰ ہیں،یتیم کےراج کے،یہ تفسیر ہے ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کی۔ کسی ایک صوبے پر، کسی ایک جزیرے پر نہیں، دنیا اور دنیا کے دِلوں پر آج حکومت ہے تو اِسی یتیمؐ کی، راج ہے تو اِسی امّیؐ کا۔‘‘

صحابی ٔرسولؐ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’جبرائیل امینؑ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا، میرا اور آپﷺ کا رب مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں نے کس طرح آپﷺ کا ذکر بلند کیا، مَیں نے عرض کیا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے، انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکرکیاجائےگا تو میرے ساتھ آپﷺ کا بھی ذکر کیاجائے گا۔‘‘ ’’تمہارے نام کی رٹ ہے خدا کے نام کے بعد…‘‘

تکبیر میں، کلمے میں، نمازوں میں، اذان میں

ہے نامِ الٰہی سے ملا نامِ محمدؐ

چنانچہ آج زمان و مکاں کا وہ کون سا گوشہ، کون سی ساعت، کون سا لمحہ ہے، جو ذکر حبیبﷺ سے خالی ہے۔ اس عالم شش جہات کے گوشے گوشے میں، گردشِ زمین کے ساتھ ہر اذان میں ہمہ وقت آپ ﷺکا نامِ نامی بلند ہورہا ہے۔ دشت وجبل، صحراودریا، بحروبر، شہرودیہات، آبادیوں، ویرانوں، سمندروں، پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں میں ہمہ وقت آپﷺ ہی کے نامِ نامی ’’محمّد رسول اللہﷺ‘‘ کی پکار ہے۔ دنیا کا گوشہ گوشہ اور کرۂ ارض کاچپّہ چپّہ، سیّدِ عرب و عجم، ہادیِ عالم حضرت محمد ﷺ کے نامِ مبارک کی پکار سے گونج رہا ہے۔’’ورفعنالک ذکرک‘‘ بلندی ذکر کی یہ وہ تفسیر ہے، جو اوراقِ لیل و نہار پر ساڑھے چودہ سو سال سے ثبت چلی آرہی ہے،اقبال کیا خوب کہتے ہیں ؎

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے

بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے

چین کے شہر، مراکش کے بیابان میں ہے

اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے

چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے

رفعتِ شانِ ورفعنالک ذکرک دیکھے

سرکارِ دوجہاںﷺ کی سیرتِ طیّبہ اور حیاتِ مقدّسہ کا یہ تاریخی و ابدی اعجاز ہے کہ اپنے اور بےگانے، مسلم اور غیرمسلم سب ہی آپ ﷺکے ثنا خواں اورعظمت و رفعت کے معترف نظر آتے ہیں، معروف ہندو شاعر منوہرلال دل کیا خُوب کہتے ہیں؎

کیا دل سے بیاں ہو تِرے اخلاق کی توصیف

عالم ہوا مدّاح ترے لطف و کرم کا

مشہور مغربی مصنف ای ڈرمنگھم سیرتِ طیبہ پر اپنی کتاب "Life of Muhammad" میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتا ہے’’محمّدﷺ اس اعتبار سے دنیا کے وہ واحد پیغمبر ہیں، جن کی زندگی ایک کُھلی کتاب کی طرح ہے، اُن کی زندگی کا کوئی گوشہ مخفی نہیں، بلکہ ہر ہر گوشہ روشن ومنوّر ہے‘‘۔ مہارانی آرٹس کالج میسور (بھارت) کے صدر شعبہ پروفیسر راماکرشنارائو اپنی کتاب ’’محمّدﷺ، دی پرافٹ آف اسلام‘‘میں لکھتےہیںٖ’’محمّدﷺ میرے نزدیک ایک عظیم مفکّرہیں۔ تمام اعلیٰ انسانی سرگرمیوں میں آپﷺ ہیرو کی مانند ہیں۔‘‘ بیسویں صدی کے اوائل 1911ء میں بیروت کے مسیحی اخبار ’’الوطن‘‘ نے دنیا کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا کہ دنیا کا سب سے عظیم انسان کون ہے؟ اس کے جواب میں ایک عیسائی دانش وَر داور مجاعص نے لکھا’’دنیا کا سب سے عظیم انسان وہ ہے، جس نے دس برس (مدنی زندگی) کے مختصر عرصے میں ایک عظیم مذہب، ایک نئے فلسفے، ایک نئی شریعت اورایک نئےتمدّن کی بنیاد رکھی، جنگ کا قانون بدل دیا، ایک نئی قوم پیدا کی، ایک نئی طویل العمر سلطنت قائم کی، ان تمام کارناموں کےباوجود یہ عظیم انسان اُمّی اور ناخواندہ تھا، وہ کون …؟محمّدبن عبداللہ قریشی، اسلام کے پیغمبرﷺ۔‘‘

اکیسویں صدی کے آغاز میں رابطہ عالم اسلامی مکۂ مکرمہ نے اپنے مشہور ہفت روزہ عربی جریدے ’’العالم الاسلامی‘‘ 28؍ربیع الاول 1421ھ 30؍جون 2000ء میں ایک اہم خبر انٹرنیٹ سے متعلق شائع کی کہ کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کرنے والی دنیا کی مشہور کمپنی "Microsoft" نے الفِ ثالث یعنی تیسرے ہزاریے (Millennium) کے موقعے پر انٹرنیٹ کی دنیا کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ دنیا کی وہ عظیم ترین شخصیت کون ہے، جس نے اپنے فکر و عمل سے انسانی تاریخ اور انسانی زندگی پر گہرے نقوش ثبت کیے، اور دنیائے انسانیت اس کی فکر و اثر سے زیادہ متاثر ہوئی؟کمپنی نے رائے دہی اور شخصیت کے انتخاب کے لیے امیدوار کے طور پر 17خصیات کے نام ذکر کیے تھے، جن میں انبیائے کرام میں حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ سیّد المرسلین، خالم النبیّین حضرت محمدﷺ کا نامِ نامی بھی شامل تھا، سوال کے جواب میں ناظرین نے اپنے علم، مطالعے، معلومات، انسانی تاریخ اورانسانی تہذیب وتمدّن کے تجزیے کی روشنی میں اپنی اپنی رائے پیش کی کہ انسانی تاریخ کی وہ عظیم ترین اور بااثر شخصیت جس نے اپنی فکری، عملی اور اخلاقی قوت سے دنیا میں ایک عظیم، مثالی انقلاب برپا کیا، اور انسانی فکر و تاریخ کے دھارے کو موڑ کرسسکتی بلکتی انسانیت کو سعادت و فلاح کی راہ پر گامزن کیا، وہ پیغمبر اسلام، سرور کائنات، حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ذات بابرکات ہے، اس ضمن میں یہ حقیقت پیشِ نظررہےکہ انٹرنیٹ پر رائے دہندگان میں غالب اکثریت مغرب کی مسیحی دنیا پر مشتمل تھی۔ سرکارِ دوجہاںﷺ کی مدحت و رفعت اور تعریف کا یہ وہ مثالی اور تاریخ ساز پہلو ہے، جس کی روشنی میں اجالا بڑھتاہی جارہا ہے، آپﷺ کے ذکر مبارک سے دنیا روشن اور آپﷺ کے دین و تعلیمات کے نور سےانسانیت منورہوتی جارہی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہ بھی ایک ابدی اورتاریخی حقیقت ہے کہ ؎

لایمکن الثناء کما کان حقّہ

بعدازخدا بزرگ توئی قصّہ مختصر!

تازہ ترین