کراچی، راولپنڈی (اسٹاف رپورٹر، این این آئی) چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کے واقعہ میں دبائو کا نوٹس لیتے ہوئے کور کمانڈر کراچی کو ہدایت کی کہ معاملے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیکر حقائق کا تعین اور فوری تحقیقات کی جائیں.
آرمی چیف نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو بھی فون کرکے کراچی واقعے کی تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کرادی.
بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لینے اور شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کرانے پر آرمی چیف کو خراج تحسین پیش کیا۔
قبل ازیں بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی ایشوز ہوتے ہیں لیکن کراچی میں ریڈ لائن عبور کی گئی، فوج تحقیقات کرائے، کون لوگ تھے جو آئی جی کو صبح 4 بجےساتھ لے گئے، افسران کو بے عزت اور ہراساں کیاگیا.
اس کارروائی سے سندھ پولیس کا مورال ڈائون ہوا ، یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ حکومت کے اندر، اوپر اور نیچے بھی کوئی حکومت ہے، پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں چاہتے ہیں دوسرے بھی نہ کریں، آرمی چیف انکوائری کریں ہمارے صوبے میں یہ کیا ہورہاہے، ہمارے ہاںالگ قانون ، پنجاب میں الگ ہے ، کسی میں ہمت ہے تو گورنر راج لگائے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہتا تھا کہ واقعات کے کئی خوفناک پہلو ہیں، تفتیش کیلئے وزراء کی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے واقعہ میں دبائو کا آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے نوٹس لے لیا ہے ، آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے کور کمانڈر کراچی کو ہدایت کہ معاملے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیکر حقائق کا تعین اور فوری تحقیقات کی جائیں۔
دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زردای نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس کے گھر کا گھیراؤ کرنے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے محکمانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر صوبائی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ گزشتہ روز جو مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ساتھ ہوا، میں اس پر شرمندہ ہوں اور منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ قائد کے مزار پر ایک نعرہ لگانے پر تماشا کھڑا ہوگیا، عمران خان خود بھی مزار قائد جاتے تھے تو ایسے ہی نعرے لگائے جاتے تھے لیکن کسی نے ایف آئی آر کاٹنے کی کوشش نہیں کی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ کہ صبح سویرے صوبے کے آئی جی کو ہراساں کرکے گرفتار کرنا انکی تذلیل ہے، وزیراعلیٰ نے تحقیقات کا اعلان کیا، پولیس کے افسران کی عزت کا سوال بن گیا ہے اور وہ استعفے اور چھٹیوں پر جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد آئی جی مشتاق مہر کے گھر کا گھیراؤ کیا، کون دو لوگ تھے جو آئی جی کو نامعلوم مقام پر لیکر گئے؟ پی پی چیئرمین نے مطالبہ کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید واقعے کی تحقیقات کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سب اپنی عزت کیلئے کام کرتے ہیں، صوبہ اپنی تحقیقات کریگا لیکن ادارے بھی تحقیقات کریں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ سب چاہتے ہیں قانون کے دائرے میں کام کریں، جیسے بھی ہوا، اس واقعے کو برداشت نہیں کرسکتے، یہ ناقابل برداشت ہے، ان کا کام صوبے کا امن قائم رکھنا ہے۔ بلاول بھٹو ز نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے پنجاب میں 6 آئی جیز کا تبادلہ کیا لیکن اگر ہم تبدیل کرنا چاہتے تو بہت مشکل ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ باقی صوبوں میں پولیس فورس پی ٹی آئی کی پولیٹیکل فورس کے طورپرکام کرتی ہے، ہم آئی جی سندھ تبدیل کرنا چاہیں تو مشکل ہوتی ہے، ہمیں بدنام کرنے کی سازش تھی تو یہ انہیں بہت بُرا مشورہ دیا گیا، سیاسی ایشو ہوتے ہیں لیکن ریڈلائن کراس نہیں ہونی چاہیے۔
پولیس مورال کے حوالے سے بلاول بھٹو نے کہا کہ پولیس افسران اس لیے چھٹی پر جارہے ہیں کہ ان کی بے عزتی ہوئی، آپ کی عزت کاسوال ہے تو میری بھی عزت کا سوال ہے، میں یہ برداشت نہیں کرسکتا، غیر سیاسی فیصلوں کی وجہ سے سندھ پولیس کا مورال گرا ہے لیکن ہمیں سندھ پولیس کا مورال بلند کرنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جس تعداد میں اس شہر اور صوبے کے عوام جلسے میں شریک تھے یہ عمران خان اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ریفرنڈم تھا۔ گورنر راج کے حوالے سے بلاول نے کہا کہ گورنر راج غیر قانونی ہے، ازخود گورنر راج نہیں لگا سکتے۔دریں اثناء پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔
ترجمان بلاول ہاوس نے اس کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے سلسلے میں آئی جی سندھ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا آرمی چیف نے نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کرانےکا کہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کی جانب سے کراچی واقعے کا نوٹس لینے پر ستائش کا اظہار کیا۔چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کراچی واقعے پر شفاف انکوائری پر آرمی چیف کے احکامات کو بھی سراہا۔
علاوہ ازیں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی مزار قائد کے تقدس کی پامالی سے متعلق کیس میں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی مکمل انکوائری کرانے کا اعلان کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مزار قائد پر جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن یہ پہلی بار نہیں ہوا، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما 2013، 2018 میں کئی بار مزار قائد کے تقدس کو پامال کر چکے ہیں، مزار قائد کے تقدس کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اراکین جن میں ایک وفاقی وزیر بھی شامل تھا، 18 اکتوبر کی شام 6 بجے سے رات تقریباً ایک بجے تک تھانے میں موجود رہے اور پولیس پر مقدمے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے، پی ٹی آئی کے دوستوں کو سمجھایا کہ جو کچھ ہوا ہے وہ معاملہ مجسٹریٹ کا ہے پولیس کا نہیں لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کے منتخب لوگ پولیس پر دباؤ ڈالتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے کی مکمل انکوائری کا فیصلہ کیا گیا ہے، وزراء کی کمیٹی معاملے کی تحقیقات کرے گی، اب اس معاملے کو اس طرح نہیں چھوڑیں گے، اگر کمیٹی نے مجھے بلایا تو میں بھی پیش ہوں گا، پی ٹی آئی والے بھی کمیٹی کے سامنے جا کر اپنا مؤقف رکھیں۔