اسلام آباد (اے پی پی)سپریم کورٹ نے سندھ میں بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنانے سے متعلق ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان تحریک انضاف کی جانب سے دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے فریقین کے وکلا کو ایک ہفتے میں تحریری معروضات جمع کرانے کا حکم دیدیا ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات سندھ حکومت نے دینے ہیں عدالت نے نہیں،سندھ اور لوکل گورنمنٹ کے درمیان تنازع کے بیچ میں عدالت نہیں آئیگی، قانون بنانے والوں کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرینگے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ تمام صوبوں کو سنے بغیر فیصلہ نہیں دے سکتے نہ سطحی باتوں میں جائیں گے، آئین مقامی حکومتوں کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت نے آرٹیکل 140 اے کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ میں بلدیاتی اختیارات کا معاملہ سنگین ہے، سندھ کے حوالے سے یہ معاملہ صوبائی اسمبلی پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔پیر کوچیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کیس پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل صلاح الدین نے کراچی رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ کراچی میں بلڈنگ کنٹرول،واٹر سپلائی، لوکل ٹرانسپورٹ، سالڈ ویسٹ سمیت متعدد بلدیاتی ادارے سندھ حکومت کے زیر کنٹرول ہیں،کراچی میں بلدیاتی حکومت کے پاس صرف پارکس اور لائبریریوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ہےجس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں نہیں جاسکتی۔ عدالت عظمی قرار دے چکی ہے کہ آرٹیکل 140 اے پر عملدرآمد ضروری ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ میئر کراچی کو کئی مرتبہ پبلک ٹرانسپورٹ کا افتتاح کرتے دیکھا، افتتاح کے اگلے ہی دن بسیں سڑکوں سے غائب ہوتی ہیں، میئر کراچی ڈیلیور نہیں کر سکے شائد تب ہی اختیارات واپس لئے گئے، سپریم کورٹ آ رٹیکل 140 اے کی تشریح کر چکی ہے، اختیارات سندھ حکومت نے دینے ہیں عدالت نے نہیں،سپریم کورٹ کا یہ کام نہیں کہ وہ دیکھے کس سیاسی جماعت کو کتنے ووٹ ملے،سپریم کورٹ کا کام سیاسی جماعتوں کے ووٹ گننا نہیں ہے۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کیا آ پ چاہتے ہیں کہ عدالت سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 ء کو کالعدم قرار دے؟ کیا ہم موٹر وہیکل ایکٹ ،واٹر اینڈ سیوریج بورڈ قوانین بھی کالعدم قرار دیدیں؟ ہر صوبے کا اپنا قانون اور اپنے زمینی حقائق ہیں، بہتر ہو گا پہلے متعلقہ ہائیکورٹ سے رجوع کیا جائے۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ فی الحال تو سندھ میں مقامی حکومت کا وجود ہی نہیں، مقامی حکومت ہوتی تو صوبائی حکومت کیساتھ بیٹھ کر مسئلے حل کرنے کا کہتے، اختیارات کس حد تک دینے ہیں اس پر صوبائی حکومت سے بارگین کریں، جو ریلیف ایم کیو ایم پاکستان مانگ رہی ہے وہ ہائیکورٹ سے بھی مل سکتا ہے، بلدیاتی اختیارات کا معاملہ قانونی سے زیادہ سیاسی ہے۔ ہم تمام صوبوں کو سنے بغیر ایسا فیصلہ کیسے دے دیں جس کا اطلاق پورے ملک میں ہونا ہے، دوران سماعت ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل نے موقف اپنایا کہ سندھ حکومت سے مذاکرات ناکام ہوئے اسی لئے معاملہ عدالت میں لائے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مذاکرات ناکام ہونا سیاسی معاملہ ہے، جس پر ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا موجودہ قانون کے مطابق تمام ادارے صوبائی حکومت کے پاس رہنے چاہیں، کیا اختیار دینا ہے کیا نہیں دینا یہ فیصلہ صوبائی حکومت کریگی، جس پر چیف جسٹس نے گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت نے آرٹیکل 140 اے کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین مقامی حکومتوں کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہے، کیا بلڈنگ کنٹرولز اور ٹاون پلاننگ صوبائی حکومت کا کام ہے؟ ہر کام صوبائی حکومت نے کرنا ہے تو بلدیاتی حکومت کا کیا کام ہے؟ دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ کئی مسائل بااختیار مقامی حکومتوں کی وجہ سے حل ہوتے ہیں، سندھ میں بلدیاتی اختیارات کا معاملہ سنگین ہے، سندھ کے حوالے سے یہ معاملہ صوبائی اسمبلی پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ عدالت عظمی سے استدعا ہے کہ وہ قرار دے کہ سندھ اسمبلی میں اکثریتی پارٹی بلدیاتی اختیارات واپس نہیں لے گی عدالت عظمی کہہ سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سندھ میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے فریقین کے وکلاء کو معاملے پر اپنی معروضات ایک ہفتے میں جمع کرانے کا حکم دیدیا ہے۔