گھونگٹ،چنگاری اور ہمراز جیسے شاہ کار بحیثیت فلم ڈائریکٹر ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ نامور موسیقار خواجہ خورشید انور پر بطور موسیقار بہت کچھ لکھا جاتا ہے۔ موسیقی میں ان کی مہارت ،تجربات، مشکل اور پیچیدہ دھنوں کو نغمگی سے آراستہ کرنے میں ان کی مشاقی کا سارا عالم معترف ہے۔ موسیقار اعظم نوشاد مرحوم نے بھی انہیں برصغیر کا سب سے بڑا موسیقار تسلیم کیا، لیکن وہ ایک عظیم، بے مثل موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ذہین اور اعلیٰ پائے کے فلم ڈائریکٹر بھی تھے۔
اس پر شاذو نادر ہی بات کی گئی ہو۔ بہ حیثیت ڈائریکٹر خواجہ خورشید انور نے صرف تین عدد فلمیں ڈائریکٹ کی ہیں اور تینوں ہی فلمیں سبجیکٹ ،کردار نگاری، موسیقی،عکاسی ، اور بالخصوص ہدایت کارانہ ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے اعلیٰ معیار کی حامل اور منفرد فلمیں شمار کی جاتی ہیں۔ 1962میں خواجہ خورشید انور نے ’’گھونگھٹ‘‘ کے ٹائٹل سے پراسرار و تجسس میں لپٹی ہوئی کہانی کو بطور ڈائریکٹر اپنا موضوع بنایا۔ فلم کی کہانی بھوربن میں بھٹکنے والی ایک دوشیزہ کی روح کے گرد گھومتی ہے۔
روح کا یہ کردار منجھی ہوئی اداکارہ نیئر سلطانہ نے کمال فن کے ساتھ ادا کیا۔، فلم کی تمام تر شوٹنگ بھوربن میں ہوئی۔ یہ ایک الجھی ہوئی سی کہانی تھی،جسے خورشید انور نے کسی کہنہ مشق ڈائریکٹر کی طرح بہت ہی اعلیٰ اور مضبوط ٹریٹمنٹ سے سنوارا۔ فلم کے ایک ایک فریم پر ان کی گرفت اور محنت محسوس کی جا سکتی ہے۔ پراسرارمناظر میں چار سو پھیلا دُھواں، گھنٹیوں کی آوازیں اور کہیں موت کا سا سکوت، غرض یہ کہ ہر منظر کی ضرورت اور اہمیت کے مطابق انہوں نے فلم کو شان دار ٹرٹیمنٹ دیا اور پس منظر موسیقی کا استعمال بھی جس ذہانت سے کیا گیا، وہ خواجہ خورشید انور کو ایک بریلینٹ فلم میکر ثابت کرنے کے لیےکافی ہے۔
گھونگٹ کی فوٹو گرافی نبی احمد نے پوری مشاقی اور مہارت سے کی تھی اور ایک ایک فریم بڑی مہارت اور محنت سے سنوار کر انہوں نے ’’گھونگٹ‘‘ کی پراسراریت اور دل کشی بڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ فلم کے موسیقار خواجہ خود تھے،لہٰذا انہوں نے اس فلم کے بیش تر گیتوں کی دُھنوں میں اسرار اور تجسس کی کیفیت کو بڑی ذہانت اور مہارت سے سمویا۔
بالخصوص نسیم بیگم کا گایا گیت ’’ چھن چھن چھن میری پائل کی دُھن‘‘ اور میڈم نورجہاں کے تناظر میں ’’جنم جنم کی پیاس بجھائے کوئی آئے ‘‘ ایک جانب کمپوزیشن کے تناظر میں تو دوسری جانب ہدایت کار ٹریٹمنٹ کے حوالے سے مہارت ،ذہانت اور مشاقی کے بہترین اور اعلیٰ مظاہر ہیں کہ دیکھنے والے مبہوت اور ہپنا ٹائز جیسی کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔
گھونگٹ 1962کی نمایاں ترین معیاری اردو فلموں میں شمار کی گئی۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ اس سال کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ معیاری فلم تھی۔ فلم نے متعدد نگار ایوارڈز حاصل کیے ، جب کہ پاکستان کی جانب سے اسے آسکر کے لیے بھی نامزد کر کے بھیجا گیا۔ فلم نے باکس آفس پر بھی مناسب کام یابی حاصل کی۔ 1964میں خواجہ خورشید انور ’’چنگاری‘‘ کے ٹائٹل سے اپنی دوسری تخلیق منظر عام پر لائے۔ فلم کا موضوع مغربی تہذیب کی مشرقی معاشرے میں برپا ہونے والی تباہ کاریاں تھیں۔ فلم کا گیت ’’اے روشنیوں کے شہر بتا ‘‘ فلم کے موضوع کا بھرپور احاطہ کرتا ہے۔
گو کہ شمیم آرا اور سنتوش کمار فلم کے لیڈ کردار تھے، لیکن ان کے ساتھ ساتھ دیبا خانم کا سپورٹنگ کردار اپنی فیچر اور پرفارمنس کے تناظر میں حیران کُن اور چونکا دینے والا تھا۔ کہانی کے مطابق ’’دیبا خانم ‘‘ مغربی تہذیب کے زیر اثر ایک ایسی بے راہ رو دوشیزہ ہے، جو نوجوانوں کو اپنی خواہش کی تسکین کے لیے اپنی ویران حویلی میں لے جا کر استعمال کرتی ہے اور پھر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔
دوسری جانب فلم کا ہیرو خواجہ خورشید انور کے شان دار اور جان دار ہدایت کارآنہ ٹرٹینمنٹ نے ’’چنگاری‘‘کو ایک اعلیٰ منفرد معیاری اور فلم کی حیثیت دی۔ اس فلم میں بے نام سی پراسراریت کہانی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ چنگاری کو ناقدین نے خواجہ خورشید انور کے بہترین اور منفرد ٹریٹمنٹ کے حوالے سے بے حد سراہا۔
بہ طور ڈائریکٹر خواجہ خورشید انور کی تیسری اور آخری تخلیق’’ہمراز‘‘ تھی، جسے شیخ عبدالرشید آف اوریگا پکچرز نے پروڈیوس کیا تھا،یہ دو ہم شکل بہنوں کی کہانی تھی، جن کے سرپرست کا کردار آغا طالش نے ادا کیا تھا اور ہم شکل بہنوں کی تمثیل پاکستانی سینما کی غیر معمولی فنکارہ شمیم آرا نے اپنی شان دار ،جان دار اور حقیقت سے قریب تر پرفارمنس کے ساتھ نبھا کر امر کر دیا ۔کہانی میں پر اسراریت اور تجسس کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا۔
خواجہ صاحب کا ہدایت کارانہ ٹریٹمنٹ بھی اسی قدر مضبوط اور ماہرانہ تھا۔ فلم کے ہیرو، علی دی گریٹ تھے، لیکن پرفارمنس کے تناظر میں شمیم آرا اور آغا طالش سے منسوب ہے۔تاہم مینا شوری، اور چنگیزی سے بھی خواجہ صاحب نے خوب کام لیا۔
خواجہ خورشید انور کی اعلیٰ ہدایت کاری سے سجی یہ فلم 02اکتوبر 1967کو منظر عام پر آئی۔ گو کہ خواجہ صاحب کی زیر صدارت بننے والی کسی فلم نے باکس آفس پر دُھوم نہیں مچائی، لیکن بہ حیثیت ڈائریکٹر انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور ذہانتوں کا لوہا ناقدین سے خُوب منوایا۔