• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عہد حاضر کے ’’زعفرانی شاعر، خالد عرفان‘‘

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
اگر قلم آپ کے ہاتھ میں ہوتو یوں جانئے کہ یہ انصاف کا ترازو ہے جسے آپ نے تھام رکھا ہے۔ یہ کسی باصلاحیت کی بڑائی اور خوبیاں بیان کرنے میں اگر کہیں ڈنڈی مار دے تو اس میزان کا پلڑا مساوی تصویر پیش نہ کرسکے گا۔ قلم اگر میزان ہے تو اسے تعریف کے، بڑائی کے، اوصاف کے، قدردانی کے اور خوبیوں کے پلڑے کو مساوی رکھنا ہوگا، انصاف سے کام لے کر کہ یہ بڑائی اور خوبیوں والے اصل خدمت گار ہوتے ہیں جو قابل قدر ہیں۔ شاعری ایک وسیع صنف ہے جس میں غزل، نظم، گیت، مثنوی، مرثیہ، منقبت، حمد و نعت وغیرہ ہیں اور ان کی بھی تہہ در تہہ کئی امثال ہیں۔ انہیں اضاف میں مزاح اور ہلکی پھلکی شاعری کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔ سادہ مگر ذومعنی طنز جذبات نگاری کی پہچان ہے گویا ہر انسان کے دل کی بات مگر جسے کہنا اور الفاظ کی زبان دینا عام لوگوں کیلئے مشکل ہو تو ایک جذبات کا ترجمان، مہان شاعر اسے خوبی سے بیان کردیتا ہے۔ اس صنف مزاح کی خوبی تو ہے ہی جو ہے مگر کہنے والا اس صنف میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ دنیا ہمیشہ آشوب زمانہ رہی ہے اسکی ہلچل، ہنگامہ خیزی، فتنہ گیریاں عروج پر رہی ہیں۔ پھر جب ہنگامہ آرائی میں شہروں، معاشروں، محلوں میں افراتفری کے سبب ناہمواری پیدا ہو تو حالات میں تلخیاں گھل جاتی ہیں اور ان تلخیوں کو، ناہمواریو کو خوبصورت مزاح میں ڈھالنے والا عظیم شاعر ہوتا ہے جو حالات میں اپنی تحریر سے شگفتگی پیدا کرتا ہے۔ ایسے حالات کو ہی ہلکا پھلکا بنا کر ماحول میں مزاح کی چاشنی گھولنے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے ہمارے نہایت محترم مزاح کے حالیہ خدمت گار خالد عرفان نے جو حالیہ دور کے عوامی جذبات نگار ہیں جو انصاف سے یہ کارنامہ انجام دے رہے ہیں کہ آج جب ہمیں ملکی سیاست سے لے کر مہنگائی اور دوسرے کئی مسائل کا سامنا ہے تو ایسے حالات میں کوئی نرم ملائم راحت بخش قسم کی تفریح کی تمنا ہوتی ہے تو یہ نیک کام معروف و ممتاز شاعر حالیہ حالات میں خالد عرفان صاحب ہی ہم تمام قارئین تک پہنچا رہے ہیں۔ جانے خدا کی کونسی خاص صلاحیت ہے جو خدا نے خالد کو ودیعیت کی ہے کہ قاری ان کے ایک ایک لفظ اور خیال سے لطف اندوز ہوکر سردھنتا ہے اور تعریف و توصیف کی انصاف سے داد دیتا ہے۔ خالد عرفان کو ان کے خاص شگفتہ کلام کی وجہ سے جس قدر پذیرائی اور قدرومنزلت حاصل ہے وہ ہمیں کہیں دیکھنے کو نہ ملی۔ انہوں نے ملک و قوم کے مسائل کو حساس طریقے سے اپنے کلام میں ڈھالا ہے۔ ہر مسئلے کو موضوع بنانا آپ ہی کا خاصا ہے کہ
کوٹہ سسٹم واقعی ایک حق شکن قانون ہے
ڈگریوں کا ہے جنازہ اہلیت کا خون ہے
میٹرک کرلو تمہیں افسر بنایا جائے گا
اور ’’پی ایچ ڈی‘‘ کو چپڑاسی لگایا جائے گا
خالد عرفان نے مزاح کے ذریعے ہر ایک کے مسائل کو زباں بخشی کیونکہ کہنے والا جب خاص طریقے سے کہے گا تو اثر حکام بالا تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ چند ماہ پہلے کراچی کی حالت دیکھ کر دل کرچی کرچی ہورہا تھا لوگ غم میں ڈوب رہے تھے سبھی کے دکھ کو محسوس کرکے ہی آپ نے کہا تھا کہ
تمام عمر کی ساری کمائی ڈوب گئی
غریب شہر کی جب چارپائی ڈوب گئی
کبھی ہوا میں، کبھی پانیوں میں رہتا ہے
عجیب شہر ہے طغیانیوں میں رہتا ہے
بہت سے قارئین خالد عرفان کو مسائل پر تنقید کے نشتر سے کلام پر دسترس رکھنا خیال کرتے ہیں، کچھ کے خیال میں آپ کو طنز و مزاح کا سخن ور مانا جاتا ہے۔ مگر ہمارے خیال میں انہوں نے پوشیدہ سی احساس کی ردا اوڑھ رکھی ہے کہ وہ قوم و حالات کی بدحالی کو ظرافت کے زعفرانی ورق میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے کلام کی رمزیت منفرد انداز میں بحرانی حالات اور حقائق کے مناظر پیش کرتی ہے۔ ان کا کلام خصوصی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے جیسا کہ کچھ یوں کہتے ہیں
وطن سے دور، سمندر کے پار گزری ہے
ہماری عید، بہت سوگوار گزری ہے
امیر شہر سے آشیرواد لیتی ہوئی
غریب شہر پر ہوکر سوار گزری ہے
خالد عرفان کا کلام اداس لوگوں کیلئے مجرب نسخہ ہے کہ بیمار و مایوس بھی مسکرا اٹھتا ہے کہ ان کی کہی ہوئی بات کلام کے ذریعے دشوار نہیں آسانی سے سمجھ آتی ہے کہتے ہیں
تمہاری دعوت قبول مجھ کو مگر تم اتنا خیال رکھنا
بیئر کسی بھی برانڈ کی ہو چکن فرائیڈ حلال رکھنا
آج ہم حالات کے جس بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان حالات میں لمحہ لمحہ، تلخی گھلی جاتی ہے مگر تفریح طبع کیلئے خالد عرفان کا کلام شگفتگی بکھیر دیتا ہے یوں کہنا چاہئے کہ آپ کا کلام طلسم آمیز ہے جو قاری کو مزاح کی طمانیت بخشتا ہے۔ کلام طنزو مزاح کے ساتھ ساتھ فکر انگیز بھی ہو تو تخلیقی روش کا اندازہ ہوتا ہے کہ سخنور میں حساسیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہتے ہیں
ہماری وجہ زوال کیا ہے؟ سوال یہ ہے
حرام کیا ہے؟ حلال کیا ہے؟ سوال یہ ہے
تمہارے تاجوں کے ہیرے موتی تمہیں مبارک
مگر رعایا کا حال کیا ہے؟ سوال یہ ہے
خالد عرفان صرف مزاح کی چاشنی ہی نہیں بکھیر رہے بلکہ اردو کے غیر معروف مگر خوبصورت الفاظ کا چنائو کرکے ہمیں محظوظ اور علم میں اضافہ فرما کر خدمت کررہے ہیں ان کے کلام میں کئی الفاظ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں مثال کے طور پر ان کا کلام ’’غزل ہم کراچی خراب کہتے ہیں‘‘ میں ایک دو اشعار میں نہایت دلچسپ الفاظ نطر آئے جیسے ’’اصول عطف‘‘ اور ’’غلاف پائے سفر‘‘۔ اشعار میں ان الفاظ کا استعمال ملاحظہ کیجئے کہتے ہیں۔
اصول عطف و اضافت ہمیں نہیں معلوم
کباب سیخ کو سیخ کباب کہتے ہیں
یہ لکھنو کے مہاجر، یہ ’’رام پور‘‘ کے پٹھان
غلاف پائے سفر کو جراب کہتے ہیں
یوں تو آپ کی ہر تحریر ہی دلچسپ اور شگفتہ ہے مگر آپ صرف مزاح ہی نہیں بلکہ سنجیدہ کلام بھی کہتے ہیں۔ خالد عرفان کے کلام صرف طنزو مزاح سے مرقع نہیں کہ طنز کی آمیزش کیساتھ ان میں رمز کی شگفتگی بھی ہے۔ تفنن ہے مگر کسی بھی طبقے کی تضحیک نہیں ہے۔ مزاح کے قاری اچھی طرے جانتے ہیں کہ مزاح صرف اکبرالہٰ آبادی کے دور سے لیکر یوسفی تک محدود نہیں اسے وسعت دیجئے اور مزاحیہ نشروشاعری کے دور کو خالد عرفان کے دور تک لے آیئے۔ ان کے قدر دانوں کو کرونا دور میں آپ کے کلام سے ماحول کی گھٹن سے آزاد ہونے کا سہارا ملا کیونکہ آپ نے اس پر بھی خوب کہا
تم نے ’’کووڈ‘‘ میں اگر منہ نہ لگایا مجھ کو
ناک پر ماسک چڑھائوں گا، چلا جائوں گا
میں تیری کار کا احسان نہیں لے سکتا
گھر پر ’’اوبر‘‘ کو بلائوں گا، چلا جائوں گا
تازہ ترین