پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں عوامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ، کوئٹہ کے تاریخی ایوب اسٹیڈیم میں پی ڈی ایم کا پاور شو صوبے کی سیاسی تایخ کا ایک بہت بڑا جلسہ تھا۔
جس سے پی ڈی ایم کے سربراہ جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فٖضل الرحمٰن، سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ، مسلم لیگ (ن) کی مرکزی نائب صدرمریم نواز شریف ، پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ کے زیراہتمام کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں منعقدہ پاکستان شہدائے جمہوریت کے عنوان سے منعقدہ جلسہ عام سے پی ڈی ایم کے مرکزی صدر وجمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن ، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوز رداری ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ وسابق وزیراعلیٰ بلوچستان سرداراختر مینگل، نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر وسابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ،عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدرو سابق وزیراعلیٰ خیبر پشتونخوا امیر حیدر خان ہوتی ،سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف،قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپائو ،مرکزی جمعیت اہلحدیث کے مرکزی امیر پروفیسر ڈاکٹرساجد میر،جمعیت علماء پاکستان کے شاہ اویس نورانی نے خطاب کیا۔
گوجرانوالہ اور کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسوں کے بعداس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ کوئٹہ میں بھی ایک بڑا جلسہ ہوگا اور اس بات کی توقع اس بنیاد پر کی جارہی تھی کہ پی ڈی ایم میں شامل قومی جماعتوں کے پاس اگرچہ بہت زیادہ اسٹریٹ پاور نہیں لیکن یہاں جمعیت علما اسلام ،بلوچستان نیشنل پارٹی،پشتونخواملی عوامی پارٹی کے پاس ایک مضبوط اسٹریٹ پاور ہے اور ماضی قریب میں یہ تینوں جماعتیں الگ الگ بھی کوئٹہ میں بڑئے بڑئے جلسے کرتے چلے آئے ہیں،گزشتہ سال یعنی 2دسمبر 2019 کو پشتونخوا میپ کے بانی عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی کی مناسبت سے ایک بڑا جلسہ ہواتھا جس سے مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی نے خطاب کیا تھا۔
ستمبر 2019 میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلی سردار اختر مینگل نے پارٹی رہنما نواب امان اللہ زہری کےچہلم پر ایک بہت بڑا جلسہ کیاتھا 28 جولائی 2019 کو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کوئٹہ میں ملین مارچ کے تحت بڑا جلسہ کیا تھا اور انہوں نے اسی ا سٹیج سے عمران خان کی حکومت کے خلاف اسلام آباد کی جانب آزادی مارچ کا اعلان کیا تھا۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کے جلسہ کو کامیاب بنانے کے لئے ان تین سیاسی جماعتوں کی قیادت کافی زیادہ متحرک نظر آئی تو دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی آئیں کہ جلسہ کے حوالے سے تھریٹس ہیں جس پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے رہنماوں کی جانب سے سخت ردعمل بھی سامنے آیا ۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پی ڈی ایم کے جلسے کے حوالے سے کوئی تھر یٹس نہیں اگر تھر یٹس ہیں تو سیکورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہےہم کوئٹہ میں ضرورجلسہ کر یں گے یہ ایک بڑ ا جلسہ ہو گاجبکہ سردار اختر مینگل نے جلسہ سے ایک روز قبل کوئٹہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حالت یہ ہے کہ ہم جلسے کی انتظامات میں مصروف ہیں اور اپوزیشن جماعتوں کے منتظمین تک کو دھمکیاں مل رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کب تھریٹس میں نہیں رہا کیا یہاں پر ہزارہ برادری کی ایک ساتھ سو سو لاشیں نہیں اٹھائی گئیں ، کیا یہاں اجتماعی قبریں دریافت نہیں ہوئی ہیں۔
تھریٹ ہمارے لئے نئی بات نہیں ، حکومت ہمیں تھریٹس سے نہیں ڈرا سکتی ۔اسی دوران پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کیلئے کوئٹہ پہنچنے پر پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء و رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو کوئٹہ ائیرپورٹ پر روک لیا گیا جس پر پی ٹی ایم کے کارکنوں نے ائرپورٹ روڈ پر احتجاجی دھرنا دیارکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بتایا کہ جب وہ کوئٹہ پہنچے تو ضلعی انتظامیہ نے انہیں اطلاع دی کہ ان کے شہر میں داخلے پر پابندی ہے۔
جس پر میں نے انہیں کہا کہ پچھلی بار بھی یہاں آیا تھا تو بلوچستان حکومت کے ترجمان نے مجھے بتایا تھا کہ چونکہ یہاں دھماکہ ہوا ہے اس لیے آپ باہر نہیں جاسکتے تو اب کیا مسئلہ ہے ، اب پورے پاکستان کی سیاسی قیادت یہاں آ رہی ہے تو ایک مجھ سے کیا مسئلہ ہے ، اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سنیئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی اورسیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین اسلام آباد سے پی ڈی ایم کے زیر اہتمام جلسہ عام میں شرکت کرنے کوئٹہ ائر پورٹ پہنچے تو ائرپورٹ پر سیکورٹی حکام نے انہیں بھی روک لیا اور پانچ گھنٹے تک روکے رکھا گیا ۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتیں جو ماضی میں بھی ملکی سطح پر بننے والے سیاسی اتحادوں میں شامل ہوتے رہے ہیں لیکن اس بار یہاں کی سیاسی جماعتیں زیادہ فعال نظر آرہی ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ یہاں کی سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ برسراقتدار رہنے والی جماعتوں سے گلے شکوئے بھی ضرور رہے ہیں اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں متفقہ این ایف سی ایوارڈ دیا جس میں بلوچستان کا حصہ بڑھ گیا اور بلوچستان کے لئے آغاز حقوق بلوچستان پیکیج دیا یہ الگ بات ہے کہ اس پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
اسی طرح پاکستام مسلم لیگ (ن) نے 2018 کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں اکثریت ہونے کے باوجود بلوچستان میں پہلے ڈھائی سال کے لئے اقتدار نیشنل پارٹی کو دی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ بنے تاہم ان دونوں ادوار میں بلوچستان کے کئی ایک مسائل پر پیشرفت نہ ہوسکی جن میں سی پیک کے منصوبے ، لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت دیگر وہ امور شامل ہیں جن پر خاص طور پر بلوچستان کی بلوچ قوم پرست جماعتیں زیادہ توجہ دیتی ہیں۔
اب جبکہ موجودہ حکومت کے خلاف ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ صوبے کی بڑی قوم پرست جماعتیں پی ڈی ایم میں شامل ہیں ایسے میں سنجیدہ سیاسی حلقوں کی جانب سے اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ شائد حکومت کی تبدیلی کے بعد بڑی جماعتوں کا بلوچستان سے متعلق بیانیہ تبدیل تو نہیں ہوجائے گاجبکہ دوسری جانب ایک مضبوط سنجیدہ سیاسی حلقہ ایسا بھی ہے جس کا موقف ہے کہ پاکستان کی سیاست بڑی حدتک تبدیل ہوچکی ہے اور اب ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو چاروں صوبوں اور ان کی سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔