• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رقص کا شعبہ ہمارے خطے کی فلموں میں ہمیشہ سے ایک جزو ناگزیر کی سی حیثیت رکھتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر عہد کے فلم بینوں نے رقص کو خاص پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور سراہا، یہی وجہ ہے کہ فلم میکنگ کے اسالیب بدلے موضوعات میں تبدیلی آئی، لیکن ہر زمانے کے فلم میکرز فنِ رقص کو اپنی فلموں میں خاص جگہ دیتے رہے۔ ہماری فلموں میں رقص کی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ ہر دور میں کہانی نویسوں نے رقاصہ کے کردار کو کہانی میں مرکزیت دی۔ کبھی طوائف کے کردار سے منسلک کرکے، تو کبھی کلب ڈانسر کے روپ میں ، کبھی خانہ بدوش رقاصہ کے رول میں، تو کبھی تھیٹر میں ناچنے والی لڑکی کی صورت میں۔ 

ہماری فلموں کی ہر عہد کی ہیروئنز نے رقاصہ کے کردار ادا کیے۔ خواہ انہیں رقص میں مہارت تھی یا نہیں، مگر رائٹر اور ڈائریکٹر کے تخلیق کردہ کردار کی ریکوائرمنٹ کو پورا کرنے کے لیے ہماری اکثر ہیروئنز کو رقاصہ بننا پڑا،لیکن وہ فن کارائیں جنہیں اس فن میں مہارت حاصل تھی، انہوں نے ’’رقاصہ‘‘ کے کردار میں ڈُوب کر انہیں امر کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہم ’’رقص‘‘ کے حوالوں اور تذکروں میں انہیں یاد کرتے ہیں۔ پچاس کی دہائی کی ہیروئنز میں میڈم نور جہاں، وہ پہلی ہیروئن تھیں کہ جن کے حصے میں رقاصہ کے بھرپور کردار آئے۔ فلمیں تھیں ’’انارکی 1958ء‘‘ اور کوئل 1959ء۔ ’’انارکلی‘‘ میں وہ شاہی رقاصہ و مغنیہ تھیں، جب کہ ’’کوئل‘‘ میں تھیٹر کی رقاصہ و گلوکارہ کا رول ان کے ذمے تھا۔ 

میڈم کو رقص میں کوئی خاص مہارت حاصل نہ تھی، یہی وجہ تھی کہ ’’انارکلی‘‘ کے کردار میں وہ مبصرین کی بہت زیادہ مثبت رائے حاصل نہ کرسکیں، اس کے برعکس ’’انارکلی‘‘ کے دو سال بعد ریلیز ہونے والی بھارتی سنیما کی شاہ کار مووی ’’مغل اعظم‘‘ میں مدھو بالا نے جاندار کردار نگاری اور بے مثال رقص کے ذریعے ’’انارکلی‘‘ کے کردار کو امر کر دیا۔ فلم ’’کوئل‘‘ میں میڈم کی مجموعی اداکاری متاثر کُن تھی، جب کہ ایک گیت ’’مہکی فضا‘‘ پر جو انہوں نے رقص کیا، اُسے خاصی پذیرائی ملی۔ تاہم اعلیٰ مجموعی کارکردگی کے تناظر میں پھر بھی ہم ان کی اس فلم کو لازوال کارکردگی کی حاصل قرار نہیں دے سکتے۔ پچاس کی دہائی کی دو مقبول ہیروئنز نیلو اور مسرت نذیر کے حصے میں بھی متعدد بار رقاصہ کے کردار آئے۔ 

مثلاً نیلو کو کوئل میں کلب رقاصہ ۔’’ عشق پر زور نہیں‘‘ میں کلب کی رقاصہ فلم ’’رقاصہ‘‘ اور ’’نغمہ صحرا‘‘ میں خانہ بدوش رقاصہ کے کردار ملے، جب کہ ریاض شاہد کی معرکتہ الآرا تخلیق ’’رزقا‘‘ میں وہ ایک ’’قہوہ خانے‘‘ کی رقاصہ بنیں۔ یُوں تو ہر بار نیلو نے فنِ رقص میں خاص مہارت کے سبب رقاصہ کے کردار کو بہترین انداز میں نبھایا۔ لیکن ’’رزقا‘‘ میں ان کی پرفارمنس بہ حیثیت مجاہدہ و رقاصہ بہت ہی متاثر کن اور غیر معمولی تھی۔ (1) میں پھول بیچنے آئی۔ (2) تم اور (3) رقص رنجیر پہن کر بھی … جسے نغمات پر ان کے شان دار و معیاری رقص ہی نہیں، بلکہ کردار نگاری بھی اس معیار کی حامل تھی کہ نیلو بیگم کے پورے فلمی کیریئر کی سب سے بڑی فلم’’زرقا‘‘ کو گردانا جاتا ہے۔ اس فلم میں اعلیٰ کردار نگاری پر انہیں بہترین اداکارہ برائے 1969ء کا نگار ایوارڈ کا استحقاق بھی حاصل ہوا۔

پچاس ہی کی دہائی میں متعارف ہونے والی حسین و دل کش اور فنی صلاحیتوں سے مالا مال فن کارہ مسرت نذیر اپنے قد قامت، نقوش اور جسمانی تراش کے اعتبار سے عرب کی رقاصہ دکھائی دیتی تھیں۔ 1961ء اور 1962ء میں یکے بعد دیگرے ریلیز ہونے والی دو فلموں ’’گلفام‘‘ اور ’’شہید‘‘ میں وہ رقاصہ کے روپ میں نظر آئیں۔ ’’گلفام‘‘ میں وہ ایک خانہ بدوش رقاصہ تھیں۔ جب کہ ’’شہید‘‘ میں صحرائے عرب کے ایک قہوہ خانے کی رقاصہ تھیں۔ گوکہ ان کی پرفارمنس ’’گلفام‘‘ میں بھی نہایت عمدہ اور قابل دید تھی۔ لیکن ’’شہید‘‘ کی لیلیٰ تو ہماری پوری فلمی تاریخ میں ممتاز حوالوں سے نمایاں رہے گی۔ مسرت نذیر کو بھی رقص میں بھرپور مہارت حاصل تھی۔ 

سو انہوں نے جہاں ’’حبیبی حیا حیا‘‘ ’’میری نظریں ہیں تلوار‘‘ اور ’’جب سانولی شام ڈھلے‘‘ پر دل کش ماہرانہ اور جہان حیرت رقص پیش کیے، وہیں کہانی کے آخری حصے میں وطن کی محبت سے سرشار مجاہدہ کے روپ کو بھی اپنی غیر معمولی کردار نگاری سے امر کردیا۔ ’’شہید‘‘ کی لیلیٰ نے اپنی اعلیٰ کردار نگاری پر بہترین اداکارہ برائے 1961ء کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ 

فلم ’’محبوب‘‘ سے متعارف ہونے والی ایک مکمل اداکارہ ’’رانی‘‘ نے فن کار سفارش اور فن کار ساز خاتون مختار بیگم کی زیر سرپرستی فن رقص میں یکتائی و کمال حاصل کرنے کے بعد فلم انڈسٹری جوائن کی تھی۔ رقص رانی بیگم نے اساتذہ سے سیکھا، لیکن ہر طرح کے کردار کو اپنی فطری کردار نگاری سے یادگار بنانے کا ہنر ان کی فطری صلاحیت کا حصہ تھا۔ فلمی تاریخ میں سب سے زیادہ رقاصہ کے مختلف النوع کردار خواہ وہ سڑکوں کی رقاصہ ہو یا کلب ڈانسر، کوٹھوں پر ناچنے والی طوائف ہو یا تھیٹر کی رقاصہ اداکارہ، قہوہ خانے میں رقص کرنے والی ہو… یا خانہ بدوش… غرض یہ کہ سب سے زیادہ مرتبہ یہ کردار رانی کے حصے میں آئے۔ 

وہ فلمیں تھیں ’’بہن بھائی‘‘ ، ’’پیاسا‘‘، ’’ایک ہی راستہ‘‘ ’’نوابزادی‘‘، ’’دلربا‘‘، ’’کالو‘‘، ’’سیتا مریم مارگریٹ‘‘، ’’اک گناہ اور سہی‘‘، ’’میرا گھر میری جنت‘‘، ’’وحشی‘‘، ’’ٹیکسی ڈرائیور‘‘، ’’بدنام‘‘، ’’وطن‘‘، ’’انجمن‘‘ اور ’’امرائو جان ادا‘‘ وغیرہ …… رقص کو جس قدر سلیقے، سائستگی اور دل کشی کے ساتھ رانی بیگم نے پرفارم کیا… ایسی دوسری مثال ہمارے خطے کی فلموں میں نہیں ملتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر فلم میکرز نے خصوصاً رانی کی اسپیشلٹی کو ان کے کرداروں کا کثرت سے حصہ بنایا۔ تاہم رانی نے ہمیشہ اسی نوعیت کے کرداروں کو یادگار بنانے میں کوئی کثر نہ اٹھارکھی۔ 

تاہم یہاں ہم ان کی صرف دو فلموں ’’انجمن‘‘ اور ’’امرائو جان ادا ‘‘ کا ذکر کریں گے کہ جو نہ صرف رقص کے تناظر میں بلکہ ان کی کردار نگاری کے حوالے سے بھی ناقابل فراموش ہیں۔ ’’انجمن ‘‘ میں وہ ایک کوٹھے کی رقاصہ بنی تھیں، جس کا کام امرائو کو اپنے رقص سے لبھانا تھا۔ اس تناظر میں انہوں نے ’’آپ دل کی انجمن میں‘‘ اور ’’ہوئوے ہوئے ہوئے دل دھڑکے‘‘ اور ’’لگ رہی ہے مجھے آج ساری فضا ء‘‘جیسے گیتوں پر جو رقص پیش کیے، وہ بے مثل اور یادگار تھے۔ جب کہ ’’اظہار بھی مشکل ہے‘‘ پر جو مجرا رانی بیگم نے پیش کیا، اس کا بھی جواب نہیں ۔ 

اسی طرح ’’امرائو جان ادا‘‘ کے لیے انہوں نے متعدد مجرے پیش کیے اور ہر مجرے میں بے مثل کارکردگی دکھائی، جب کہ ’’آخری گیت‘‘ پر تو ان کی کارکردگی اپنی جگہ مگر دونوں ہی فلموں میں ایک دکھی طوائف کے درد کی تصویر جو رانی بیگم نے اپنی اثر انگیز پرفارمنس سے کشید کی، وہ بھی ان کی لازوال کارکردگی کا مظہر ہے۔

1970ء میں فلم ’’انسان اور آدمی ‘‘ سے وساطت سے متعارف ہونےوالی ’’آسیہ ‘‘ ، حسن، صلاحیت اور فنِ رقص جیسی خوبیوں سے مالا مال تھیں، یہ ہی وجہ تھی کہ بہترین اور یادگار کرداروں کیساتھ ساتھ انہیں ’’رقاصہ‘‘ کے کرداروں میں کثرت سے بروئے کار لایا گیا۔ جیسے کہ ’’پنوں دی سسی‘‘، ’’بے ایمان‘‘، ’’میں بھی تو انسان ہوں‘‘، ’’پازیب‘‘، ’’غلام‘‘، ’’چراغ کہاں روشنی کہاں‘‘، ’’پہلی نظر‘‘ اور ’’پرنس‘‘ وغیرہ۔ ظفر شباب کی ’’کوچوان‘‘ میں جزوی اور ایس ٹی زیدی کی ’’سلام محبت‘‘ سے مفصل کردار میں متعارف ہونے والی فلم بینوں کی ہوسٹ فیورٹ فن کارہ ’’ممتاز‘‘ فن رقص کے حوالے سے فلم انڈسٹری میں آئیں اور اپنی ابتدائی چھ سات فلموں میں وہ بہ طور رقاصہ پیش ہوئیں۔ 

ان کے فنی کیریئر میں بھی رقاصہ کا کردار ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ ’’امرائو جان ادا‘‘، ’’دل اور دنیا‘‘، ’’سلام محبت‘‘، ’’احساس‘‘، ’’دیدار‘‘، ’’پیار کا موسم‘‘، ’’کوشش‘‘، ’’صورت اور سیرت‘‘، ’’ان داتا‘‘، ’’آگ اور زندگی‘‘ اور دیگر فلموں میں وہ رقاصہ تھیں اور اپنے دل کش رقص سے ان فلموں کی دل کشی بڑھانے میں ممتاز نے بھرپور سعی کی۔

علاوہ ازیں ہماری بہت سی صف اول کی فنکارائوں مثلاً شمیم آرا، زیبا، شبنم، بابرہ شریف وغیرہ نے بھی طوائف یا رقاصہ کے کردار متعدد بار ادا کیے، لیکن رقص میں عدم مہارت کے سبب وہ رقص کے ریفرنس میں کبھی بڑی اور یادگار کارکردگی نہ دکھا سکیں۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں متعارف ہونے والی ہیروئنز میں نادرہ نے ’’ناچے ناگن‘‘ ، نیلی نے ’’حسینہ 420‘‘ اور ریما نے ’’بلندی‘‘ میں رقص و اداکاری کے تناظر میں یادگار کارکردگی دکھائی۔

تازہ ترین
تازہ ترین