وہ بھیانک رات بھارت کے صوبہ راجستھان کے ضلع جودھپور کے گاؤں لوٹا کے ایک گھر میں دن بھر کے تھکے ماندے بھیل خاندان پر اس وقت قیامت بن کر گزری ،جب رات کے آخری پہر راجستھان پولیس کی آشیرباد و سرپرستی میں 15 سے 20 مسلح افراد گھر میں داخل ہوئے اور گھر میں موجود تمام افراد کویر غمال بناکرگھر کے ایک کونے میں دکھیل دیا، گھر میں داخل ہونے والے تمام افراد نےسر پر پیلے صافے باندھ رکھے تھے اور ماتھے پر تلک لگایا ہوا تھا۔ ان کے چہرے غیض و غضب کی آخری حدوں کو چُھو رہے تھے۔
آنکھیں شعلے اور زبان گالیاں اور غصہ اگل رہی تھیں۔ ان میں سے کسی نے کہا پاکستان سے وفاداری دکھانی تھی تو بھارت کیوں آئے، اب اس وفاداری کا مزا چکھو ۔ان دھشت گردوں میں سے چند وحشی ایک کونے میں سہمے و سمٹے ہوئے معصوم افراد کو ایک ایک کر کے باہر نکالتے رہے اور چند افراد انہیں زبردستی انجکشن لگاتے رہے۔ انجیکشن لگانے والے کو جوں ہی چھوڑا جاتا، وہ زمین پر گر کر ٹڑپنا شروع کردیتا۔ اس عمل کے دوران آنے والے درندوں نے بوڑھے، جوان، عورت، لڑکی یا بچہ ہونے کا بھی قطعاً لحاظ نہیں کیا اور انہیں زہر کے انجکشن لگاتے رہے۔
افسوس ناک امر یہ تھا کہ قاتل اور مقتول دونوں کی پیشانی ایک جیسے تلک سے سجی ہوئی تھی، دونوں ہی رام کی مالا جپتے تھے، البتہ ایک فرق نمایاں تھا کہ ایک کا جنم پاکستان میں ہوا تھا، جب کہ دوسرے کا بھارت میں ۔ ایک نے بھارت میں پرورش پائی، جب کہ دوسرے نے پاکستان میں، مقتولین کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ شاید یہ فرق بھی ختم کر دیا جاتا اور ان لوگوں کا ماضی پاکستان سے منسلک ہونے کے باوجود انہیں بھارت میں روزی روٹی کمانے کا حق دے دیا جاتا ، اگر یہ افراد اپنے پاکستانی رشتے داروں سمیت پاکستان کے خلاف کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے۔
لوٹا گاؤں کے گھر میں موجود پاکستانی ہندوؤں کا یہ خاندان 16 افراد پر مشتمل تھا، جن میں سے صرف پانچ افراد ہی اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر دست قاتل سے محفوظ رہ سکے، لیکن اب ان افراد کی زندگیوں کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں ۔ قاتلوں کی روانگی کے بعد جودھپور کے لوٹا گاؤں میں ابھی سورج کی کرنوں نے زمین کو چھوا ہی تھا کہ 11 افراد کی بے حس و حرکت لاشیں پورے صحن میں بکھر چکی تھیں، ہنستی بستی زندگی سے معمور جوانیاں لائق احترام بزرگ ۔ اور شوخ و چنچل بچپن بے حس و حرکت پڑے دنیا کی سب بڑی جمہوریت کے گھناؤنے جرائم کی گواہی دے رہے تھے اور بھارتی میڈیا اس گھناؤنے جرم کو کہیں خود کشی اور کہیں مقتولین میں سے کسی ایک کی کارستانی جیسی مضحکہ خیز توضیح بیان کررہا تھا ۔
بھارت کی سرزمین پر بکھرے ان مقتولین میں خاندان کا سربراہ 80 سالہ بڈھا بھیل اس کی 75 سالہ زوجہ شریمتی انتری بائی۔39 سالہ بیٹا ریوو اس کی 37 سالہ بیوی لکشمی۔28 سالہ پیاری،25 سالہ شمعون،12 سالہ دیال بھیل، 10 سالہ دانش،5 سالہ دیا۔12 سالہ زین اور 16 سالہ مقدس شامل ہیں۔ یہ بدنصیب خاندان بھارت کے بے شمار جھوٹے اور بے سروپا دعوؤں اور پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر امیرانہ زندگی کے خواب سجا کر 2012 میں سانگھڑ کے تعلقہ شہداد پور کے گاؤں بہادر کلوئی سے جودھپور چلے گیے تھے، جہاں ان کے بھارتی رشتے دار بھی موجود تھے ۔
شہداد پور میں اب بھی کثیر تعداد میں موجود ان کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انہیں عزت کے ساتھ دو وقت کی اچھی روٹی میسر تھی، لیکن بھارت جانے والا یہ خاندان بھارت کے جھوٹے پروپگنڈے سے متاثر تھا اور مزید شان دار زندگی کے سپنے دیکھ رہا تھا، لیکن بھارت جانے کے بعد ان کے یہ تمام خواب چکنا چُور ہوگئے۔
بھارت میں قتل ہونے والے اس خاندان کے سربراہ بڈھا بھیل کی شہدادپور میں مقیم بیٹی شریمتی مکھنی بھیل نے اپنے 11 پیاروں کے قتل کی ایف آئی آر شہداد پور تھانہ میں درج کرادی ہے۔ ایف آئی آر نمبر 207/2020 میں دہشت گردی کی دفعہ 6/7 اور 302 شامل ہے، جس میں شریمتی مکھنی بھیل نے کہا ہے کہ یہ قتل بھارت کی دھشت گرد تنظیم آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے غنڈوں نے پولیس اور بھارتی سرپرستی میں کیے ہیں۔ ان دھشت گردوں نے لوٹا گاؤں کے لوگوں کو دھمکی دی ہے، اگر انہوں نے میڈیا کے سامنے زبان کھولی تو گاؤں میں موجود ان کے بھارتی رشتے داروں کو بھی مار دیا جاے گا۔ شریمتی مکھنی کا کہنا ہے کہ اسے اور اس کے شوہر کو بھی یہاں دھمکیاں موصول ہورہی ہیں، جس کے باعث وہ شدید خطرہ محسوس کررہے ہیں۔
ایف آئی آر میں مکھنی بھیل نے ریاست پاکستان سے اپیل کی ہے کہ بھارت میں اس کے خاندان کو اجاڑ دیا گیا ہے۔ لہذا اسے انصاف دلایا جائے حکومت پاکستان انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے اور میرے خاندان کے گیارہ بے گناہ معصوم افراد کے قتل کا انصاف دلاے اور بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والی دھشت گرد تنظیم آر ایس ایس اور بی جے پی کو عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم قرار دلواے ادھر اس اندوہ ناک واقعہ نے پُورے پاکستان سمیت دنیا بھر کے انصاف پسندوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور بھارت جو کہ پاکستان کے خلاف چند ناپاک کارروائیوں کے نتیجے میں پہلے ہی بے نقاب تھا۔
مزید بے نقاب ہوگیا ہے اور دُنیا یہ سمجھنے پر مجبور ہوچکی ہے کہ بھارت اس کی دھشت گردانہ اور نفرت پر مبنی پالیسی میں شامل نہ ہونے والوں پر بھی زندگی تنگ کردیتا ہے۔ خواہ وہ اس کے ہم مذہب ہی کیوں نہ ہوں ادھر پاکستان بھر میں واقعہ کے باعث ھندو برادری میں شدید غم و غصہ پھیل گیا ہے اور ہندو کونسل پاکستان کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رمیش کمار نے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور پاکستان بھر کی ہندو برادری کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دی ہے تاکہ بھارتی سفارت خانہ کے سامنے احتجاج کیا جاسکے۔
اس ضمن میں ہندو برادری میں غیر معمولی جوش وخروش پایا جاتا ہے ۔ سانگھڑ ھندو کونسل کے رہنماء راجیش کمار ھرداسانی نے بھارتی حکومت کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ مسلمان کرسچن سکھ اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اب بھارت کی مجرمانہ پالیسیوں میں شامل نہ ہونے والے ہندو بھی محفوظ نہیں ہیں۔ بھارت کو 11 معصوم پاکستانیوں کے قتل کا حساب دینا پڑے گا۔ پاکستان میں ہندو برادری نہایت عزت و احترام مذہبی آزادی اور خوش حالی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے اور پاکستانی ہندو پاکستان کی حکومت اور فوج کے ساتھ ہیں ۔