• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورا میز بھرا ہوا تھا‘ میں نے ایک ایک کاغذ کو احتیاط سے کھول کر دیکھناشروع کیا۔ کافی دنوں سے میرا بٹوہ کچھ زیادہ ہی پھول گیا تھااور مجھے لگتا تھا کہ بہت سے لوگوں کی اِس پر نظر ہے…بڑی دفعہ اسے سمارٹ کرنے کا سوچا لیکن پھر کوئی نہ کوئی میٹنگ نکل آئی۔آج میرا ارادہ تھا کہ ہر صورت اِس میں ٹھونسے گئے اہم کاغذات کو فائل میں لگائوں گا۔میز کی دائیں طرف میں نے اہم کاغذات رکھنا تھے اور بائیں جانب فالتو۔ پہلا کاغذ کھولا تو یہ کیبل والے کی پچھلے سال فروری کی رسید تھی ‘بائیں طرف رکھ دی۔ دوسرا کاغذ کھولا…یہ گاڑی کی بیٹری کی رسید تھی جس کی گارنٹی کی مدت ختم ہوچکی تھی، اس کا نصیب بھی بائیں جانب قرار پایا۔ باقی کاغذات بھی اسی قسم کے نکلنا شروع ہوگئے جن میں ٹول ٹیکس کی پرچیاں‘ انشورنس کمپنیوں کے نمائندوں کے وزیٹنگ کارڈز‘ اے ٹی ایم کی رسیدیں‘ کچھ عجیب و غریب فون نمبرز‘ ڈاکٹر کے نسخے‘پرانے سکرپٹس کے پوائنٹس‘ جمع کرائے گئے چیک کی رسیدیں وغیرہ شامل تھیں۔ یہ سب ’’اہم کاغذات‘‘ بلاوجہ بٹوے میں پڑے ہوئے تھے لہٰذا میں نے باری باری سب کو پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینکا اور ڈیڑھ ہزار روپے کی رقم انتہائی احتیاط سے بٹوے میں سجا کر رکھ دی۔ اب کی بار میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ کوئی غیر اہم کاغذ بٹوے میں نہیں رکھوں گا۔مجھے بڑا شوق ہے کہ میرے بٹوے میں ہر نوٹ کچھ اس طرح سے پڑا ہوجیسے بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کے کیشیئر رکھتے ہیں لیکن تمام تر کوشش کے باوجود میرے نوٹ آپس میں گڈ مڈ ہوجاتے ہیں اور کئی دفعہ پارکنگ والے کو بیس روپے بھی دینے ہوں تو پورا بٹوہ گاڑی کی سیٹ پر الٹنا پڑجاتاہے۔

بٹوہ ہلکا ہوگیا تو اسمارٹ بھی لگنے لگا‘ اب کی بار میں نے اسے جیب میں رکھا تو مجھے خاصی طمانیت کا احسا س ہوا ۔ بٹوے کا وزن کم ہوتے ہی مجھے اپنا آپ بھی ہلکا پھلکا لگنے لگا۔چار پانچ دن میں نے بڑے اہتمام سے کوئی فالتو کاغذ بٹوے میں داخل نہ ہونے دیا‘ لیکن پھر غیر ارادی طور پر وہی چیزیں بٹوے کا حصہ بننے لگیں جن کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔میں سر توڑ کوشش کر چکا ہوں کہ کسی طرح اپنے بٹوے کو Manage کرسکوں لیکن ہر کوشش ناکام ہوتی نظر آتی ہے۔

جونہی کوئی مجھے اپنا وزیٹنگ کارڈ تھماتا ہے، میں غیر ارادی طور پراسے بٹوے میں رکھ لیتاہوں اور جب بٹوے کی صفائی کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے تو ذہن پر زور دینے سے بھی یاد نہیں آتا کہ یہ وزیٹنگ کارڈز کن صاحبان کے ہیں اور انہوں نے مجھے کیوں عنایت کیے تھے؟ مثلاً ایک کارڈ باتھ روم اور چھتوں کی لیکیج روکنے والے کا نکلا ‘ مجھے نہیںیاد کہ مجھے گھر میں ایسے کسی کام کی ضرور ت پڑی ہو۔ایک کارڈشادی بیاہ پر ٹینٹ لگانے والوں کا ہے‘ اس کی بھی کوئی تُک سمجھ نہیں آرہی…اور یہ دیکھئے ‘ یہ پرچی جس پر لکھا ہے’’پانچ ہزار پہلے اور دو ہزارآج‘‘ …پتا نہیں یہ پیسے میں نے کسی کو دیے تھے یا لیے تھے؟ بجلی کا ایک دوسا ل پرانا بل بھی نکلا ہے جس کے ایک کونےپرنیلے رنگ کے بال پوائنٹ سے Important لکھا ہوا ہے‘ اللہ جانے یہ میں نے کیوں رکھا تھا۔میں نے اپنی پریشانی کا ذکر ایک دوست سے کیا تو اُس نے اپنا سر پکڑ لیا اور بے بسی سے بولا،’’یہی سب میرے ساتھ بھی ہوتا ہےبلکہ مجھے تو ایک اور بھی پرابلم ہے کہ میں فالتوکاغذ سنبھال کر رکھ لیتا ہوں اور یوں میرے بیڈ روم کی الماری‘ لیپ ٹاپ کا بیگ‘ کپڑوں کی جیبیں اور فریج کے اوپر بھی کاغذوں کا انبار لگا ہوا ہے۔‘‘میں نے دوست سے پوچھا کہ کیا تمہارا دل نہیں کرتا کہ کسی دن ٹائم نکال کر فالتوکاغذوں سے جان چھڑائو؟ کہنے لگا’’کئی دفعہ کوشش کرچکا ہوں لیکن جو بھی کاغذ کھولتاہوں ، وہ اہم لگتاہے لہٰذا ڈیڑھ دو گھنٹے کی مشقت کے بعد جب اٹھتاہوں تو سارے کاغذجوں کے توں موجود ہوتے ہیں‘‘۔یہی حال موبائل فون کا بھی ہے‘ کسی دن اپنے موبائل میں محفوظ فون نمبرز چیک کیجئے گا‘ آپ کو حیرت ہوگی کہ آدھے سے زیادہ نمبرز کی ضرورت آپ کو ایک سال سے پیش نہیں آئی ہوگی‘ کئی نام ایسے بھی ہوں گے جن کے بارے میں خود آپ کو بھی بھول چکا ہوگا کہ یہ نام کس کا ہے اور آپ نے کیوںSaveکیا ہوا ہے؟ فیس بک کی فرینڈز لسٹ بھی ایسے ناموں سے بھری ہوئی ملے گی جن کا کوئی اتا پتا نہیں۔زندگی کی بہت سی چیزیں ہمیں بہت اہم لگتی ہیں ‘ ہمیں لگتاہے کہ ہمارے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک میں موجود ڈیٹا اگر اُڑ گیا تو ہم کسی کام کے نہیں رہیں گے‘ لیکن دیکھ لیجئے‘ ہمارے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کی کئی ہارڈ ڈسکس، جن میں ہمارا اہم ڈیٹا موجود تھا ‘ پڑی پڑی خراب ہوگئیں لیکن ہمیں کبھی اُس ڈیٹا کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ہماری بے شمار قیمتی تصویریں پھٹ گئیں لیکن ہمیں یاد ہی نہیں۔ ان چیزوں کی اہمیت کا احساس تب ہوتا ہے جب یہ اچانک سامنے آجاتی ہیں۔ آج اگر ہمارےکمپیوٹرز کی خراب ہارڈ ڈسکس کا ڈیٹا دوبارہ ہمیں مل جائے تو ہم دنگ رہ جائیں گے کہ اتنے قیمتی ڈیٹا کے بغیر ہم کیسے اطمینان سے رہ رہے تھے؟ ہمارے موبائل فون گم یا چوری ہوجائیں تو ہمیں فوری طور پر ایک دھچکا سا لگتاہے کہ فون میں اتنے اہم کنٹیکٹ نمبرز تھے‘ وہ اب کہاں سے آئیں گے…لیکن پہلا موبائل خریدنے سے آج تک ہم بے شمار نمبرز کھو چکے ہیں‘ اس کے باوجود ہمارا ہر اہم نمبر آج بھی ہمارے موبائل میں موجود ہے۔یہی حال انسانوں کا بھی ہے۔ کتنے اہم ترین لوگ جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ نہ ہوں گے تو زندگی ختم ہوجائے گی لیکن زندگی جاری ہے ۔ نئی شکلیں آتی جارہی ہیں اور پرانی بھولتی جارہی ہیں۔ زمین کا بٹوہ خالی ہونے اور بھرنے کا عمل جاری ہے۔

تازہ ترین