جو ممالک اپنی قومی ائیرلائن کے ذریعے اپنے شہریوں کو سفری سہولتیں فراہم کررہے ہیں وہاں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہےکہ معیاری اور سستی سفری سہولتیں فراہم ہوں ،اگر کبھی کچھ مسائل کی وجہ سے ایئرلائن پر بحران آبھی جائے تو ریاست معاشی وسائل فراہم کرکے بحران سے نکلنے میں مدد فراہم کرتی ہے جبکہ ایئرلائن کو بند کرنا اور آپریشن کو محدود کرنا آخری آپشن ہوسکتا ہے ۔لیکن پاکستان کی قومی ائیر لائن کے کرتا دھرتا تھوڑے سے بحران کے بعدائیر لائن آپریشن بند کرنے کو ہی مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں پی آئی اے نے جس طرح امریکہ میں قومی اثاثہ’’ روزویلٹ ہوٹل ‘‘بند کیا ہے ، جس طرح جاپان کے لیے ایئرلائن آپریشن بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ایسے فیصلے دنیا بھر میں مقیم اسی لاکھ پاکستانیوں میں انتہائی مایوسی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ چند سال قبل قومی ایئرلائن کی جاپان کے لیے پروازیں ادارے کے لیے شاید مالی نقصان کا سبب بن رہی تھیں، کیونکہ قومی ایئرلائن کی جانب سے جاپان کے لیے جو طیارے استعمال ہورہے تھے وہ انتہائی ناقص تھے،انھیں غیر معیاری کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا ،خاص طور پر جب مسافروں کے پاس دنیا کے بہترین ائیرلائنوں کے آپشن موجود ہوں۔
جاپان سے پاکستان کا سفر بھی بارہ گھنٹوں پر محیط ہو ، مسافر لاکھوں روپے کا ٹکٹ بھی خرید رہے ہوں تواُن مسافروں کی خواہش ہوتی ہے کہ سفر آرام دہ اور سہولتوں سے آراستہ ہو،جبکہ قومی ایئرلائن کے طیاروں میں بارہ گھنٹے گزارنے کے لیے نہ تو سیٹوں میں ٹی وی نصب تھے اور نہ ہی کوئی موسیقی سننے کے آلات موجود تھے ، سیٹیں بھی دوسری ایئر لائنوں کے مقابلے میں غیر معیاری تھیں ،ایسے میں مسافروں کی تعداد بھی کم ہوتی جارہی تھی، جبکہ جاپانی حکومت نے بھی چین جانے والے مسافروں کی تعداد کو صرف ایک ہزار مسافر ایک ماہ تک محدود کررکھا تھا، جس کے باعث ایک تو پاکستانی مسافروں کی کم تعداد پھر چینی مسافروں پر بھی کوٹے کی پابند ی کردی، جس کے سبب قومی ایئر لائن کو مالی خسارے کا سامنا تھا۔
تاہم سفارتی سطح پر کوششوں کے بعد جہاں ایک جانب جاپانی حکومت نے چینی مسافروں پر تعداد کی پابندی کا خاتمہ کردیا تو دوسری جانب جہازوں کے معیار میں بہتری کے بعد گزشتہ ایک سال سے قومی ایئرلائن میں سیٹیں ملنا بھی محال ہوگیا تھا یعنی قومی ایئر لائن جاپان کے لیے منافع بخش ہوچکی تھی لیکن پھر پوری دنیا میں کورونا کی وباء پھیلنا شروع ہوئی اور عالمی کساد باری کا دور شروع ہوگیا ،ایسے میںسب سے زیادہ مالی نقصان ٹریول انڈسٹری کو اٹھانا پڑا ،جاپان کے لیے پی آئی اے کی پروازیں پہلے ہی حکومت اور انتظامیہ چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی لہذا کورونا کابہانہ حکومت کے ہاتھ آگیا اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ قومی ایئر لائن کو جاپان کے لیے مکمل طور پر بند کیا جارہا ہے۔پی آئی اے ہیڈ آفس کراچی سے پی آئی اے ٹوکیو دفتر کو پیغام مل چکا ہے کہ فوری طور پر اپنے دفاتر بند کردیں، ملازمین فارغ کریں اور اگلی بکنگ نہ لیں۔
یہ خبر جاپان میں مقیم پندرہ ہزار سے زائد پاکستانی کمیونٹی پر کسی پہاڑ گرنےسے کم نہیں ہے، کیونکہ جیسے جیسے پاکستانی کمیونٹی کی جاپان میں تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے قومی ایئرلائن کی ضرورت یہاں کے لیے بڑھتی جارہی ہیں۔جاپان کے لیے قومی ایئر لائن کی بندش کی خبرآنے کے ساتھ ہی لوگ پریشان ہوگئے ہیں اور کمیونٹی کی سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
اس حوالے سے پاک جاپان بزنس کونسل کے صدر رانا عابد حسین، پاک جاپان گروپ اور پاک جاپان فائونڈیشن کے سربراہ چوہدری آصف محمود نے جاپان کے لیے قومی ایئرلائن کی بندش کے حکومتی فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ بھی دائر کردی ہے، تاکہ اس فیصلے کو عدالت کے ذریعے رکوایا جاسکے ،اس حوالے سے رانا عابد حسین اور چوہدری آصف محمود نےنمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، جاپان میں پندرہ ہزار سے زائد پاکستانی مقیم ہیں ان کا پاکستان سے رشتہ اور رابطے کا اہم ذریعہ سفارتخانہ پاکستان اور قومی ایئرلائن ہی سمجھی جاتی ہے ،جبکہ جاپان کے لیے روٹ کا حصول بھی کافی مشکل کام ہے۔
پہلے بھی پاکستان نے جاپان کے لیے فلپائن اور تھائی لینڈ کاروٹ بند کیا تھا ، آج پندرہ سال بعد بھی پاکستان کو وہ روٹ تاحال نہیں مل سکے ہیں اور یہ آخری روٹ جو بیجنگ سے ٹوکیو تک کا ہے اسے بھی اگر بند کردیا گیا تو دوبارہ اس روٹ کا حصول قومی ایئر لائن کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔ دوسری جانب ہمارے اُوورسیز پاکستانی جو ملکی معیشت میں اپنے خون پسینے کی کمائی بھیج کر معیشت کو چلاتے ہیں، ان کی فوتگی کی صورت میں قومی ایئرلائن ہی انھیں اپنی زمین میں تدفین کے لیے لے کر جاتی ہے ،لہذا حکومت کو اس حوالے سے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔چوہدری آصف محمود نے کہا کہ یہ بات صیحح ہے کہ، کورونا کی وباء نے پوری دنیا کی ایوی ایشن انڈسٹری کو نقصان پہنچایا ہے۔ بڑی بڑی ایئرلائنیں بھی بینک کرپٹ ہوئی ہیں۔
تاہم پی آئی اے کو کورونا سے بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچا ہے ،جس کی اہم وجہ قومی ایئرلائن کا فلیگ بہت چھوٹا ہے اور آپریشن بھی محدود ہیں، جبکہ صحیح منصوبہ بندی سے کام لیا جائے تو پور ے پورے روٹ بند کرنے کے بجائے ایئرلائن کے آپریشن بحال رکھے جاسکتے ہیں ۔ چوہدری آصف محمود نے مزیدکہا کہ اس وقت سفیر پاکستان امتیاز احمد سمیت حکومت کی اعلیٰ ترین شخصیات سے ہم نے درخواست کی ہے کہ، جاپان کے لیے فلائیٹس بند کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے جبکہ ہائی کورٹ میں حکومتی فیصلے کے خلاف درخواست بھی دائر کردی گئی ہے، تاکہ حکومتی فیصلے کو رکوایا جاسکے ۔
چوہدری آصف محمودکا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت جاپان میں پندرہ ہزار پاکستانی شدید کرب کا شکار ہیں۔ حکومت مخالف مظاہرے ہوہے ہیں، وزیر اعظم عمران خان اور زلفی بخاری کو ذاتی طور پر اس مسئلے کو دیکھنا چاہیے ۔ فیصلہ حکومت کے ہاتھ میں ہے کہ عوام کوسہولت فراہم کرنا ہےیا عوام مخالف فیصلے پر قائم رہتے ہوئے اپنی مقبولیت کے گراف کو مزید کم کرنا ہے ۔توقع ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اُوورسیز پاکستانیوں میں اپنی اور اپنی پارٹی کی مقبولیت کم کرنے والے فیصلوں سے اجتناب کرتے ہوئے عوام کی حق میں ایسے فیصلے کریں گے جو عوامی مفاد میں بھی ہوں اور ان کی مقبولیت میں اضافے کا بھی سبب بن سکیں ۔