ایک طرف موسم سرما کی آمد آمد ہے ، دوسری جانب سیاسی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، گوجرانوالہ جلسے کے بارے میں جو بھی کہا جائے، بہرحال پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ شو متاثر کن تھا، کراچی کا جلسہ بھی خاصا کامیاب رہا، اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت نے اپنے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا لیکن حالات کسی اور طرف ہی جا رہے ہیں، ن لیگ کا بیانیہ ہر باشعور پاکستانی کو پسند نہیں آئے گا، پاک فوج ہی واحد ادارہ ہے جس کی مضبوطی کی وجہ سے ملک کا نظام چلتا ہے، پاکستانی قوم اپنی پاک آرمی سے بے انتہا محبت کرتی ہے۔ خیر بات کسی اور طرف نکل گئی پنجاب کا سیاسی موسم خاصا گرم ہے اور بزدار حکومت کیلئے چیلنج ہے۔
پی ڈی ایم کا لاہور کا جلسہ ہونا ابھی باقی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کوئی بہتر حکمت عملی اپنائیں گے یا پھر سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے کندھوں پر بوجھ ڈالیں گے۔ سی سی پی او لاہور عمر شیخ لا اینڈ آرڈرکو کنٹرول میں رکھنے کی کمال مہارت رکھتے ہیں۔ بزدار حکومت کی 2سالہ حکومت کے صرف ایک ہی اقدام کو عوام نے سراہا ہے وہ ہے سی سی پی او عمر شیخ کی تعیناتی جس کے بعد تھانوں میں معمولی سطح پر ہی سی عوام کی شنوائی کا آغاز تو ہواہے،لیکن انکو ہٹانے کیلئے ایک بڑی سیاسی جماعت ہم خیال پولیس آفیسرز اور ہم خیال میڈیا کے ساتھ مل کر مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں،ان سازشوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تو بات کر رہے تھے لاہور کے جلسہ کو گوجرانوالہ سے بڑا شو کرنے کی پلاننگ کی جا رہی ہے تو اب یہ امتحان ہو گا بزدار حکومت کا کہ عمران خان کے ویڑن کے مطابق پر فارم کر سکیں گے کہ نہیں۔ چونکہ بزدار حکومت اب تک کاسمیٹکس اقدامات پر چل رہی ہے، ابھی تک عوام کو ریلیف پہنچانے کا ایک بھی پروگرام شروع نہیں کر سکی ہے۔ پہلا بڑا منصوبہ فردوس مارکیٹ انڈر پاس منصوبہ کا افتتاح بھی ابھی تک زیرالتوا ہے۔ سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ لاہور میں پی ڈی ایم کاجلسہ الارمنگ ہو سکتا ہے لیکن یہاں یہ بھی معلوم ہواہے کہ حکومت نے جلسہ کی ناکامی کیلئے ہر اقدام کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔
لہٰذا یہ کہنا قبل ازوقت ہو گا کہ لاہور کا جلسہ کیا گوجرانوالہ سے بڑا ہو گا ویسے اس میں کوئی شک نہیں ہے 2011ءکے جلسے نے ہی پاکستان تحریک انصاف میں نئی جان پھونکی تھی جس کے بعد پہلے کے پی کے میں پھر 2018 میں کے پی کے، پنجاب اور پھر وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی لیکن اس حقیقت سے بھی سب واقف ہیں کہ جلسوں جلوسوں سے اب حکومتیں نہیں گرائی جا سکتیں، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں 11سیاسی جماعتیں مل کر جلسے کر رہی ہیں لیکن اس سے حکومت نہیں گرے گی، پی ٹی آئی اکیلے بڑے جلسے جلوسوں کا وسیع تجربہ رکھتی ہے لیکن کسی حکومت کو تو پی ٹی آئی بھی نہ گرا سکی، طویل دھرنا دینے کے باوجود بھی استعفے نہ لے سکی۔
تاریخ گواہ ہے کہ اگر پانامہ اور اقامہ نہ آ تا تو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو کوئی بھی حکومت سے نہیں ہٹا سکتا تھا۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم جتنے چاہے جلسے کر لے، پی ٹی آئی کی حکومت کو کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ یہ تو طے ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود پنجاب میں پی ٹی آئی کو پرفارمنس دکھانا ہو گی، بزدار حکومت کو کارکردگی دکھانا ہو گی۔
بلدیاتی انتخابات کیلئے سینئر وزیر علیم خان بھرپور محنت کررہے ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات میں اسی صورت پی ٹی آئی کامیابی حاصل کر سکتی ہے کہ بزدار حکومت کاسیمٹکس کارروائیوں کی بجائے عوام کیلئے ریلیف کے موثر اقدامات فوری کرے تو پھر ہی عوام کا اعتماد ایک بار پھر حاصل کر سکے گی۔ سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ بزدار حکومت کو مہنگائی پر کنٹرول کیلیے سہولت بازاروں کی رسمی کارروائی کے بجائے حقیقی عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے، اس نوعیت کے اتوار بازاروں کے تجربات پہلے بھی ناکام ہوچکے،لاہور میں دو کروڑ کی آبادی کیلیے صرف 31 سہولت بازار مہنگائی کی ماری عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتے۔
چند سستی اور غیر معیاری اشیاء خریدنے کیلیے کرائے خرچ کر ان بازاروں میں جانے اور دھکے کھانے والے حکومت کو دعائیں تو نہیں دیں گے،بہتر یہی ہے کہ معیشت کا پہیہ چلانے اور عوام کو ریلیف دینے والے حقیقی اقدامات کئے جائیں۔مہنگائ کا جن جس کسی کی بھی وجہ سے بوتل سے باہر ہے، مہنگائی سے نڈھال عوام کو ریلیف دینے کیلئے یہ تو اب طے ہے کہ جو بھی کرکے حکومت کو ہر قیمت پر مہنگائی کے اس جن کو بوتل میں بند کرنے کی بجائے اس جن کا گلا گھوٹنا ہوگا۔