• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ربیع الاوّل کی پُرنور ساعتیں ہوں، فضا درود و سلام کی روح پرور کیفیات میں رچی بسی ہو اور دِلوں میں اتنا گداز ہو کہ فلسطین و کشمیر میں ڈھائے گئے مظالم سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں اور بنی نوعِ آدم کو درپیش مسائل، مشکلات اور خطرات کا ادراک ممکن ہو تو ہر صاحبِ ایمان کو یہ غور ضرور کرنا چاہئے کہ جس دینِ متین کی بدولت چھٹی صدی عیسوی میں ضلالت و گمراہی میں انتہائی حد تک ڈوبے عربوں کی قلبِ ماہیت ہوئی اور پھر اِنہی عربوں کے ذریعے پوری دنیا کو تہذیب و ترقی کی روشنی ملی، اُس دین کے پیروکاروں کے لئے آج ہر مقام آزمائش گاہ بنا کیوں محسوس ہو رہا ہے؟ اِس سوال کا جواب حکیم الامّت علامہ اقبال ؔکے اِس مصرعے سے ملتا ہے کہ ’’رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالیؓ نہ رہی‘‘۔ ساڑھے چودہ سو سال قبل مکّے میں بی بی آمنہ کے گھر میں جس ہستی کی ولادت ہوئی اور جسے کائنات کا خالق و مالک خود وجہ تخلیق کائنات قرار دیتے ہوئے اُس ہستی کو مبعوث فرمانے کا احسانِ عظیم مومنین پر جتاتا ہو، کیا بعید تھا کہ ذاتِ باری تعالیٰ اُس بچے کو آسائش کے ماحول میں پیدا کرتی، آرام دہ زندگی عطا کرتی اور دنیا کو اپنی قدرت سے اُس کے زیرنگیں کردیتی مگر مشیّت یہی تھی کہ جس ہستی کا نور خلقِ کائنات سے پہلے تخلیق کیا گیا، وہ ہستی دنیا کے سامنے تمام انبیاء کے آخر میں آئے، سخت زندگی گزارے، گردوپیش کے اخلاقی پستی کے ماحول کے باوجود اعلیٰ اخلاق کا ایسا نمونہ بنے کہ کسی ایک معمولی سے نقص کی نشاندہی ممکن نہ ہو۔ امانت، دیانت، صداقت کی ایسی مثال قائم کرے کہ مخالفین بھی امین و صادق کہنے پر مجبورہوں۔ پھر جب 40برس کی عمر میں اللہ کے حکم پر اعلانِ نبوّت ہو تو شعب ابی طالب میں تین سال کی محصوری، سفرِ طائف کی اذیت ناک کیفیات سمیت بیشمار کٹھنائیوں سے گزرے اور جب مکّہ سے ہجرت کے سوا کوئی چارہ نہ رہے تو مدینہ پہنچنے کے بعد وہاں صدیوں سے برسرپیکار قبائل کو ایک میثاق پر متحد کرنے کا بظاہر ناممکن کام عملاً کر دکھائے اور ریاستِ مدینہ قائم کرکے اُس کی سلامتی و بقا، معاشی مسائل کے حل، ترقی کی تدابیر کا عملی نمونہ دنیا کو دکھائے اور جب دین و دنیا دونوں میں کامیابی کی نظریاتی و عملی تعلیم و تربیت کا کام محض 23برسوں میں پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے اور سورۃ المائدہ کی تیسری آیت کے ذریعے حقِ تعالیٰ کی یہ نوید آجائے کہ ’’آج ہم نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں‘‘ تو حیاتِ ظاہری کے بندھنوں سے آزاد ہوکر اپنے خالق و مالک سے جا ملے۔ یہ ساری مشقت اِس اصول اور قانون کے عملی اظہار اور تربیت کا حصہ تھی کہ خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ اطاعتِ حق کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ کا ذکر قلب اور زبان سے کرنے کے علاوہ جان، مال اور رشتوں کی قربانی سمیت میدانِ عمل کی ہر جہت میں ہر طریقے سے کیا جائے۔ احکاماتِ الٰہی کی اطاعت کے لئے ہر لمحہ تیار رہا جائے۔ ذاتی، خاندانی اور گروہی فوائد کو احکاماتِ الٰہی پر ترجیح دینے کے طریقے اور حکمرانی کے لئے قیصریت و کسرائیت کے انداز و اطوار اختیار کرنا اسلامی تعلیمات اور سیرتِ نبویؐ کے منافی ہیں۔ آج بھی مسلم امّہ کو بےلوث قیادت میسر ہو اور صاحبانِ ثروت اپنے ذاتی، خاندانی و گروہی مفادات کی قربانی دے کر تمام سرمایہ اور صلاحیتیں اللہ کے لئے وقف کرنے کو تیار ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ امتِ مسلمہ اپنی عظمتِ رفتہ پھر سے حاصل نہ کرلے۔ یہ بات طے ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد نہ کوئی نبی ہے، نہ ہی امتِ محمدیؐ کے بعد کوئی امت۔ اس لئے ملتِ اسلامیہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پہلے خود کو احکامِ الٰہی کے سانچے میں ڈھالے اور پھر دنیا کی قلبِ ماہیت کردے، اُسے بدل ڈالے۔ اُس کے لئے صداقت کا، عدالت کا اور شجاعت کا سبق پھر سے پڑھنا ہوگا۔

تازہ ترین