• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ایک ایسا ہیرو، جس نے وِلن سے شہرت پائی اداکار ’’حنیف‘‘

’’ساتھی تیرا میرا ساتھی یہ لہراتا سمندر‘‘ یہ آل ٹائم سپرہٹ گانا فلم سمندر کا ہے، جو 1968ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس مقبول گانے کو احمد رشدی، سائیں اختر اور دیگر ساتھیوں نے اپنی آوازوں میں ریکارڈ کروایا۔ اس گانے میں اداکار وحید مراد کے ساتھ جو خوبرو نوجوان نظر آتا ہے، وہ اداکار حنیف تھا۔ ہیرو سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے اس اداکار کی کہانی بڑی عجیب ہے۔ ایک خُوب صورت پُرکشش شخصیت کے مالک اس اداکار کی مشابہت لیجنڈ اداکار دلیپ کمار سے بڑی حد تک ملتی تھی۔ حنیف کو جو بھی دیکھتا تھا دلیپ کمار کہہ کر بُلاتا۔ شاید یہ ہی پہچان ان کو فلمی صنعت کی طرف لے گئی۔ وہ موٹر مکینک کے کام سے بھی واقف تھے۔ 1962ء کا ذکر ہے جب کراچی کی فلمی صنعت بہت عروج پر تھی۔ 

محمد علی، وحید مراد اور کمال فلموں میں ہیرو آرہے تھے۔ ان ہی دنوں کراچی سے ایک فلم ساز اے حامد ابراہیم نے اپنی نئی فلم ’’ہمیں بھی جینے دو‘‘ کے لیے نئے ہیرو کی تلاش شروع کی۔ کراچی کے سابق اوڈین سینما میں اس فلم ساز کا آنا جانا تھا۔ اس طرح حنیف موٹر مکینک سے ہیرو بن گئے۔ 15نومبر 1963ء کو کراچی کے اوڈین سینما پر فلم ’’ہمیں بھی جینے دو‘‘ ریلیز ہوئی۔ فلم کی ہیروئن زمرد تھیں ، جنہوں نے اس فلم میں نازی کے نام سے اداکاری کی۔ بہ طور ہیروئن یہ زمرد کی بھی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں شہنشاہ غزل مہدی حسن خان کی گائی ہوئی مشہور غزل ’’ایسی آنسو بھری زندگی کسی کو نہ دے‘‘ نہ صرف اپنے دور میں مقبول ہوئی، بلکہ آج بھی سدا بہار ہے۔ یہ غزل اداکار حنیف پر فلمائی گئی تھی۔ 

ہدایت کار بٹ کاشر جو کہ اداکار بھی تھے ، انہوں نے اپنی ایک اور فلم ’’رات کی رانی‘‘ میں بھی حنیف کو بہ طور ہیرو کاسٹ کیا ، وہ ایک مکمل ایکشن فلم تھی، جس کی شوٹنگ کے دوران وہ گھوڑے سے گرکر زخمی بھی ہوگئے تھے۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں انہیں اداکارہ شبانہ کے ساتھ ایک کاسٹیوم فلم ’’مرزا محل‘‘ میں بھی بہ طور ہیرو کاسٹ کیا گیا۔ اس فلم کی ڈھاکا میں شوٹنگز شروع ہوئیں، لیکن فلم التواء کا شکار ہوکر سقوط ڈھاکا کی نظر ہوگئی، مرزا محل اور رات کی رانی ان دونوں نامکمل فلموں سے حنیف کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔

’’ہمیں بھی جینے دو‘‘ کے بعد 1964ء میں بھارت سے آئے ہوئے فلم ساز ہدایت کار فلم ’’میخانہ‘‘ بنائی،اس میں حنیف نے ایک بگڑے ہوئے نواب زادے کا کردار بڑی عمدگی سے نبھایا۔ 1965ء میں ہدایت کار رفیق رضوی المعروف بابو کی گھریلو فلم ’’آرزو‘‘ میں وہ اداکارہ ترنم کے مقابل ہیرو کاسٹ ہوئے۔ اس فلم میں انہوں نے نفسیاتی مریض کا کردار ادا کیا، جسے لوگوں نے بے حد پسند کیا۔ اس فلم میں ان پر گلوکار مسعود رانا کی آواز میں یہ نغمہ ’’آرزو کا رنگ بھرکر دل کا افسانہ کہو‘‘ اپنے دور میں بے حد مقبول ہوا۔ 

فلم آرزو کی کہانی پر 1972ء میں شباب کیرانوی کی فلم ’’افسانہ زندگی کا‘‘ ریلیز ہوئی۔ حنیف کے والد کردار لیجنڈ اداکار محمد علی نے کیا تھا اور وہ کردار امر ہوگیاتھا۔ 1965ء میں بھارت کے جنگی حملے اور جنون کو پاکستان کی جانباز آرمی اور غیور عوام نے عبرت ناک شکست دی تو اس جذبہ کو ہدایت کار اور مصنف اقبال رضوی نے فلم ’’آزادی یا موت‘‘ کے عنوان سے سلور اسکرین پر خراج تحسین کیا۔ اس فلم میں حنیف نے ایک بہادر فوجی کا کردار ادا کرکے عوام کی بھرپور داد وصول کی۔ 

اداکارہ صوفیہ بانو نے اس فلم میں ان کے مدمقابل ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ فوک گلوکار عالم لوہار کی مشہور جگنی’’ہو دنیا جانے میرے وطن کی شان‘‘ میں شامل کی گئی، جو فلم میں حنیف اور عالم لوہار پر فلمائی گئی۔ یہ کام یاب فلم 1966ء میں کراچی کے پلازہ سینما میں نمائش پذیر ہوئی تھی۔ اسی سال حنیف، حنا اور یوسف خان کی رومانی فلم ’’مثال‘‘ ریلیز ہوئی، جو ناکام رہی۔ فلم ساز غفار دانہ والد اور ہدایت کار اقبال یوسف کی پہلی ملٹی اسٹار ایکشن فلم ’’جوش‘‘ اس سال ریلیز ہوکر کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔ یہ پانچ جنگجو بھائیوں کی ایکشن سے بھرپور کاسٹیوم فلم تھی،جس میں سدھیر، وحید مراد، حنیف، جعفری، اقبال یوسف نے پانچ بھائیوں کے کردار نبھائے تھے، جب کہ ان کے مقابل زیبا، روزینہ، ترانہ، نفیسہ نور اور رخسانہ نے ہیروئنز کے کردار کیے تھے۔ 

اس فلم کی شوٹنگ کے دوران حنیف، وحید مراد، اقبال یوسف اور فومی کی دوستی بے حد مضبوط ہوگئی اور یہ چاروں زندگی بھر اچھے دوستوں کی طرح رہے، جن دنوں فلم جوش زیر تکمیل تھی۔ یہ چاروں اداکار شوٹنگ سے فارغ ہونے کے بعد کراچی کے پررونق علاقے مارواڑی لین نبی بخش روڑ پر واقع تاجو ہوٹل پر آجاتے تھے۔ کبھی کبھار لطیف مچھی والے کی لذیر مچھلی فرائی اور مسالے دار بریانی کے بھی ذائقے لیتے تھے۔ عوام کی ایک بڑی تعدد اپنے ان محبوب فن کاروں کے گرد جمع ہوجاتی تھی۔ حنیف کی رہائش بھی اسی علاقے میں تھی۔

فلم ’’جوش‘‘ کے بعد اداکار حنیف کی ایک اور سپرہٹ فلم ’’کون کس کا‘‘ میں وہ سائیڈ ہیرو آئے۔ طلعت صدیقی ان کی ہیروئن تھیں۔ فلم کے مرکزی کردار کمال اور حسنہ نے ادا کیے تھے، جب کہ اداکار لہری کا کردار بھی اہم تھا۔ منور رشید اس کام یاب فلم کے ہدایت کار تھے۔ ہدایت کار الحامد کی کام یاب نغماتی فلم ’’ہم دونوں‘‘ میں پہلی بار حنیف نے ولن کا کردار نبھایا، جو لوگوں نے بے حد پسند کیا۔ اس دور میں اسلم پرویز اکلوتے کام یاب ولن تھے۔ ’’ہم دونوں‘‘ کی کام یابی نے حنیف کو بھی وِلن کے کرداروں کی آفرز زیادہ ہونے لگی، لیکن وہ ہیرو کے کرداروں میں آنا چاہتے تھے۔ کراچی میں بننے والی ہدایت کار اے ایچ صدیقی کی فلم ’’اکیلے نہ جانا‘‘ میں حنیف نے روزینہ کے مقابل سائیڈ ہیرو کا کردار کیا۔ 

فلم کے مرکزی کرداروں میں محمد علی اور صوفیہ بانو تھے۔ 1967ء میں اداکار حنیف کی چار فلمیں، میرے لال، استادوں کا استاد، رشتہ ہے پیار کا اور ہمدم ریلیز ہوئیں۔ قمر زیدی کی فلم ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ میں وہ ایک کام یاب وِلن بن کر سامنے آئے۔ اس فلم کے بعد وہ زیادہ تر منفی کرداروں میں کاسٹ ہونے لگے۔ 1968ء میں ریلیز ہونے والی وحید مراد کی سپرہٹ فلم ’’سمندر‘‘ میں حنیف کی کردار نگاری پسند کی گئی۔ وحید مراد اور شبنم کے ساتھ سیکنڈ پیئر حنیف اور روزینہ کا تھا۔ اس فلم کی کہانی مچھیروں کی زندگی اور ان کے مسائل پر مبنی تھی۔

سمندر کی کام یابی کے بعد منزل دور نہیں۔ اور کھلونا نامی فلموں میں ان کی اداکاری پسند کی گئی۔ 1969ء میں ہدایت کار اقبال یوسف کی سپرہٹ فلم ’’تم ملے پیار ملا‘‘ کی بے مثال کام یابی نے حنیف کا شمار ایک معروف وِلن کے طور پر کروایا۔ علی زیب کی اس یادگار نغماتی رومانی فلم میں حنیف کے منفی رول کو بھی سراہا گیا۔

تم ملے پیار ملا، نے حنیف کو ہیرو سے کام یاب وِلن بنادیا۔ 1970ء میں سید کمال کی ذاتی فلم ’’ہنی مون‘‘ میں ایک بار پھر لوگوں نے حنیف کے منفی کردار کو بے حد پسند کیا۔ ہنی مون کے علاوہ وہ فلم کردار ’’جھگ گیا آسمان‘‘ مسٹر 420، پھر چاند نکلے گا، روڈ ٹو سوات اور چاند سورج بھی بہ طور وِلن کام یاب رہے۔ اسی سال ان کی ایک سندھی فلم بھی ریلیز ہوئی تھی۔1971ء میں حنیف نے جن فلموں میں کام کیا ان میں روٹھا نہ کرو، ایک سپیرا، روپ بہروپ کے نام شامل ہیں۔ 1972ء میں ہدایت کار ایس سلیمان گولڈن جوبلی سپرہٹ گھریلو فلم ’’سبق‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں محمد علی اور زیبا نے ہیرو ہیروئن کے کردار کیے۔ اداکارہ حسنہ نے اس فلم میں ایک موڈرن آزاد خیال امیر زادی کے منفی کردار میں اپنی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس فلم کی کام یابی نے حسنہ کو گلیمرل لیڈی بنادیا۔ اسی فلم میں حنیف نے بھی وِلن کے کردار میں بہت عمدہ اداکاری کی۔

اس سال ریلیز ہونے والی اردو فلم ’’جہاں برف گرتی ہے‘‘ میں حنیف نے پہلی بار مزاحیہ کردار میں بہت اعلیٰ اداکار پیش کی۔ 1973ء میں پہلی بار پنجابی فلم ’’بنارسی ٹھگ‘‘ میں ڈاکٹر کا کردار کیا۔ اس سال ’’انسان اور گدھا‘‘ میں ایک بلوچی بدمعاش کا کردار بھی ان کے کیریئر کا خُوب صورت کردار اور یادگار کردار تھا۔ 1974ء میں بہ طور وِلن وہ بدمعاش پتھر، غلام، نمک حرام، نیلام، مِس ہپی جوان میرے دیس دا، شہنشاہ، مٹی کے پتلے، اور بانو رانی میں کام کیا۔ 1975ء میں ان کی منفی اداکاری کے جوہر فلم روشنی، نوکر، گنوار، آرزو، پیسہ، صورت اور سیرت، چلتے چلتے، ساجن رنگ رنگیلا، راول، امنگ، پالکی، خان زادہ، دس نمبر، تیرے میرے سینے میں دیکھنے کو ملے۔ 

مذکورہ بالا فلموں کے علاوہ اداکار حنیف کی چند قابل ذکر فلموں میں بدتمیز، شبانہ، عورت ایک پہلی، ان داتا، پنڈی وال، سوسائٹی گرل، داغ، گاما بی اے، جوڑ برابر دا، آئینہ، آمنا سامنا، جوانی دیوانی، سنگم، سسرال، عاشی، عشق عشق، سلاخیں، آخری مقابلہ، جینے کی راہ، بارار، بہت خوب، شیشے کا گھر، نذرانہ، مٹھی بھر چاول، انتخاب، ماضی حال مستقبل، آواز، پاکیزہ، مسٹر رانجھا، نیا انداز، مولا جٹ، کس نام سے پکاروں، کبھی الوداع نہ کہنا، دیوانگی، دوریاں، نادیہ، ہیرو، ساس میری سہیلی، سن آف ان داتا، زلزلہ، ایک سے بڑھ کر ایک اور آخری مقدمہ شامل ہیں۔ 

آخری دور میں وہ صرف مہمان اداکار یا پھر ایکسٹرا کے طور پر فلموں میں کاسٹ ہوتے رہے۔ ہیرو سے وِلن بننے والے اس اداکار نے کل 173 ریلیز شدہ فلموں میں اداکاری کی۔ 2جولائی 1990ء میں کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔

تازہ ترین
تازہ ترین