میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
ویکسین کی تیاری تیسرے فیز میں ہے اور اُمید ہے کہ آئندہ چھ مہینے میں ویکسین تیار کر لی جائے گی،یہ بیماری ایک انسان سے دوسرے انسان میں منہ اور ناک کے راستے خارج ہونے والے ننھے قطروں کے ذریعے ہماری آنکھ ، ناک اور منہ کے ذریعے منتقل ہو سکتی ہے،عام مشاہدہ ہے کہ کیسز کے بڑھنے کے باوجود لوگ ماسک نہیںلگا رہے ، سماجی فاصلہ برقرار نہیں رکھ رہے،لوگ ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں اور ہاتھ ملارہے ہیں ، تمام کاروبار ، سرکاری ادارے اور تعلیمی ادارے کھل جانے کے بعد لوگ ایس او پیز کی کوئی پرواہ نہیں کر رہے۔
لیکن یاد رکھیں کہ کورونا ابھی ختم نہیں ہوا ،کسی مخصوص علاقے یا ادارے میں کیسز بڑھ رہے ہیں تو اُس کو دوبارہ بند کر دیا جائے،ہسپتال ، شادی ہال اور مارکیٹیں بیماری کے حوالے سے زیادہ حساس سمجھے جاتے ہیں اس لئے ان جگہوں پر زیادہ سختی سے ایس او پیز پر عمل ہو نا چاہیے۔
تعلیمی اداروں میں پرائمری اور پری پرائمری جماعتوں کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہے،کورونا ویکسین کی عدم دستیابی تک ماسک کو کورونا وائرس کے خلاف ویکسین سمجھتے ہوئے استعمال کیا جائے،وفاقی حکومت نے بیماری کے پھیلائو کو روکنے میں تاخیر اور سست روی کا مظاہرہ کیا،وفاقی حکومت کورونا سے نبردآزما ہونے کے لئے ملک بھر میں یکساں پالیسی کی تشکیل میں ناکام رہی،صوبہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے کورونا جیسی مہلک وباء کے لئے زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کیا اور لاک ڈائون کے حوالے سے سخت اقدامات اٹھائے
ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد
ہمارے ملک میں جیسے ہم ٹی بی اور پولیو کو ختم نہیں کر پائے لگتا ہے کہ یہ بھی چلتا رہے گا۔ ہماری صوبائی اور مرکزی حکومتیں مکمل طور پر سو فیصد لوگوں کو ماسک پہنانے میں ناکام ہیں۔
لوگ آج بھی اجتماع لگا رہے ہیں،آج تک ہم بچوں اور عوام کو یہ سکھا نہیں پائے کہ ہاتھوں کو بیس سیکنڈ تک دھونا ہے ہر وقت کھانے سے پہلے ہاتھوں کو دھونا ضروری ہے کسی سے ہاتھ ملانا اور گلے ملنا بھی کورونا بڑھنے کا سبب بنتا ہے،آنکھوں کے ذریعے بھی کورونا ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے،سرکاری اسپتالوں اور اسکولوں میں بھی ایس او پیز پر صحیح طریقے سے عمل نہیں ہورہا،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا عوام میں شعور پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے،ایس او پیز پر عمل کرنا اور لوگوں کو شعور دینے میں مسجدوں کے ذریعے علماء بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں،حکومت کو چاہئے کہ عالموں کو پابند کرے کہ وہ جمعہ کے خطبے میں کورونا سے بچنے کے لئے لوگوں کو شعور دیں گے۔
ڈاکٹر جےپال چھابڑیا
دنیا بھر میں کورونا کی دوسری لہر تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایک دن میں کیسز کی ریکارڈ تعداد چار لاکھ تک پہنچ گئی ہے، جو کہ اس قبل کبھی نہیں دیکھی گئی، ماہرین ابتدا سے ہی دوسری لہر کے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں، ان دنوں امریکا، بھارت، برازیل ،ساوتھ افریقا سمیت یورپ کے ملکوں میں کورونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کے سبب حکومتوں نے حفاظتی اقدامات میں اضافہ کر دیا ہے۔
لاک ڈاؤن بھی کیا جا رہا ہے، کورونا ایس او پیز کی سختی کرائی جارہی ہے، اجتماعات پر پابندی لگائی جا رہی ہے، پاکستان میں بھی بھی کورونا کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، بعض علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن بھی کیا جا رہا ہے، کراچی میں کیسز کی زیادہ تعداد سامنے آرہی ہے، حکومت کی جانب سے خدشات اور حفاظتی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، کورونا کی دوسری لہر کے حوالے سے جنگ فورم نے ایک ٹیل فونک گفتگو کا اہتمام کیا جس میں ماہرین کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔
فورم میں سوال اٹھائے گئے کہ موسم سرما میں کورونا کے پھیلاؤ کے خدشات کیا ہیں ،اس کی وجوہ کیا ہو سکتی ہیں، اور اس کے سدباب کے لیے حفاظتی اقدامات کس نوعیت کے کیے جارہے ہیں، کورونا کا تقریبا ایک سال گزر گیا اس دوران وفاق اور سندھ حکومت کے تجربات کیا رہے اور دوسری لہر میں اس کا اثر کیا ہو گا ، طبی خدمات اور ہیلتھ انفرااسٹرکچر میں کتنا اضافہ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے مزید کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے،پاکستان اور سندھ بھر میں ابھی کیا صورت حال ہے، نئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں؟
وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور عوام کی ذمہ داریاں کیا کیا ہیں،وفاق کا صوبوں سے تعاون کی صورت حال کیا ہے، ان سے مطالبات کیا ہیں، کاروبار اور عام معمولات کے ایس او پیز اور ان پر پر عمل درآمد کی صورت حال کیا ہے،کورونا مرض اور حفاظتی اقدامات کے بارے میں عوامی آگہی اور شعور کی مہم کیسی ہے اور مزید مؤثر کیسے بنائی جاسکتی ہے۔
کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزیوں کے حولے سےقوانین اور سزائیں کیا ہیں اور ان پر عمل درآمد کتنا ہو رہا ہے، کورونا وائرس کی حفاظتی ویکسین ابھی کتنی دور ہے؟ ماہرین کے سامنے یہ سوالات رکھے گئے، فورم میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد اور ڈاکٹر عیسیٰ لیبارٹری کے کلسٹر منیجر ڈاکٹر جے پال چھابڑیا نے اظہار خیال کیا، فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد
سیکریٹری جنرل،پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن
کورونا وائرس جیسی مہلک وباء 2019کے آخر میں چین کے صوبہ ،ہوبائی کے شہر وہان سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے آئندہ چند مہنیوں میں یہ خطرناک وائرس پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ دنیا بھر میں اس وقت تک 38,426,539 افراد متاثر ہو چکے ہیں اور 1,091,759افراد موت کا شکار ہوئے چونکہ اب تک اس وائر س کی ویکسین تیار نہیں ہو سکی اس لئے بیماری سے بچائو کیلئے دنیا بھر میں احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔
وائرس کا چونکہ علاج موجود نہیں اس لئے معمولی علامات والے مریضوں کی صرف علامات کا علاج کیا گیا ، قوت مدافعت بڑھائی گئی ، مکمل بیڈ ریسٹ دیا گیا ، زیادہ بیمار مریضوں کو داخل کر کے آکسیجن سپورٹ یا وینٹی لیٹر پر رکھ کر علاج کیا گیا۔کورونا وائرس میں اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی وائرل جان بچانے والی ادویات یعنی اسٹیرائڈ(Steroid) کام آئیں اور کچھ مریضوں میں جوڑوں کے درد میں استعمال ہونے والی ادویات بھی کارآمد ثابت ہوئیں۔
دنیا بھر میں احتیاطی تدابیر کے طور پر بہت سے شعبے اور کاروبار بند کر دیئے گئے جن سے غریب ملکوں کی معیشت پر سخت منفی اثرات مرتب ہوئے اور ان ممالک کا غریب آدمی مالی طور پر بہت سی پریشانیوں کا شکار ہوا ۔ اگلے چھ ماہ بعد احتیاطی تدابیر کی بدولت مختلف ملکوں میں کورونا کے کیسز میں کمی آگئی جس کی بدولت بند کیے گئے شعبہ جات اور کاروبار کھول دیئے گئے لیکن بد قسمتی سے اس وقت دنیا کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر سے نبرد آزماہے۔ بہت سے ممالک اس بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں اور اس جدوجہد کے نتیجے میں ویکسین کی تیاری تیسرے فیز میں ہے اور اُمید ہے کہ آئندہ چھ مہینے میں ویکسین تیار کر لی جائے گی۔ پاکستان بھی اس وقت کورونا وائرس کی دوسری لہر کے خطرے سے دوچار ہے ۔
اب تک پاکستان میں 320,463افراد کورونا وائر س سے متاثر ہوئے اور 6,601افراد موت کا شکار ہوئے ۔ پی ایم اے نے وباء کے آغاز میں ہی اپنے اراکین کے علاوہ تمام ڈاکٹروں اور عوام کو 22جنوری2020 کو آگاہ کیا تھا کہ کورونا وائرس سارس کی طرح ایک خطرناک بیماری ہے جو نظام تنفس کے اوپری حصے کا انفیکشن کا باعث بنتی ہے ۔
اس میں اہم بات یہ ہے کہ اگر ان علامات کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو اس سے نظام تنفس کے نچلے حصے کے انفیکشن کے ساتھ ساتھ نرخرے کی سوزش، سانس کی نالیوں کی سوزش ، پھیپڑوں کا انفیکشن اور آخرکار نمونیہ ہو سکتا ہے جو مریض کے لئے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بیماری ایک انسان سے دوسرے انسان میں منہ اور ناک کے راستے خارج ہونے والے ننھے قطروں کے ذریعے ہماری آنکھ ، ناک اور منہ کے ذریعے منتقل ہو سکتی ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، گزشتہ ماہ کے دوران پاکستان اور خاص طورپر سندھ اور کراچی میں بڑھتے ہوئے کورونا وائرس کے کیسز پرگہری تشویش کا اظہار کرتی ہے ۔یہ عام مشاہدہ ہے کہ کیسز کے بڑھنے کے باوجود لوگ ماسک نہیںلگا رہے ، سماجی فاصلہ برقرار نہیں رکھ رہے ، لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے کورونا ختم ہو گیا ہے ۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس صورتحال میں بھی لوگ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر رہے ۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں اور ہاتھ ملارہے ہیں ، تمام کاروبار ، سرکاری ادارے اور تعلیمی ادارے کھل جانے کے بعد لوگ ایس او پیز کی کوئی پرواہ نہیں کر رہے ۔اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں کورونا کی صورتحال قابو میں ہے لیکن یاد رکھیں کہ کورونا ابھی ختم نہیں ہوا ۔
پاکستان اس وقت کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اور دیکھا گیا ہے کہ امریکہ ، برطانیہ ، برازیل اور دنیا کے دوسرے حصوں میں جہاں کورونا کی دوسری لہر آئی ہے وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ہے اور وہاں رہنے والوں کی تکالیف میں اضافہ ہوا ۔
پی ایم اے کا ماننا ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کا یہ صیح وقت ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے جن سے صورتحال کو ابتر ی کی طرف جانے سے روکا جا سکے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت باریک بینی سے معاملات کی نگرانی کرے اور اگر دیکھے کہ کسی مخصوص علاقے یا ادارے میں کیسز بڑھ رہے ہیں تو اُس کو دوبارہ بند کر دیا جائے ۔ہر کسی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک وائرل بیماری ہے جو تیزی سے پھیلتی ہے اس لئے ہم ایک دفعہ پھر سے گزارش کرتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔
تعلیمی ادارے ، ہسپتال ، شادی ہال اور مارکیٹیں بیماری کے حوالے سے زیادہ حساس سمجھے جاتے ہیں اس لئے ان جگہوں پر زیادہ سختی سے ایس او پیز پر عمل ہو نا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں پرائمری اور پری پرائمری جماعتوں کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اگرچہ یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ بچوں میں کورونا کی بیماری کے پھیلنے کی شرح کم پائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ کورونا وائرس کے پھیلائو کا سبب بن سکتے ہیں وہ وائرس کو گھر تک لے جا کر اپنے والدین اور دادا ،دادی میں بیماری منتقل کر سکتے ہیں اگرچہ چھوٹے بچوں سے ایس او پیز پر عمل کرانا اساتذہ کیلئے کافی مشکل کام ہے لیکن اساتذہ کو معاشرے میں کورونا کے پھیلائو کو روکنے کیلئے اپنا اہم کردار محنت سے ادا کرنا ہوگا ۔
گرمی کے اس موسم میں اور بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ میںجبکہ بیشتر اسکولوں میں جنریٹر کی سہولت موجود نہیں ہوتی ہر وقت ماسک لگانا بچوں کی صحت کیلئے بھی موزوں نہیںلہذا بچے کلاس میں بورڈ کی طرف اور ٹیچر کی طرف دیکھتے وقت ماسک نیچے کر کے تازہ ہوا لے سکتے ہیں اس کے علاوہ اسکول میں جب بچے ایک دوسرے فاصلے پر ہوں تو ماسک نیچے کیا جا سکتا ہے۔
پی ایم اے کا ماننا ہے کہ کورونا ویکسین کی عدم دستیابی تک ماسک کو کورونا وائرس کے خلاف ویکسین سمجھتے ہوئے استعمال کیا جائے۔یہ بیماری آپ کے جسم میں آنکھ، ناک اور منہ کے راستے داخل ہوتی ہے لہذا اپنے چہرے کو چھونے نے اجتناب کریں اور اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں یا سینی ٹائز کریں ۔والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر کی آگاہی دیتے رہیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا روزگار، کاروبار، تعلیمی نظام اور روز مرہ کے کام کاج جاری رہیں تو ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔کیونکہ کورونا سے اتنی جلدی چھٹکا را ممکن نہیں ہم کورونا وائرس کے خلاف جنگ اسی صورت میں جیت سکتے ہیں اگر ہر شخص ایس او پیز پر عمل درآمد کرے اور حکومت بھی سختی سے ان پر عمل درآمد کروائے ۔
ہم تمام لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کریں:
1۔ اپنی آنکھ ، ناک اور منہ کو چھونے سے پرہیز کریں۔ ہجوم سے دور رہیں، ہاتھ ملانے اور گلے لگنے سے بھی پرہیز کریں۔
2۔ مسلسل وقفوں سے اپنے ہاتھ صابن سے دھوئیں۔
3۔ گھبرائیں مت یہ ایک وائرل انفیکشن ہے ۔کسی بھی وائرل بیماری میں اینٹی بایوٹک استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ کوئی دوا خود سے مت لیں۔
4۔ ہر کسی کو ماسک پہننے کی ضرورت نہیں۔
5۔ وہ افراد جو فلو جیسی علامات کا شکار ہوں انہیں چاہیے کہ وہ گھر پر رہیں اور دوسرے لوگوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ماسک پہنیں۔
6۔ ناک صاف کرنے کے لئے ٹیشو پیپر کا استعمال کریںاور استعمال شدہ ٹیشو پیپر کو مناسب جگہ پر پھینکیں۔ کھانسی کی صورت میں منہ پر ہاتھ رکھنے کے بجائے بازو کا استعمال کریں۔
7۔ کھلے عام کھانسنے اور چھینکنیں سے پرہیز کریں۔
8۔ اپنی ذاتی استعمال کی چیزیں یعنی اپنا گلاس ، پلیٹ ، کپ ، تولیہ ، موبائل ، قلم وغیرہ بھی دوسروں کو استعمال کیلئے مت دیں۔
9۔ مریض کے کھانسنے اور چھینکنے کی صورت میں صحت مند انسان کو تین فٹ کے فاصلے پر رہنا چاہیے۔
10۔ لوگوں کو خود سے کورونا وائرس ٹیسٹ کیلئے زور نہیں دینا چاہیے۔مشورے اور علاج کیلئے مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
وفاقی حکومت نے بیماری کے پھیلائو کو روکنے میں تاخیر اور سست روی کا مظاہرہ کیا ۔ایران سے آنے والے زائرین کے مسئلے کو بروقت اور صیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا گیا ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان کورونا پر اختلافات رہے اور وفاقی حکومت کورونا سے نبردآزما ہونے کے لئے ملک بھر میں یکساں پالیسی کی تشکیل میں ناکام رہی ۔ وفاقی حکومت کی لاک ڈائون کی پالیسی سے ملک بھر میں صحت کی تنظیموں اور صوبوں میں اختلاف نظرآیا۔
صوبہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے کورونا جیسی مہلک وباء کے لئے زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کیا اور لاک ڈائون کے حوالے سے سخت اقدامات اٹھائے جبکہ پنجاب اور صوبہ سرحد کی حکومتیں لاک ڈائون کے معاملے میں تذبذب کا شکار نظر آئیں اس لئے ان حکومتوں نے لاک ڈائون میں جلد نرمی کردی جس سے ان صوبوں میں موجود صحت کی تنظیمیں اختلاف کرتی نظر آئیں۔ ڈاکٹروں کو پی پی ایز کی فراہمی میں تمام صوبائی حکومتوں نے ست روی کا مظاہرہ کیا جس سے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکافی ہوئی۔
پی ایم اے نے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اپنے ڈونرز کے ذریعے ڈاکٹروں کو پی پی ایز فراہم کیں۔اس طرح ہماری ساتھی تنظیموں نے بھی ڈاکٹروں کو پی پی ایز فراہم کیں۔میڈیا نے کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لئے بھر پور کردار ادا کیا ۔ کورونا کے خلاف مہم میں سامنے آنے والے مسائل کو بخوبی اجاگر کیا ۔ عوام میں آگاہی پھیلانے کے لئے ہمارے میڈیا کا کردار قابل ستائش ہے خاص کر ہیلتھ رپورٹرز نے جان پر کھیل کر رپورٹنگ کی۔
ڈاکٹر جےپال چھابڑیا
کلسٹر منیجر، ڈاکٹر عیسیٰ لیبارٹری
کورونا وائرس پہلی دفعہ دنیا میں 2002ء میں چائنا میں اموات کا سبب بنا جو SARSکے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کو سدن اکیوٹ ریسپائٹیری سنڈ روم کہا گیا ۔ Sydden Acute Respiratory Syndromeاس کے بعد 2012ء میں مرس کے نام سے (MERS) سعودی عرب میں اموات کا سبب بنا۔ مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈ روم Meddle East Respiratory Syndromeکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اب 2019ء میں COVID19 کے نام سے نمودار ہوا ہے جو ابھی تک چل رہا ہے۔ ہمارے ملک میں اب بھی چل رہا ہے اور اب بھی روز انہ اموات ہورہی ہیں ۔ ہمارے ملک میں جیسے ہم ٹی بی اور پولیو کو ختم نہیں کر پائے لگتا ہے کہ یہ بھی چلتا رہے گا۔
ہماری صوبائی اور مرکزی حکومتیں مکمل طور پر سو فیصد لوگوں کو ماسک پہنانے میں ناکام ہیں۔ لوگ آج بھی اجتماع لگا رہے ہیں اور سپر اسٹور یا شاپنگ میں فاصلہ رکھنے میں ناکام ہیں۔ اب تو حکومت نے اپوزیشن کو جلسے کرنے کی بھی اجازت بھی دے دی ہے جس سے کورونا بڑھے گا۔ اقتصادی طور پر بہت نقصان ہوا ہے۔ کئی اداروں نے ملازموں کی تنخواہ کاٹی ہے اور کئی اداروں نے ملازموں کو نوکری سے فارغ کیا ہے اور کئی اداروں نے نئی برتیاں روکی ہوئی ہیں۔ حکومت کو سختی سے عوام کو ماسک کا استعمال کروانا چاہئے ۔ میرے خیال میں جلسے کی اجازت دینا بھی کورونا کے بڑھنے کا سبب بنے گا۔ آج تک ہم بچوں اور عوام کو یہ سکھا نہیں پائے کہ ہاتھوں کو بیس سیکنڈ تک دھونا ہے ہر وقت کھانے سے پہلے ہاتھوں کو دھونا ضروری ہے کسی سے ہاتھ ملانا اور گلے ملنا بھی کورونا بڑھنے کا سبب بنتا ہے۔
آنکھوں کے ذریعے بھی کورونا ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس لئے آنکھوں کو مسلنے سے پہلے بھی ہاتھوں کا دھونا ضروری ہے۔ ہمارے سرکاری اسپتالوں اور اسکولوں میں بھی ایس او پیز پر صحیح طریقے سے عمل نہیں ہورہا۔ حکومت کو سرکاری تمام اداروں اور پرائیویٹ اداروں میں ایس او پیز پر عمل کروانا چاہئے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا عوام میں شعور پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
تمام ٹیلیویژن چینلز کو پابند کیا جائے کہ وہ عوام کو شعور دینے کے لئے مفت اشتہار چلائیں اب بھی پاکستان میں روزانہ دس سے زیادہ لوگ کورونا کی وجہ سے مر رہے ہیں ابھی تک ہم نے خلاف ورزی کرنے پر لوگوں اور اداروں کو سزائیں نہیں دیں اس لئے ایس او پیز پر مکمل طور پر عمل نہیں ہورہا۔ ہمارے ملک میں کئی غلط باتیں بھی لوگوں کو بتائی جارہی ہیں کہ لہسن کھانے یا وٹامنز کھانے سے کورونا سے بچ سکتے ہیں۔
اس طرح کوئی بھی نہیں بچ سکتا اور کوئی ابھی تک دوائی بھی نہیں ہے جو ہونے سے بچاتی ہو اور ہو جانے کے بعد بھی جو تکلیف پیدا ہوتی ہے اس کی دوائی دی جاتی ہے۔ جیسا بخار، کھانسی یا سانس کی تکلیف جو موت کا اکثر سبب بنتی ہے۔ جب جسم میں آکسیجن کم ہونے لگتی ہے تو آکسیجن دی جاتی ہے۔ابھی تک کورونا کی ویکسین نہیں بنی مگر تجربے ہورہے ہیں امید کرتے ہیں کہ جلد سے جلد سائنسدان بنالیں گے مگر تب تک ہمیں سختی سے ایس او پیز پر عمل کرنا چاہئے کہ ہم اس کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
میں ملک میں اب تعلیمی ادارے اور شاپنگ مال بند کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ مگر ایس او پیز پر سختی سے عمل کرانے کے حق میں ہوں۔ تعلیمی اداروں میں حاضر ایک وقت پر کم بچوں کو بلانا ہے جیسے اگر ایک کلاس میں 60بچے ہیں تو ایک دن اس کلاس میں 20بچوں کو بلانا چاہئے اس طرح ہر بچے کی ہفتے میں دو کلاس ہوسکتی ہیں۔
ہمارے ملک کا تعلیمی نظام پہلے ہی خراب ہے اور اس کو بند کرکے ہم تباہ کررہےہیں میں بغیر امتحان بچوں کو آگے کلاس میں بھیجنے کے بھی خلاف ہوں۔ بچوں کا امتحان روم پر بھی لیا جاسکتا ہے اگرہم تھیوری نہیں تو زبانی Oralوائوا Vivaلیا جاسکتا ہے مگر امتحان نہ لینا دانشمندی نہیں ہے جب بچے اسکول آتے ہیں تو ان کو ایس او پیز پر عمل کرنا بھی سکھایا جاسکتا ہے اور پھر اسے گھر والوں تک وہ معلومات پہنچائیں کہ اس سے بہت بڑا فائدہ ہوگا۔
اب دنیا میں اور خاص کرکے ہمارے جیسے ملکوں میں کورونا کی دوسری لہر آ رہی ہے اس کی وجہ سے ختم ہونے کے بجائے اب بھی پھیل رہا ہے۔ ہمارے لوگ تعلیم سے قاصر ہونے کی وجہ سے کورونا سے احتیاط نہیں کررہے اورمذہبی علماء بھی اس کو نہیں سمجھ رہے اور یہ کہہ دینا کہ جو بھی ہوگا اللہ کی طرف سے ہوگا صحیح نہیں۔ اللہ نے ہمیں عقل دی ہے اس لئے ایس او پیز پر عمل کرنا اور لوگوں کو شعور دینے میں مسجدوں کے ذریعے علماء بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
حکومت کو چاہئے کہ عالموں کو پابند کرے کہ وہ جمعہ کے خطبے میں کورونا سے بچنے کے لئے لوگوں کو شعور دیں گے اور اس پر ضروربات کریں گے میں سمجھتا ہوں کہ اس سے فرق پڑے گا اور بلکہ پولیو کے قطرے پلانے کے لئے بھی عالموں اور مولویوں کو لوگوں کو جمعہ کے خطبے میں شعور دینا چاہئے۔ کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اگر کورونا ایک دفعہ ہوا ہے تو دوبارہ نہیں ہوگا کئی لوگوں کو دوبارہ ہورہا ہے اس لئے احتیاط کرنا ضروری ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں تین کروڑ ساڑھے ستاسی لاکھ لوگوں کو کورونا نے متاثر کیا ہے اور اندازے کے مطابق گیارہ لاکھ لوگوں کی کورونا کی وجہ سے موت ہوئی ہے اس وقت بھی 70ہزار لوگ وہ ہیں جو کورونا کی وجہ سے کرٹیکل حالت میں اسپتالوں میں داخل ہیں۔
ہمارے ملک پاکستان میں بھی تین لاکھ 21ہزار اندازے کے مطابق کورونا سے لوگ متاثر ہوئے ہیں اور 6ہزار 6سو کے قریب کورونا کی وجہ سے اموات ہوئی ہیں اس لئے ہم لوگوں کو اپنے طور پر بھی احتیاط کرنا چاہئے اور حکومت اور سول سوسائٹی کو بھی کردار ادا کرنا چاہئے تب ہم اپنے ملک کو کورونا سے مستقبل میں بچا سکتے ہیں نہیں تو ملیریا، ٹی بی اور ٹائیفائیڈ کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اور ہمارے لوگ مرتے رہیں گے۔ دنیا میں کورونا کی وجہ سے بہت اقتصادی نقصان ہوا ہے اندازے کے مطابق 2.3%سے 4.8%تک جی ڈی پی تک نقصان ہوا ہے اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کا کہنا ہے پاکستان میں بھی بہت اقتصادی نقصان ہوا ہے ہماری ایکسپورٹ جو ٹیکسٹائل کی ہوتی ہے وہ متاثر ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ شاپنگ مال جو بند کئے گئے اور اس کے ساتھ شادی ہال اور ہوٹل بھی متاثر ہوئے۔ جب جہاز کی فلائٹ بند کی گئی اس کے بھی اثرات ہوئے اور ابھی تک ہم مکمل طور پر نکل نہیں پائے جب کاروبار بند ہوتے ہیں تب خریداری بھی تمام قسم کی کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ غربت کا شکار ہو جاتے ہیں اب دنیا کورونا سے باہر نکل رہی ہے اور کئی ملک کامیاب ہوئے ہیں نکلنے میں مگر ہم اب بھی کورونا میں گھرے ہوئے ہیں کیونکہ ہم ایس اوپیز پر مکمل عمل کرانے میں ناکام ہیں اور لوگ خود بھی احتیاط نہیں کررہے۔ ہم سب کو مل کر ایک کردار ادا کرنا چاہئے تب ہی ہم کورونا سے نجات پاسکتے ہیں۔