کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنمااحسن اقبال نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی گفتگو سے لگتا ہے کہ ایک ہارا ہوا گھبرایا ہوا ضدی منقسم مزاج انسان ہے جس کو یہ نہیں پتہ کہ اس کا ایجنڈا کیا ہے۔
یہ لوگ پہلی دفعہ حکومت میں آئے اور ملک کو کھلونا بنالیا۔ نواز شریف وہاں جب تک ہیں وہ اپنے معالجین کے سر ٹیفکیٹ کے بغیر وہاں سے نہیں آسکتے۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل، عابد ساقی نے کہا کہ صدر پاکستان اس فیصلے کے بعد مسند صدارت پر متمکن رہنے کا اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں۔
جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کہا کہ صدر پاکستان کے بارے میں تو بڑے سخت ریمارکس ہیں ۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اگر اس طرح کا فیصلہ کسی اور ملک میں ہوتا تو حکومت استعفیٰ دے چکی ہوتی۔
میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے آج پھر میڈیا سے بات کی اور کہا کہ حکومت جنوری سے پہلے چلی جائے گی ۔ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ معاملہ ، لڑائی اور ہدف اس وقت عمران خان نہیں ہیں یہ بڑوں کا معاملہ ہے۔مگر آج وزیراعظم عمران خان نے انٹرویو دیا اوربہت سارے ایسے ایشوز پر بات کی جو آج سے پہلے نہیں کی تھی۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ اکثریتی فیصلے میں صدارتی ریفرنس میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اس کے نتیجے میں اس ریفرنس کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
فیصلے کے پیراگراف136کے مطابق یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں بہت ساری خامیاں ہیں۔ پہلی خامی درخواست کے خلاف تحقیقات کی منظوری وزیراعظم اور صدر کی طرف سے نہیں دی گئی بلکہ وزیر قانون نے اس کی منظوری دی۔
دوسری خامی قانون کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کوریفرنس دائر کرنے سے پہلے نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ تیسری خامی ٹیکس قانون کی متنازع اورغیر واضح تشریح کی بنیاد پریہ گمان کرلیا گیا کہ درخواست گزاراپنی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند تھے۔
چوتھی خامی ریفرنس میں منی لانڈرنگ کے الزام کے حق میں کوئی ثبوت نہیں تھے۔ پانچویں خامی ایسے کوئی شواہد نہیں پیش کئے گئے کہ فارن ایکسچینج ایکٹ کی خلاف ورزی کی۔ وزیراعظم کے مشورے کی منظوری کے لئے ضروری ہے کہ شکایت پر پہلے تحقیقات کی جائے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزیدلکھا کہ تمام دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد ہم یہ قرار یتے ہیں کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے قیام میں کوئی سنگین غلطی نہیں ہوئی۔