ہمارے معاشرے میں ایسے فن کاروں کی کبھی کمی نہیں رہی، جو لوگوں کو ہنسا ہنسا کر رُلا دیں، اور روتے ہوئوں کو بے ساختہ ہنسنے پر مجبور کر دیں۔ عام زندگی میں تو ایسے مناظر عموماً دکھائی دیتے ہیں لیکن کسی آڈیٹوریم کے اسٹیج پر اس نوعیت کی کردار نگاری کو فن کی بلندی اور فن کار کی بے پناہ ریاضت شوق و لگن سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسٹیج سجانا اور اسٹیج پر کھڑے ہو کر سیکڑوں لوگوں کے رُوبرو براہ راست اداکاری کرنا، دونوں ہی عوامل انتہائی کٹھن ہوتے ہیں اور فن کار کی پختہ اداکاری یا محض ناکامی کا فیصلہ بھی عوام آڈیٹوریم سے باہر نکلتے وقت کر دیتے ہیں۔
ولیم شیکسپیئر کا کہنا ہے کہ ’’یہ دُنیا ایک اسٹیج ہے، جہاں ہر شخص اپنا کردار ادا کر کے رُخصت ہو جاتا ہے‘‘ اگر اسٹیج ڈراموں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو کہا جاتا ہے کہ دُنیا میں باقاعدہ اسٹیج ڈراموں کا آغاز چوتھی صدی قبل مسیح کے دوران روم سے ہوا، جہاں دربار، محلات اور امراء کی تقریبات میں یہ ڈرامے اسٹیج پر پیش کیے جاتے تھے اور ان ڈراموں کی کہانی کے مطابق اشعار یا مصرعوں کی صورت میں مکالمے بازی ہوتی تھی۔ کردار کی مناسبت سے لباس پہنتے اور چہروں پر ماسک لگا کر کرداروں کو اُبھارا جانے لگا، عموماً یہ ڈرامے بھی کسی حکم راںیا بادشاہ کے سامنے پیش ہوتے تھے۔ بعدازاں یہ اسٹیج ڈرامے محلات سے نکل کرعوامی مقامات پر آگئے، جس کی بنا پر اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا، اسے تھیٹر کی جدید قسم کہا گیا۔ اس کے بانی و بابائے اسٹیج ہنرک ابسن (Henrik Ibsen) تھے۔ 472 قبل مسیح کے دوران ڈائینیشا شہر میں دُنیا کا پہلا ڈراموں کا مقابلہ منعقد ہوا جس میں پہلا انعام ایران کے ایک فارسی ڈرامے کو ملا۔
اس ڈرامے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ یہ اسٹیج پر 25 سال تک مسلسل پیش کیا گیاجب کہ ڈرامے کےکرداروںکی وقتاً فوقتاً تبدیلی کی جاتی رہی۔ ڈرامے کا لفظ دراصل یونانی لفظ ’’ڈرائو‘‘ سے ماخذ ہے، جس کےمعنی ’’ایکشن‘‘ ہے، ایسا ایکشن یا کردار نگاری کہ جس کے ذریعے شائقین سے داد وصول ہو۔ برصغیر میں ڈراما ایران ہی سے پہنچا اور پہلا ڈراما اُردو زبان میں 1853ء میں پیش کیا گیا۔ بعدازاں 1855ء کے دوران آغا حسن امانت کا ڈراما ’’اندرسیا‘‘ اودھ کے نواب واجد علی شاہ کے دربار میں منعقد ہوا جب کہ ہندوستان کے طول و عرض میں مہابھارت، رام لیلا، کشن کہنیا رادھا، کے علاوہ دیگر ہندوئوں کے ماورائی کرداروں، قصّے کہانیوںپر مبنی ڈرامے مندروں یا اسٹیج پر پیش کیے جاتے تھے۔
فن و ثقافت کے قدیم گہوارہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں بھی اسی نوعیت کے ڈرامے پیش کے جاتے تھے۔اس زمانے میں حیدرآباد کے قدیم علاقے ٹنڈو ٹھوڑو کے ایک گھر میں مرزا قلیچ بیگ نے جنم لیا، جو شمس العلماء، معروف اَدیب و ڈراما نگار کہلائے اور ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ انہوں نے ولیم شیکسپیئر اور آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا۔ 1924ء کے دوران انہوں نے حیدرآباد نیشنل کالج ڈرامیٹک سوسائٹی کی بنیاد رکھی، اور ممبئی کا مشہور ڈراما ’’شرمتی متحری‘‘ کا اُردو ترجمہ ’’موہن‘‘ کے نام سے حیدرآباد میںا سٹیج پر پیش کیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابتدامیں ڈراموں میںنسوانی کردار مرد ہی ادا کرتے تھے، لیکن اس روایت کو ایک ڈرامے ’’ریٹرن فرام آیورڈ‘‘ میں معروف اداکار ولی رام آئل والا نے اپنی بیٹی گوپی تھدانی سے ہیروئن کا کردار کرا کےتبدیل کیا۔
بعدازاں ان کی پیروی میں میر چندانی اور پری اجل سنگھ آگے بڑھیں اور حیدرآباد اسٹیج کی دنیا میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کو شائقین تھیٹر سے منوایا۔کوڈی مل چندی مل، لوکو مل تیوانی، سوبھراج واسواتی، ٹاہل رام، سلامت رائے، منشی ادھا رام تھانور داس، لال چند امرڈنو مل جیسے لاتعداد ڈراما نگاروں نےا پنی کاوشوں پر بھرپور داد حاصل کی۔ یہ وہ دور تھا کہ حیدرآباد کے نواحی علاقوں ہی سے نہیں بلکہ دور اُفتادہ علاقوں سے لوگ یہ کھیل دیکھنے کے لیے جوق در جوق آتے۔ جس کی بنا پر بیرون شہر کی ناٹک منڈلیوں نے بھی حیدرآباد کا رُخ کر لیا۔
اسٹیج ڈراموں کی مقبولیت کا گراف بلند سطح پر جا رہا تھا، چنانچہ حیدرآباد کے قصابوں کی تھیٹر کمپنی ڈراما ’’جمیلہ اور رازل‘‘ پیش کرتی تو حیدرآباد کے وکلاء نے اپنی ثقافتی تنظیم حیدرآباد بلیڈرس کلب کے تحت منوہر ناگن ڈراما پیش کر کے دُھوم مچا دی، یوں اسٹیج ڈراموں کا حیدرآباد میں مستقبل تابناک دکھائی دینے لگا۔ اسٹیج ڈراموں کی تعداد، کہانی، کردار نگاری اور باذوق شائقین تھیٹر کو ان ڈراموں کی جانب راغب کرنے کے مقابلے کا رجحان پیدا ہوا، جس نے حیدرآباد اسٹیج ڈراموں میں نئی رُوح پھونکی، اور ان شخصیات کو مدعو کیا جانے لگا جو علم و اَدب، فن و ثقافت کے روشن مینارہ تھے۔ چنانچہ1923ء کے دوران بنگال سے تعلق رکھنے والے شاعر، ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کے نام سے منسوب ایک لٹریری ڈرامیٹک سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کے بانی خان چند دریانی، ہیرانند آڈوانی، لال چند امرڈنومل، جیٹھامل پرس رام اور ڈھوکل مل لالوانی تھے۔
چناں چہ جب ٹیگور حیدرآباد آئے تو ان کے اعزاز میں نہ صرف اس کلب کی جانب سے مکھی باغ میں ضیافت کا اہتمام کیا گیا بلکہ ان کا تحریر کردہ ڈراما چترا کے بعض حصّے گورنمنٹ ہائی اسکول (رسالہ روڈ) کے جیکب ہال میں انہیں دکھائے گئے۔ اس ڈرامے میں چندا کا کردار پروفیسر سنگھا رام اور ٹاہل رام اڈوانی نے ارجن اور چترا کا کردار ادا کیا تھا۔ اس دور کے یادگار ڈراموں میں آئرش شاعر ڈاکٹر کرنس کا ڈراما ’’دی کنکس وائف‘‘ لال چند کا عمر مارئی، لیلا چنیسر، کرشن کی گوپی اورسوویش میںنرمل داس گربخشانی نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ و ہی نرمل ہیں جو بعدازاں گورنمنٹ کالج (حالیہ گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی) کے پرنسپل تعینات ہوئے۔ اسی طرح حبیب اللہ بھاٹی کا ڈراما نئی دنیا، مرزا گل حسن احسن کربلائی کے ڈرامے ’’ ماں کی محبت ‘‘کو خاصی پذیرائی ملی۔
اس زمانے میںشائقین تھیٹر کی دل چسپی کا مرکز سندھ ساہتیہ منڈل ہوم اسٹیڈہال، مٹھا رام ہاسٹل، ناری سیا (لیڈیز کلب)، بسنت ہال، گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول، گورنمنٹ سٹی کالج، مسلم کالج، میراں ہائی اسکول کے علاوہ میجسٹک سینما تھا۔ یہ حیدرآباد کا وہ سینما گھر ہے کہ جہاں گونگی فلموں سے لے کر بولتی رنگین فلموں تک اور اسٹیج ڈراموں میں ہیروئن کا کردار مردوں کو کرتے دیکھا۔ مگر جب حالات تبدیل ہوئے تو اس کے تبدیل ہونے والے مالکان نے اس کے نام کے ساتھ انگریزی لفظ ’’نیو‘‘ کا اضافہ کر دیا۔ حیدرآباد اسٹیج کی زیادہ تر خبریں، مضامین، فن کاروں کے انٹرویوز، منگھا رام مالکانی کی زیرادارت شائع ہونے والےماہ نامہ ’’فلم نیوز‘‘ میںشائع ہوتی تھیں۔
تقسیم ہند کے دوران حیدرآباد میں اسٹیج ڈراموں کی سرگرمیاں معطل رہیں، مگر سیاسی طور پر کہیں کانگریس سے وابستہ نوجوان تو کہیں مسلم لیگ کے نظریئے کا پرچار کرنے کے لیے طالب علم سرگرم رہے جو اسکولوں، سیاسی جلسوں کے دوران مختصر ٹیبلو ڈرامےپیش کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد حیدرآباد اسٹیج کی دَم توڑنے والی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے سنجیدہ اذہان نے کوششیں کیں۔ اور نئے لکھاریوں، ہدایت کاروں، فن کاروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ انہیں حیدرآباد اسٹیج ڈراموں کی جانب راغب کیا جب کہ ان ڈراموں کے انعقاد کے لیے مقامی صنعت کاروں، مخیر و کاروباری افراد کے ذریعے سرمایہ کاری کا رجحان بھی پیدا کیا۔ ان ڈراموں میں ایک نمایاں تبدیلی یہ بھی کی گئی تھی کہ مردوں کے بجائے خواتین کا کردار خواتین ہی ادا کرنے لگی تھیں، چناں چہ حیدرآباد کی جمیلہ ممتاز، مسرت روشنی، شبانہ یاسمین و دیگر مقبول ہیروئن ثابت ہوئیں۔ لیکن اسٹیج ڈراموں کے لیے یہ محض مختصر خوش کن لمحات ثابت ہوئے۔
حیدرآباد کے سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کی جگہ جب رنگین فلموں نے لی تو اسٹیج ڈرامے شائقین کی توجہ سے محروم ہوتے گئے۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے افتتاح اور اس کے ریڈیائی ڈراموں نے یہ کسر پوری کر دی، جس کی بنا پر حیدرآباد اسٹیج سے وابستہ فن کاروں نے ریڈیو اور فلموں کا رُخ کر لیا۔ سینما گھروں میں فلموں کی مقبولیت اور حاصل ہونے والی آمدنی کی چکاچوند کے سبب مزید سینما گھر قائم ہوئے، چناں چہ اسٹیج ڈراموں و ثقافتی و اَدبی پروگرام کو دوام بخشنے کے لیے 1958ء کے دوران تعینات ہونے والے کمشنر حیدرآباد، نیاز احمد نے حیدرآباد کی ثقافتی و اَدبی تنظیم ارژنگ کی درخواست پر کوئنز پارک (جسے داس گارڈن ، گلستان بلدیہ اور رانی باغ بھی کہا جاتا ہے) کے مقام پر 1960ء کے دوران اوپن ایئر تھیٹر تعمیر کرایا اور کے افتتاح کے موقع پر منظور نقوی کا اسٹیج ڈراما’’ ڈائن ‘‘ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے براہ راست پہلی بار اوپن ایئر تھیٹر سےبراڈ کاسٹ کیا۔
حیدرآباد کو فن و ثقافت اور سندھ کی قدیم تہذیب و تمدن کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ اس شہر نے جہاں لاتعداد فن کار و اداکار، گلوکار، دیئے۔ وہاں ثقافتی تنظیموں کی بھی بھرمار رہی۔
حیدرآباد کے سینما گھروں میں ہر جمعہ کو نئی فلم نمائش کے لیے پیش کی جاتی تھی، تو کسی ہال، وسیع و عریض میدان میں قناتیں لگا کر اسٹیج ڈرامے بھی پوری شان سے پیش کیے جاتے تھے۔ سینما گھروں کے مالکان اور حیدرآباد اسٹیج سے وابستہ افراد کے مابین ایک نادیدہ مقابلے کا رجحان دن بہ دن فروغ پانے لگا تو حیدرآباد میں محکمہ تعلیم کے فنڈز سے 1964ء کے دوران لطیف آباد یونٹ نمبر7 اور معروف آٹو بھان روڈ کی سنگم پر مہران آرٹس کونسل کے نام سے ایک وسیع و عریض اور پرشکوہ عمارت تعمیر ہوئی۔
جس میں ایک آڈیٹوریم بھی شامل کیا گیا، اس آڈیٹوریم میں ابتدائی طور پر 500 افراد کی بہ یک وقت بیٹھنے کی گنجائش تھی اور اس مقصد کے لیے آہنی پائپس میں پلاسٹک کی کرسیاں لگائی گئیں تا کہ کسی بھی ہنگامہ آرائی کے دوران ان کرسیوں کا استعمال نہ ہو سکے۔ ہال کی چھت پر فارسیلنگ کے کام کو غیرضروری تصور کیا۔ برقی پنکھوں کی جگہ ہال کے چاروں سمت بالائی سطح پر کھڑکیوں سے کام لیا گیا۔ اسٹیج پر معمولی پردے لگائے گئے۔ روشنی کا انتظام بھی معقول نہیں تھا۔ میک اَپ روم بھی بنیادی سہولتوں سے محروم تھا۔ بیت الخلاء تو تھے مگر ان میں نصب پانی کی ٹونٹیاں نکال دی گئیں تا کہ ان کا استعمال نہ ہوسکے اورمقررہ عملے کو صفائی کی زحمت اُٹھانی نہ پڑے۔ ڈرامے کی ریہرسیل کے لیے مخصوص کمرہ فن کاروں کو دینے کے بجائے انہیں ان کمروں سے دُور رکھا گیا۔
عملے کی بھرمار کے باوجود سامان کی چوریاں عام تھیں۔ بجلی موجود تھی مگر اس کے سارے کنکشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔ جس کی بنا پر اسٹیج ڈراموں کےا ٓرگنائزر و پروڈیوسرز کو ڈرامے کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے نجی طور پر کرائے پر جنریٹر لگوانا پڑتا رہا۔ جس کا شور شائقین تھیٹر کے علاوہ فن کاروں کے لیے بھی ذہنی اذیت کا باعث تھا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اس عمارت کااب تک افتتاح نہیں ہوا۔ ان نامساعد حالات کے باوجود مہران آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں پاکستان نارکوٹکس کنٹرول آرگنائزیشن حیدرآباد کے زیراہتمام اسلحہ اور اس کی تباہ کاریوں کے خلاف پہلا اسٹیج ڈراما ’’سنّاٹا‘‘ راقم الحروف نے پیش کیا۔
اس زمانے میں ملک میں ہیروئن کی فروخت اور اسلحہ کی بہتات ہوگئی تھیجس کی وجہ سے سندھ کو بدامنی کا سامنا تھا۔ حیدرآباد کی ثقافتی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے ہر سطح پر ازسرنو اقدامات کیے، جس کے سبب مہران آرٹس کونسل میں وقتاً فوقتاً اسٹیج ڈرامے، ورائٹی پروگرام، کتابوں کی رُونمائی، مشاعرے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کے اعزاز میں رنگا رنگ شامیں اور تقریب پذیرائی کا انعقاد کیا جانے لگا،لیکن مہران آرٹس کونسل کا ادھورا کام ادھورا ہی رہا۔ادھورے کاموں اور سہولتوں کے فقدان کے باعث آرگنائزر اور پروڈیوسرز کو شدید مالی خسارہ اُٹھانا پڑتا رہا، مگر متعلقہ محکمے اور انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی حتیٰ کہ اپنی انکھیں مسائل سے ہٹا کر بند رکھیں ۔
اس ہال میں لائوڈ اسپیکر نصب نہ ہونے کے سبب تنظیموں کو اپنے تئیں لائوڈ اسپیکروں کی فراہمی کو یقینی بنانا پڑتا رہا ہے مگر ان اسپیکروں سے آواز ہال میں اس طرح گونجتی کہ شائقین ڈرامے کے مکالمے سمجھ میں نہیں پاتے تھے۔ مہران آرٹس کونسل میں بنیادی سہولتوں کا فقدان، ہال کے کرائے میں من مانے اضافے اور متعلقہ انتظامیہ کے نامناسب رویئے کے خلاف حیدرآباد کی اَدبی و ثقافتی تنظیموں سے وابستہ فن کاروں، مصنف و ہدایت کاروں، آرگنائزر، ہنرمندوں، پروڈیوسرز، شاعروں، ادیبوں نے کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور محکمہ ثقافت سندھ کے خلاف پریس کلب حیدرآباد کے سامنے احتجاجی بھوک ہڑتال کی جو مسلسل 22 روز تک جاری رہی۔
اس دوران دیگر سماجی، سیاسی، علمی تنظیموں نے اس بھوک ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا۔ چناں چہ مہران آرٹس کونسل کی انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے، ابتدائی طور پر ڈراموں، ورائٹی پروگراموں یا دیگر تقریبات کے دوران ٹھنڈے پانی کا کولر رکھا گیا، وہ کولر بعدازاں مشروبات کو ٹھنڈا رکھ کر فروخت کرنے والے کے استعمال میں آ گیا۔ معمولی فنڈز سے تزئین و آرائش، تعمیر و مرمت کا کام کرا کے مجموعی کاموں کا سرکار کو خطیر رقم کے بلز پیش کر کے منظور کرائے گئے۔
ان کاموں کے معیار کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ محض چند ماہ کے دوران ہی دیواروں پر دراڑیں پڑ گئیں، فرش ٹوٹ پھوٹ گیا، اسٹیج کے پردے میں آگ لگا دی گئی، حتیٰ کہ متعلقہ افسران و عملے نے ہمیشہ مہران آرٹس کونسل کومحض تنخواہوں کی وصولی اور دوستوں کی ’’محفلیں‘‘ سجانے کا ادارہ سمجھا۔ہال کی بکنگ کی رسیدوں کو جاری کرنے سے پہلے ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا، یا اگر جاری کرنا ناگزیر ہوتا تو رسید کے نیچے اُلٹا کاربن استعمال کیا جاتاتھا۔ بعدازاں دفتری کاپی پر معمولی فیس لکھ لی جاتی تھی۔
سورج غروب ہوتے ہی برقی روشنی کے فقدان کے سبب ایک آسیب زدہ عمارت دکھائی دیتی ہے۔
ایک جانب کونسل کی انتظامیہ کی لوٹ کھسوٹ جاری رہی تو دوسری جانب فلموں میں سنسرشپ کے قانون کی سختی اور سینما گھروں کی جگہ پیٹرول پمپس، رہائشی و کمرشل پلازہ، کاروباری مراکز و مارکیٹیں بنانے کی وجہ سے مہران آرٹس کونسل سمیت اوپن ایئر تھیٹر، دیال داس کلب، و دیگر آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والے ڈراموں اور ورائٹی پروگراموں میں لاہور، ملتان، پشاور، کراچی و دیگر شہروں کے فن کاروں کو بہ طور خاص شامل کیا جانے لگا۔ فلم بینوں کی ایک کثیر تعداد نے سینمائوں کی بندش اور انہدام کے سبب نا صرف ان ڈراموں اور ورائٹی پروگراموں کا رخ کیا بلکہ بلیک اینڈ وائٹ فلموں کی رنگینی ڈراموں اور ورائٹی پروگرام میں تلاش کرنے لگے۔
اس نئی سوچ اور اس ذہنیت کے حامل لوگوں کی راہ میں سینئر فن کار رکاوٹ ثابت ہوئے، مگر ان کے اعصاب اس یلغار کے سامنے کمزور ہوگئے اور خود کو اپنے گھروں تک محدود تو کرلیا، مگر فن و ثقافت کے اس وقار کو قائم نہ رکھ سکے جس کے نتیجے میں حیدرآباد اسٹیج سے ایسے افراد پروڈیوسرز، آرگنائزر کا رُوپ دھار کر وابستہ ہوگئے کہ اسٹیج پر تمام رنگینی دکھا کر منافع حاصل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ محکمہ ثقافت سندھ کی زیرنگرانی قائم مہران آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں انڈین گانوں پر فحش رقص اور ذومعنی مکالمے پیش کیے جانے لگے، جس پر سنجیدہ حلقوں نے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور اپنی خواتین کو ان ڈراموں اور ورائٹی پروگراموں سے دُور کردیا۔ تماشائیوں کے مابین جھگڑے بھی معمول بن گئے۔
حیدرآباد اسٹیج کے فن کاروں، آرگنائزروں، قلم کاروں اور ہنرمندوں کی نمائندہ تنظیم نیو حیدرآباد اسٹیج کونسل کے چیئرمین خالد عمران مہران آرٹس کونسل کی مجموعی کارکردگی اور اسٹیج ڈراموں کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’حیدرآباد کو فن و ثقافت اور سندھ کی قدیم تہذیب و تمدن کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ اس شہر نے اداکار محمد علی، مصطفےٰ قریشی، ابو بلاول، چکوری، ماہ پارہ، مشتاق چنگیزی، فرید نواز بلوچ، زرینہ بلوچ، الن فقیر، عابدہ پروین، حمیرا چنا، شبیر گرامی، لالہ معین فیروز، ستار پرویز، راجہ سعید، جگدیش کمار ملانی، نجمہ کاوش، سدرہ شیخ، سحرش ممتاز، جمیلہ ممتاز سمیت لاتعداد فن کار و اداکار، گلوکار، دیئے۔
وہاں ثقافتی تنظیموں کی بھی بھرمار رہی۔ اس لیے حیدرآباد کو تھیٹر اور ڈرامیٹک تنظیموں کی منڈی بھی کہا جاتا ہے۔ اس منڈی میں اسی فن کار کی اہمیت رہی جو کردار نگاری میں منفرد ہو، لیکن المیہ یہ ہے کہ ماضی میں ان فن کاروں کو ان کی محنت کا معاوضہ نہیں ملتا تھا، جو اب بھی نہیں ملتا۔
اس کے باوجود فن کار اپنے کردار کے عین مطابق خود ہی لباس تیار کرتے اور خود ہی میک اپ کرتے ہیں۔ حیدرآباد میں اسٹیج سے 3 سو سے زائد افراد وابستہ ہیں۔ جن میں 175 ورائٹی پروگرام کے رقاص، 100 سے زائد اسٹیج کے اداکار، 15 آرگنائزرز و دیگر شعبوں کے افراد شامل ہیں۔ حیدرآباد میں اسٹیج پر کہانی کے مطابق سیٹ بالم راہی مرحوم لگاتے رہے۔ مگر اب یہ کام لطیف ملتانی انجام دے رہے ہیں۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو مہران آرٹس کونسل کی حالت کبھی بہتر نہیں رہی مگر ثقافتی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے اس آڈیٹوریم کا استعمال مجبوری ہے۔
آڈیٹوریم سے ملحقہ مصوری کے فن پاروں کی نمائش کے لیے گیلری ہے جس میں داخلے کے لیے مغرب اور مشرق کی سمت دو دروازے ہیں۔ اس گیلری میں شاذ و نادر ہی فن پاروں کی نمائش ہوتی ہے۔
اس کا کرایہ جو ماضی میں معمولی تھا، اب 15 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 2 ہزار روپے جنریٹر کے ڈیزل اور ایک ہزار روپے صفائی کی مد میں تنظیموں سے وصول کیے جاتے ہیں۔ جس کی بنا پر ڈرامے اور ورائٹی پروگرام کی مجموعی لاگت بڑھ گئی ہے۔ جو آرگنائزرز کی دسترس سے دُور ہے۔ اس لیے اب ڈراموں کے انعقاد کے لیے بارہا مرتبہ سوچا جاتا ہے۔ عیدین کے موقع پر مہران آرٹس کونسل کی انتظامیہ ہال کی بولی لگاتی ہے جو انہیں زیادہ سے زیادہ کرایہ ادا کرنے پر رضامند ہو جاتا ہے وہ کرائے کی بولی میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے اور انتظامیہ کی جانب سے اسے این او سی جاری کر دی جاتی ہے۔ اس کی بنیاد پر مقامی پولیس انتظامیہ اور متعلقہ محکموں سے اجازت نامہ دیا جاتا ہے جسے حاصل کرنا انتہائی مشکل اور دقت طلب مرحلہ ہے۔
ریہرسل روم کے دروازے فن کاروں کے لیے بند ہیں جب کہ میک اپ روم میں فن کاروں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں تک نہیں ہیں اور نہ کوئی شیشہ۔ واش روم تو ہے مگر برسوں سے صفائی نہ ہونے کے سبب میک اپ روم سمیت اسٹیج پر تعفن اور ناگوار بو پھیلی رہتی ہے۔ جب کہ شائقین کے لیے بنوائے گئے بیت الخلاء کے دروازوں کی کنڈیاں اورنلکوں سے پانی غائب رہتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض میں تو دروازے بھی ہٹا دیئے گئے ہیں۔
دراصل مہران آرٹس کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد تو یہی تھا کہ حیدرآباد سمیت سندھ کی اَدبی و ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ فن مصوری اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو فروغ دینا ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ ثقافت سندھ سے غریب و مستحق فن کاروں کی مالی اعانت اور وظائف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں معاونت کرنا کونسل کی اہم ترین ذمے داری ہے لیکن گزشتہ 20سال سے صرف ان فن کاروں، ہنرمندوں، شاعروں اور ادیبوں کو وظائف دیئے جا رہے ہیں جنہیں فن کے حوالے سے کوئی نہیں جانتا۔
کونسل نے اپنے قیام سے اب تک ایک مرتبہ حیدرآباد ڈویژن کا بلیک اینڈ وہائٹ نقشہ اور چند سندھی کتابیں شائع کی ہیں۔ فن کاروں کے ذہنوں میں یہ سوال ہمیشہ گردش کرتا رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے مہران آرٹس کونسل کو فنڈز ملنے کے باوجود اسے خرچ کہاں کیا جاتا ہے؟ اور کن لوگوں کو کونسل وظائف دلانے میں کوشاں رہتی ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ ثقافت اور آرٹس کونسل ایک مخصوص طبقے کو نوازنے کے بجائے بلاتفریق رنگ و نسل صلاحیتوں کی بنیاد پر غریب و مستحق افراد کو وظائف دے۔ اور تھیٹر کی بقا اور عمارت کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں اور ثقافتی تنظیموں کو وہ مراعات و سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی جو ان کا جائز اور بنیادی حق ہے۔
عمارت کی حالت کبھی بہتر نہیں رہی مگر ثقافتی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے آڈیٹوریم کا استعمال مجبوری ہے۔
مہران آرٹس کونسل کی عمارت دن کی روشنی میں بھی ایک خوفناک نظر آتی ہے جب کہ سورج غروب ہوتے ہی برقی روشنی کے فقدان کے سبب ایک آسیب زدہ عمارت دکھائی دیتی ہے۔ اس کونسل کی عمارت کا داخلی دروازہ لوہے کا بنا ہوا ہے۔ جب کہ آڈیٹوریم میں داخلے کے لیے شمال کی جانب مرکزی اور جنوب کی سمت چھوٹا داخلی دروازہ ہے۔ اس آڈیٹوریم میں معقول تعدادمیں شائقین تھیٹر کے بیٹھنے کے لیے آرام دہ کرسیاں نصب کرائی گئیں، مگر وہ آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہیں۔
آڈیٹوریم سے ملحقہ مصوری کے فن پاروں کی نمائش کے لیے گیلری ہے جس میں داخلے کے لیے مغرب اور مشرق کی سمت دو دروازے ہیں۔ اس گیلری میں شاذ و نادر ہی فن پاروں کی نمائش ہوتی ہے۔ مگر جب بھی ہوئی،اسکول کے طلبا ہی کی بنائی ہوئی پینٹنگز نمائش میں رکھ دی جاتی ہے۔ لیکن کبھی کونسل نے کسی نامور مصور، سنگ تراش یا فن پارے تخلیق کرنے والی شخصیات کو مدعو نہیں کیا۔
کونسل کے آڈیٹوریم میں مقامی، صوبائی اور پاکستان کے معروف شاعروں پر مشتمل مشاعرے منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان مشاعروں کو حیدرآباد کی اَدبی تنظیمیں اپنے ذاتی اخراجات سےمنعقد کرتی ہیںاور کونسل کی انتظامیہ اس ضمن میں تعاون کو اپنے دائرہ کار سے علیحدہ تصور کرتی ہے۔ مشاعروں کے دوران رات گئے تک آڈیٹوریم واہ، واہ، کیا کہنے ہیں، مکرر، مکرر ارشاد، کیا خوب صورت مصرعہ ہے جیسے جملوں سے گونجتا رہتا ہے۔
اس آڈیٹوریم میں گزشتہ ماہ اَدبی تنظیم شمس اَدب و آگہی حیدرآباد کی جانب سے کل پاکستان مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ یہ مشاعرہ اس حوالے سے بھی ہمیشہ حیدرآباد کی اَدبی تاریخ میں اس لیے سنہری حروف میں لکھا جائے گا کہ شائقین مشاعرہ کو ان کی نشستوں پر ہی اجرکوں کا تحفہ دیا گیا۔ یہ روایت حیدرآباد میں پہلی بار دکھائی دی، جس کا سہرا سابق تحصیل میونسپل آفیسر، شاعر اور تنظیم کے بانی عبدالمجید امبر راجپوت کے سر جاتا ہے۔
حیدرآباد کی ٹھنڈی اور سُرمئی شامیں پوری دُنیا میں معروف ہیں۔ گرمی کے موسم میں دن بھر سورج کی تمازت کے بعد شام ہوتے ہی لوگ سرسبز علاقوں یا پارکوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ مہران آرٹس کونسل کی عمارت کے وسط میں ایک چھوٹا باغیچہ بنوایا گیا تھا تا کہ حیدرآباد کی ٹھنڈی ہوائوں سے یہاں آنے والے لُطف اندوز ہو سکیں۔ مگر کونسل میں مالی ہونے کے باوجود یہ باغیچہ اُجڑ گیا ہے۔ اس باغیچے میں لگے نیم، جامن اور پیپل کے گھنے سایہ دار درختوں کو کونسل کے احاطے میں وقتاً فوقتاً ہونے والی تعمیرات کے دوران کاٹ دیئے گئے۔ آڈیٹوریم کی بالائی منزل پر 5 کمرے اور ایک واش روم ہے۔
یوں تو اس کے تمام ہی کمرے خالی ہیں، سوائے ایک کمرے کے جس میں قیمتی قالین بچھاہوا ہے اور ایک بیڈ جس پر دبیز گدا، کھڑکیوں پر مہنگے پردے، سنگھاردان پر مہنگے ترین پرفیوم کی شیشیاں، بنائو سنگھار کا وہ سامان جو خواتین شادی بیاہ و دیگر تقریبات میں شرکت کے لیے استعمال کرتی ہیں موجود ہے۔ اس کمرے میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اسی ایک کمرے میں جنوری 2018ء کے دوران ایک میوزک اکیڈمی محکمہ ثقافت، سیاحت، آثار قدیمہ اور انڈومنٹ ٹرسٹ برائے بحالی آثار سندھ کے مابین ایک مفاہمت کی یادداشت پر دست خط کے تحت قائم ہوئی جب کہ دوسری خیرپور میں سچل اکیڈمی قائم ہو چکی تھی۔
اس مفاہمت کی یادداشت پر سیکرٹری ثقافت و سیاحت و آثار قدیمہ عبدالکریم سولنگی، سیکرٹری انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ عبدالحمید اخوند نے دستخط کئے تھے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ کی معاون خصوصی شرمیلا فاروقی اور ڈائریکٹر جنرل منظور قناسرو بھی موجود تھے۔ حیدرآباد میں مہران میوزک اکیڈمی کے لیے معروف کلاسیکل گائیک اُستاد فتح علی خان کی بھاری معاوضے پر خدمات حاصل کی گئیں۔ اکیڈمی میں موسیقی، گائیکی کے رموز سکھانے کے لیے انہوں نے اپنے ہی گوالیار خاندان کے اساتذہ اور موسیقاروں کو بھرتی کرایا۔ متعلقہ اساتذہ نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے جب کہ طلبا کے داخلے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں میوزک اکیڈمی بری طرح ناکام ہوگئی اور محکمہ ثقافت سندھ کو یہ میوزک اکیڈمی ختم کرنا پڑی۔
فنڈز کی کھپت تو کونسل میں عام روایت بن گئی ہے، حال ہی میں مہران آرٹس کونسل کے احاطے میں ایک اوپن ایئر تھیٹر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس اوپن ایئر تھیٹر میں 4 سو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ حیدرآباد کی ثقافتی تنظیموں نے اس آڈیٹوریم کے کاموں کو غیرمعیاری اور غیرتسلی بخش قرار دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مہران آرٹس کونسل کے فنڈز، اخراجات اور غیرمعیاری تعمیرات کی تحقیقات کرائی جائے کیوں کہ مہران آرٹس کونسل کی انتظامیہ نے اپنی ’’عمدہ کارکردگی‘‘ کے اظہار کے لیے ’’ادراک‘‘ نامی تنظیم کو آڈیٹوریم کا احاطہ دیا ہے۔
اس کے لیے محکمہ ثقافت سندھ کو نہ تو کوئی تحریری درخواست نہ دی گئی اور نہ ہی ان کو این او سی جاری کی گئی ہے۔ اس تنظیم کے رُوح رواں کا شاید نظریہ یہ ہو کہ کونسل کا خالی کمرہ حاصل کیا جائے اور چوں کہ ان کی رہائش گاہ بھی کونسل کی عمارت سے نزدیک 2 منٹ کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔
ان کے لیے یہ کمرہ اَدبی تنظیم سے زیادہ ذاتی مقاصد کے لیے استعمال ہو۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ کونسل کی شاعروں، ادیبوں، صحافیوں، فن کاروں پر مشتمل ایک نگراں کمیٹی بنائی جائے تاکہ شہریوں کو معیاری تفریح کے آڈیٹوریم اور اسٹیج ڈراموں، ورائٹی و اَدبی و ثقافتی پروگراموں کو فروغ ملے بہ صورت دیگر مہران آرٹس کونسل کی یہ عمارت ویران رہے گی۔