• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منگنی ٹرین کی اُس سیٹ کی طرح ہوتی ہے جس پر آپ اپنا رومال رکھ کر کسی اچھی سیٹ کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ہمارے ہاں اچھے رشتے کی تلاش سے پہلے منگنی کروانا ضروری ہے‘ جونہی اچھا رشتہ ملتا ہے‘ منگنی ٹوٹ جاتی ہے اور نکاح ہوجاتاہے۔ عموماً منگنی کی ایکسپائری ڈیٹ چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔منگنی سے پہلے جس رشتے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں‘ منگنی ٹوٹتے ہی اُس کے برعکس بیان بازی شروع ہوجاتی ہے۔لڑکی والوں پر اچانک ہی کھلتا ہے کہ لڑکا شرابی ہے‘ آوارہ ہے‘ لالچی ہے اور اِس کی پہلے بھی دو منگنیاں ٹوٹ چکی ہیں۔لڑکے والے بھی عجیب و غریب الزامات لگاتے ہیں‘ لڑکی کا فون بڑا بزی رہتا ہے‘ لڑکی دائیں طرف جھول کھا کرچلتی ہے‘ لڑکی پڑھ لکھ کر بدتمیز ہوگئی ہے وغیرہ ۔منگنی اصل میںٹنگنی ہوتی ہے کیونکہ اِس میں دونوں فریق انتظار کی سولی پر ٹنگے ہوتے ہیں۔منگنی کے ابتدائی دن بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔منگیتر کا لفظ ہی بڑا رومانٹک ہےلیکن جوں جوں منگنی آگے بڑھتی ہے تو دونوں طرف کے پول کھلنا شروع ہوتے ہیں۔ خواتین اِس سلسلے میں اچانک ہی ایک دوسرے کو میلی آنکھ سے دیکھنے لگتی ہیں ۔مثلاً لڑکے کی بڑی بہن کو اعتراض ہوتاہےکہ لڑکی والوں نے منگنی پر اُس کے خاوند کو سوٹ کیوںنہیں دیا۔ چھوٹی بہن کو شک رہتا ہے کہ اُس کی ہونے والی بھابی نے بی اے نہیں کیا ہوا۔ لڑکے کی ماں کو یہی غم کھائے جاتاہے کہ ہم جب بھی لڑکی والوں کی طرف جاتے ہیں دو کلو مٹھائی کا ڈبہ لے کر جاتے ہیں اوروہ جب بھی آتے ہیں‘ایک درجن کیلے اٹھا لاتے ہیں۔لڑکے کی خالہ اِس بات پر غصے میں بھری رہتی ہے کہ اِس غیر لڑکی سے اچھی تو اُس کی بیٹی فہمیدہ تھی۔ چاچی کا موڈ اس لیے خراب رہتا ہے کہ منگنی کے موقع پر اُس کی تصویریں کم کھینچی گئی ہیں۔لڑکی والے بھی رفتہ رفتہ لڑکے والوں سے عاجز آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ لڑکی کی ماں کا سب سے بڑااعتراض یہ ہوتا ہے کہ لڑکاساری تنخواہ تو ماں کے ہاتھ پہ رکھ دیتا ہے، میری بیٹی کو کیا دے گا؟ لڑکی کی پھوپھی اس بات پر منہ پھلائے پھرتی ہے کہ اُسے منگنی پر بوتل نہیں ملی۔ تائی اس لیے رشتے کے مخالف ہوجاتی ہے کہ لڑکا غیر ذات کا ہے۔تاہم، اِن تمام معاملات میں دونوں طرف کے مرد حضرات حسبِ معمول لاتعلق رہتے ہیں اور جب بھی ملتے ہیں اطمینان سے سیاست پر تبادلۂ خیالات کرتے ہیں۔منگنی ہونے کے بعد لڑکا لڑکی اچانک ہی بہت سارے منصوبے بنانے لگتے ہیں جن میں سرفہرست ہنی مون کا مقام‘ بچوں کی تعداد‘ اپنا گھراور زندگی بھر ساتھ نہ چھوڑنے کی قسمیں شامل ہوتی ہیں۔اگلے ہی دن موبائل پر ’’گھنٹہ پیکج‘‘ ایکٹیوویٹ کروا لیا جاتاہے۔ ایک دوسرے کا نِک نیم تجویز کیا جاتا ہے اور رات دیر تک سنہرے مستقبل کے تانے بانے بنے جاتے ہیں۔ یہ کیفیت لگ بھگ ڈیڑھ دو ماہ چلتی ہے۔ اصل کہانی تیسرے مہینے سے شروع ہوتی ہے جب اچانک ایک دن لڑکے کو لڑکی کی ماں کا فون آتا ہے ’’بیٹا! تم لوگوں نے منگنی پر جو سوٹ دیے تھے اُن کے تو رنگ پھیکے پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔اور وہ جو تم لوگوں نے شکیلہ کوسونے کی انگوٹھی پہنائی تھی وہ تو صرف چھ ماشے کی نکلی ہے حالانکہ تمہاری ماں کہہ رہی تھی کہ پورے آدھے تولے کی ہے‘‘۔لڑکا بیچار ہ ہونقوں کی طرح ہوں ہاں کرتا رہتاہے اور گھر جاتے ہی ماں پر برس پڑتاہے کہ اتنے اچھے لوگوں کے ساتھ آپ نے ایسا سلوک کیوں کیا؟ ماں یہ سنتے ہی کھٹک جاتی ہے کہ لڑکا تو شادی سے پہلے ہی ہاتھ سے نکل رہا ہے لہٰذا فوری طور پر بیٹیوں کو اکٹھا کرتی ہے۔ سب مل بیٹھتی ہیںاور پوری تندہی سے سوچتی ہیں کہ منگنی توڑنے سے پہلے لڑکی والوں کے خاندان میں کیا کیا کیڑے نکالے اور ڈالے جاسکتے ہیں۔ اگلے دن لڑکے کی ماں کا فون لڑکی کو جاتاہے’’شکیلہ بیٹی! شکایتیں تو ہمیں بھی بہت سی ہیں لیکن ہم نے کبھی ذکر نہیں کیا‘ اب خود سوچو منگنی پر تم لوگوںنے ندیم کے ابا کو جو گھڑی دی تھی وہ چیک کروا کے لائے ہیں ‘ ڈیڑھ سو والی ہے۔ او ر وہ جومیرے لیے گرم چادر دی تھی‘ وہ بھی اتنی گھٹیا کوالٹی کی ہے کہ اس سے زیادہ گرم تو میر ا دوپٹہ ہے۔‘‘لڑکی بھی بوکھلا جاتی ہے‘ کوئی جواب نہیں بن پاتا تو گھبرا کر فون اپنی ماں کو پکڑا دیتی ہے۔ بس! پھر شروع ہوتی ہے اصل جنگِ پلاسی۔دونوںطرف کی مائیں بہنیں ایک دوسرے کا تیا پانچہ کرکے رکھ دیتی ہیںاورشام کو اعلان ہوجاتا ہے کہ یہ منگنی اب مزید نہیں چل سکتی۔لڑکا لڑکی لاکھ شور ڈال لیں لیکن منگنی وہ واحد عمل ہے جسے جوڑنے یا توڑنے کااختیار صرف گھر والوں کے پاس ہوتا ہے۔لڑکا لڑکی اپنی مرضی سے شادی تو کر سکتے ہیں،منگنی نہیں۔اگلے ہی دن دونوں طرف کی انگوٹھیاں واپس ہوجاتی ہیں اورکسی اچھے سے رشتے کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔تاہم، اب کی بار منگنی نہیں ‘ شادی ہوتی ہے۔ منگنی ٹوٹنے پر سب سے زیادہ دُکھ لڑکے لڑکی کو اور سب سے زیادہ خوشی اِن کے قریبی عزیزو ں کو ہوتی ہے خصوصاً اُن کو جن کی اولادیں جوان ہوں۔جو منگنیاں شادی کا فائنل جیت جاتی ہیں‘ اُن کے پیچھے بھی تلخ اور خوشگوار یادوں کا ایک ذخیرہ ہوتاہے۔کسی بھی چیزمیں تاخیر اُس کااثر زائل کر دیتی ہے‘ فریج میں پڑا ہوا کھانا بھی کچھ دنوں بعد خراب ہو جاتا ہے۔ ’’منگ‘‘ جب ’’امنگ‘‘ سے خالی ہوجائے تو بے لطیف ہوجاتی ہے ۔منگنی کے نام پر ہم جس بندھن میں لڑکے لڑکی کو باندھ دیتے ہیں، وہ ایک طرح سے دونوں کے لیے لمبی گپ شپ کا لائسنس بن جاتاہے‘ یہی وجہ ہے کہ لمبی منگنی والے جوڑوں کی جب شادی ہوتی ہے تو اُن کے پاس کہنے کو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔میرے سامنے بہت سے لوگوں کی منگنیاں ’’بے قدروں‘‘ کی یاری کی طرح ’’تڑک کرکے‘‘ ٹوٹی ہیں ۔نہ بھی ٹوٹیں تو چٹ منگنی، پٹ بیاہ اور کھٹ طلاق ہوجاتی ہے۔

تازہ ترین