• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یسریٰ اصمعی

عورت ہر روپ میں منفرد، ہر کردار میں خوبصورت ۔۔!! کہیں محبتوں میں گندھی ہوئی تو کہیں قربانیوں کا پیکر،کہیں بہترین غمگسار تو کہیں خلوص و الفت کی جیتی جاگتی تصویر۔۔!! دنیا بھر کی شاعری و ادب میں عورت کی عزت و تکریم، عظمت و وفا ، خلوص و قربانی کو بطور استعارہ پیش کیا جاتا ہے، معاشرے کی تعمیر میں عورت کے کردار پرکانفرنسوں کا انعقاد ہوتا ہے، ان کی اہمیت و عظمت کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، مضامین لکھے جاتے ہیں، ٹیلی وژن پر خصوصی نشریات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی نجانے کیوں ہر روز صبح ٹی وی میں اور اخبارمیں حوا کی اِسی بیٹی کی بے توقیری کی کوئی نہ کوئی دل دہلانے والی داستان آنکھوں کو نم اور روح کو جھنجھوڑ ڈالتی ہے۔ 

کبھی کسی ننھی سی کلی کوکو ئی ظالم مسل کر پھینک دیتا ہے، کبھی کہیں شہریوں کی جان و مال کے محافظ ہی قوم کی کسی عفت مآب بیٹی کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں، تو کبھی کہیں کسی ناکردہ جرم کے بدلے میں کوئی ہنستی مسکراتی پیاری سی لڑکی جاہلانہ رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے، کبھی کسی باپ بھائی کی غیرت اچانک جاگتی ہے اور وہ بلا تحقیق ، محض شک کی بنیاد پر اس نازک آبگینے کو منٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ، کبھی کوئی ’’مجازی خدا‘‘ اپنی زندگی بھر کی ساتھی کو روئی کی مانند دھنک کر رکھ دیتا ہے۔

یہ تو وہ سب ہےجو ہر روز اخبارات اور ٹی وی کی بدولت ہمارے سامنے آجاتا ہے۔اس’’ بہت کچھ‘‘ کا تو کوئی حساب کتا ب ہی نہیں جو رپورٹر کے قلم اور کیمرے کی آنکھ سے اوجھل رہ جاتا ہے یا جسے جان بوجھ کر زمانے کے خوف سے اور اپنی بے شعوری کی بنیاد پر چھپا لیا جاتا ہے۔بس اسٹاپس،پبلک ٹرانسپورٹ، بازاروں ،پارکوں، ہوٹلز، دفاتر میں اکثر و بیشتر خواتین کو جن رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا احوال تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

مقام افسوس یہ ہے کہ جیسے جیسے دنیا ترقی کر رہی ہے، ویسے ویسے حقوق نسواں اور مساوات کے نعرے عام ہو رہے ہیں،بظاہر باشعور لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، تعلیم کی شرح بھی ماضی کی نسبت بلند ہو رہی ہے، لیکن پھر بھی خواتین کی تعظیم اور ان سے بد سلوکی کے حوالے سے اکثر رویے جوں کے توں ہیں۔

اس وقت اصل سوال یہ ہے کہ خواتین کے لئے معاشرے میں بہتر سلوک اور باعزت گنجائش پیدا کرنے کی تمام کوششیں آخر اس تیزی سے بارآور ثابت کیوں نہیں ہو رہیں، جس کی توقع کی جارہی تھی؟ کیا وجہ ہے کہ خواتین کے حوالے سے مجموعی معاشرتی رویے تبدیل ہوتے نظر نہیں آرہے؟ کیوں آج بھی ایک مرد کے لئے کسی عورت سے اونچی آواز میں بات کرنا یا اس پر ہاتھ اُٹھا لینا دنیا کا سب سے آسان کام ہے؟ کیسے کچھ مرد اس مہذب دنیا میں بھی کھڑے کھڑے برسوں کی خدمت گزار بیوی کے پیروں تلے زمین کھینچ لینے میں لمحہ نہیں لگاتے؟ کیوں آج بھی بلا تحقیق کسی عورت کے کردار پر انگلی اٹھاتے لوگوں کے دل نہیں کانپتے؟ کیا وجہ ہے کہ اب بھی حوا کی بیٹی ثنا خوان ِتقدیسِ ِمشرق کے سامنے سوالی بنی کھڑی ہے۔

اگر غور کریں تومحسوس ہوتا ہے کہ ہمارے رویوں کی اصلاح، افکار و خیالات کی تعمیر اور شخصیت سازی کی ابتدا گھروں سے ہوتی ہے۔ بچے کو سلام کرنا ، سیدھے ہاتھ سے کھانا کھانا، بیٹھ کر پانی پینا ، اٹھنا بیٹھنا، غرض یہ کہ زندگی گزارنے کے آداب ، دنیا کو برتنے کے بنیادی طور طریقے گھر کی دنیا میں ہی سکھائے جاتے ہیں۔ کس رشتے کو کیا مقام دینا ہے، کس سے کیسا برتائو کرنا ہے، کہاں اونچی آواز بھی قابل معافی ہے اور کہاں نظریں اٹھا کر جواب دینا بھی گستاخی ہے۔ اس سب کی تربیت چاہے لڑکا ہو یا لڑکی اسے بچپن میں ہی ماں کی گود سے ملنا شروع ہو جاتی ہے۔ 

اب اس کو ہماری ستم ظریفی کہیں ، معاشرتی چلن یا کم علمی اور بے شعوری کہ بیٹا اور بیٹی کی تربیت اور معاملات میں اکثر کم تعلیم یافتہ گھرانے تو ایک طرف اچھے اچھے پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی کچھ نہ کچھ امتیازی رویہ شروع سے ہی برتا جاتا ہے اور بیٹوں کو بیٹیوں پر کسی نہ کسی طرح خواہ غیر شعوری طور پر ہی سہی لیکن فوقیت دی جاتی ہے۔

بیٹوں کو عموما چھوٹی عمر سے ہی یہ باور کرایا جاتا ہے کہ تم مرد ہو،مستقبل میں کنبے کی باگ دوڑ تم کو سنبھالنی ہے، تم کوگھرانے کا سربراہ بننا ہے، تمھاری رائے اور حکم حتمی مانے جائیں گے ، ساتھ ہی کہیں نہ کہیں یہ بات بھی کان میں پھونک دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ایک درجہ قوامیت بخشی ہے۔

آدھی بات اور آدھی تصویر کشی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بارہ تیرہ برس کی عمر سے ہی عام طور پرچھوٹے چھوٹے معصوم لڑکے اپنے ’’مرد ‘‘ ہونے کے زعم میں سینہ پھُلا کر گھومنا شروع کر دیتے ہیں۔وقت و عمر کے ساتھ یہ زعم ،تکبر اور مطلق العنانیت کی سی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس کا شکار پہلے پہل بہن اور بعد میں بیوی اور بیٹی بنتی ہیں۔

اکثر گھرانوں میں بیٹیوں سے چیزیں لے کر بھائیوں کوتھما دی جاتی ہیں، بھائی صاحب اگر جلال کی کیفیت میں ہیں تو مائیں زیادہ تر بہنوں کو ہی خاموش رہنے کی تلقین کرتی نظر آتی ہیں، بیٹا اگر بہن پر ہاتھ بھی اٹھا لے تو اس کا ہاتھ پکڑنے کے بجائے بچی کو درگزر کی تلقین کی جاتی ہے، ساتھ ہی یہ نصیحت بھی کردی جاتی ہے کہ تم کو اگلے گھر جانا ہے ابھی سے زبان بند رکھنے کی عادت ہو گی تو سسرال میں گزارہ آسان ہو گا۔یوں اکثر لڑکوں کو شروع سے ہی اپنے ناروا رویے پر شرمندہ ہونے کے بجائے اسےمردانگی کی علامت سمجھنے کی عادت ڈال دی جاتی ہے۔ 

بہت سے مردوں کا یہ بھی معمول ہوتا ہے کہ کام سے واپسی پر دن بھرکی کوفت اور تھکن گھر والوں پر چیخ چلا کر نکالتے ہیں، بچے بچیاں اس چیز کو بھی محسوس کرتے ہیں، اور غیر شعوری طور پر ان میں یہ نظریہ جڑ پکڑ لیتا ہے کہ مرد تو ہوتے ہی غصے کے تیز ہیں، ان کا غصہ اورگرمی برداشت کرنا خواتین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ غرض یہ کہ جب اس قسم کے متضاد معیارات بچے شروع سے گھروں میں دیکھتے ہیں تو عمر کے ساتھ ساتھ یہ رویے ان میں بھی پختہ ہوتے جاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ’’قوامیت‘‘ کا ایک روایتی اور قطعی ادھورا سا تصور ہماری سوسائٹی میں راسخ ہوتا چلا جاتا ہے بلکہ ہو چکا ہے۔

اگر ہم واقعی معاشرے میں خواتین کو ان کا جائز اور باعزت مقام دلانے کے خواہش مند ہیں تو اس کے لئے سب سے پہلے مائوں کو آگاہی دینی ہو گی، اگر ابتدا سے ہی مائیں اپنے بیٹوں کو خواتین کا احترام اور ان کے معاملے میں خدا خوفی اختیار کرنے کا درس دیں، خواتین سے حسن سلوک کے حوالے سے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کریں، بیٹے اور بیٹی میں امتیازی رویہ نہ اپنائیںاور دونوں کے لئے اخلاقیات کا یکساں معیار رکھیں اور بیٹوں کو صرف یہ بتا کر کہ وہ ’’مرد‘‘ ہیں، احساس تفاخر جگانے کے بجائے ،ان کو مردوں کی ذمہ داریوں کے بارے میں بھی بتائیں تو ہی مجموعی معاشرتی رویے میں بہتری کے امکانات ہیں۔اس وقت اشد ضرورت ہے کہ قوامیت کا درست اور جامع تصور عام کیا جائے۔

تازہ ترین