• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے یقین ہوگیا سلیکٹڈ ہم نہیں سلیکٹڈ یہ ہیں، شبلی فراز


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ “میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ سلیکٹڈ ہم نہیں سلیکٹڈ یہ ہیں،صدر مسلم لیگ ن پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ گیارہ جماعتیں اس بات پر متفق ہوئی ہیں کہ پاکستان جمہوریت ، قانون کی بالادستی اور آئین کے تحت چل سکتا ہے،اس ملک میں غیر آئینی مداخلت ختم ہونی چاہئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ اسٹیڈیم کے باہر تو21 کروڑ عوام ہے اگر یہ اس کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں۔جب وضاحتیں پیش کی جانے لگیں تو اس کا مطلب ہے کہ کام ٹھیک نہیں ہے۔گوجرانوالہ نواز شریف کا سسرال ہے مریم نواز کا ننھیال ہے یہاں سے انہوں نے ساری سیٹیں جیتی ہوئی ہیں۔

پورے سینٹرل پنجاب میں پی ٹی آئی نے صرف دس نشستیں جیتی ہیں۔ اب تو مجھے یہ یقین ہوگیا ہے کہ سلیکٹڈ ہم نہیں سلیکٹڈ یہ ہیں۔اگر اتنی سیٹوں کے ساتھ یہ بندے بھی نہیں لاسکے کے آدھا اسٹیڈیم نہیں بھرسکے انہوں نے اسٹیج آگے لگا دیا تھا۔اگر آپ ذاتی ایجنڈے پر چلیں گے تو قوم آپ کے پیچھے نہیں آئے گی۔اگر ملک کے لئے ایک ایجنڈا لے کر چلیں گے جس طرح عمران خان لے کر چل رہا ہے آپ کے پیچھے کروڑوں لوگ آئیں گے ۔

مولانا فضل الرحمٰن کو خالی کرسیوں سے خطاب کروا دیانہ تنظیم تھی نہ یقین تھا نہ اتحاد تھا۔ان کا پروگرام فلاپ تھا انہوں نے تقاریر کیا کیں گالم گلوچ کی گندی زبان استعمال کی جس کا جواب عمران خان نے بڑی اچھی طریقے سے دے دیا۔تقاریر میں پاکستان کے لئے کچھ نہیں تھا یہ وہی لوگ اکٹھے ہوئے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جو کہ منافقت کررہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن جو ان کے اتحاد کے سربراہ ہیں ان کو انہوں نے خالی کرسیوں پر خطاب کروایا۔ان کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں انتشار پھیلائیں ملک میں بے یقینی پھیلائیں ملک میں مایوسی پھیلائیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جو باہر بندہ بیٹھا ہوا ہے اس میں اتنی جرأت تو ہونی چاہئے کہ وہ پاکستان آئیں۔یہ انقلابی کیسے بنے ہیں چالیس سال تو یہ اسی دور میں چل رہے تھے یہی انتخابات تھے یہی ادارے تھے یہی سب کچھ تھا۔ 

انہیں عوام کو یہ تو بتانا چاہئے کہ جو یہ چالیس سال میں نہیں کرسکے ہیں ان کے پاس کیا ایسا جادو آیا ہے کہ یہ اچانک انقلابی بن گئے ہیں ۔ ہمیشہ فائدے اٹھاتے رہے ہیں جب چیزیں ان کی منشا کے مطابق نہیں ہوتی ہیں تو یہ کھڑے ہوجاتے ہیں ۔یہ تو ایک ضدی بچے کی ضد ہے جو نالائق بھی ہے جو کرپٹ بھی ہے اوپر سے وہ غصے بھی کرتا ہے۔

عام لوگ جو کہ جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں آیا ان کو یہ سہولتیں ملتی ہیں ۔ انہوں نے ہی تو فراڈ بنایا ہے یہ جیل میں جاتے تھے فائیو اسٹار کا کمرہ بنا دیتے تھے۔کہتے ہیں آصف علی زرداری دس سال جیل میں رہا ہے آپ کو پتہ ہے کہ وہ کن کمروں میں کس ماحول میں رہتا تھا۔

ان کو پتہ ہے کہ جب یہ جیلوں میں جاتے ہیں ان کو تقریباً فائیو اسٹار کی سہولتیں ملتی ہیں ۔ہم نے ان کو جلسہ کرنے دیا ہے اور یہ ثبوت سامنے آگیا ہے کہ ایک فلاپ شو تھاایک سرکس تھاہم ان کو اجازت دے رہے ہیں کل یہ کراچی میں کررہے ہیں ہم نے تو ان کو چھوڑا ہوا ہے کراچی میں ان ہی کی حکومت ہے۔عوام ان کے پیچھے نہیں ہوگی اس لئے کہ ان کا ذاتی ایجنڈا ہے۔

صدر مسلم لیگ ن پنجاب ، رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا میں دفاع میں نہیں کروں گا، پی ڈی ایم کاجلسہ ہوا ہے اس میں اپوزیشن رہنماؤں کے ریلی اور جلسے کے مناظر آپ دکھا دیں عوام خود فیصلہ کرلیں گے۔

جلسہ گاہ میں گنجائش ختم ہوگئی تھی اور جلسہ گاہ سے تین گنا بڑا مجمع باہر موجود تھا۔اسی طرح لوگ مریم نواز، بلاول بھٹو اور فضل الرحمٰن کے ساتھ ریلی کی شکل میں موجود تھے۔

جلسے میں عام شہری بھی موجود تھے مگر جب جلسہ تاخیر کا شکار ہوا تو عام شہری روانہ ہوگئے اور جلسہ گاہ میں ہمارے کارکن موجود تھے۔شبلی فراز کو میں نہیں منوا سکتا کیونکہ اگر یہ مان جائیں گے تو ان کو اپنی وزار ت سے استعفیٰ دینا پڑ جائے گا۔میں نے کل بھی کہا تھا کہ ثالث میڈیا ہوگا نہ شبلی فراز ہوں گے نہ میں ہوں گا۔

آپ میڈیا کے تین افراد کی کمیٹی بنا دیں اگر وہ یہ فیصلہ کریں کہ ساڑھے آٹھ بجے جب کوئی بھی رہنما نہیں پہنچا تھا جلسہ گاہ آدھاخالی تھی۔ تو میں اپنی پوزیشن سے استعفیٰ دوں گاورنہ شبلی فراز یہ وعدہ کریں کہ ان کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔

جلسوں کے علاوہ عوامی دباؤ کے اور بھی طریقے ہیں جس میں ریلیاں ہیں جس میں پھر فیصلہ کن لانگ مارچ بھی ہے۔جب عوامی رائے سامنے آجائے اورحکومت کے خلاف ہو تو حکومت کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔وہ پھر جانے سے رہ نہیں سکتی اسے پھر جانا پڑتا ہے۔

تازہ ترین