• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ چند دنوں سے پاکستان سمیت عالمی میڈیاکا سب سے پسندیدہ موضوع امریکہ میں جاری صدارتی انتخابات ہیں، میڈیا پرموجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بائیڈن سے متعلق مختلف تجزیے پیش کئے جا رہے تھے،دنیا بھر کے سیاسی مبصرین ٹرمپ کے دوراقتدار کے اقدامات کو زیربحث لارہے تھے، امریکہ میں جاری انتخابی عمل کے حوالے سے پاکستان میں ہمیشہ بہت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔تاہم بطور پاکستانی ہمارے لئے سب سے اہم قابل غور امریہ ہونا چاہئے کہ امریکی انتخابات پاکستان پر کس طرح سے اثرانداز ہوسکتے ہیں اور نئی امریکی حکومت پاکستان کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرے گی؟۔ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ہمیں امریکہ کی تاریخ اور پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لیناہوگا، امریکہ کی تاریخ بتا تی ہے کہ امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کبھی پالیسیوں میں تبدیلی کا باعث نہیں بنا کرتی، امریکہ ہمیشہ اپنا ریاستی مفاد سامنے رکھتا ہے ، اوت اپنے مفادات کے حصول کیلئے پالیسیوں میں ردوبدل کرتا ہے، ماضی کے دشمن امریکہ کے دوست بن جاتے ہیں اور دشمن دوست کا روپ دھار لیتے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے وقت امریکہ اور سویت یونین مشترکہ دشمن ہٹلرکے نازی جرمنی کے خلاف نبزدآزماتھے، جنگ میں فتحیاب ہونے کے بعدامریکہ کے مفادات بدل گئے اورماضی کے اتحادی ملک سویت یونین سے ہر محاذ پر ٹکراؤ ہونے لگا، سپرپاور امریکہ نے دوسری سپر پاور سویت یونین کو نیچا دکھانے کیلئے افغانستان میں ان عناصر کی حمایت شروع کردی جنہیں نائن الیون کے بعد دہشت گرد قرار دے دیا گیا، آج انیس سال بعد امریکی مفادات کا تقاضا ہے کہ افغانستان میں ان لوگوں سے ساتھ ہاتھ ملایا جائے جنکی حکومت امریکہ نے نائن الیون کے ردعمل میں بزورِ طاقت ختم کردی تھی۔ پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات بھی نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں، کبھی امریکی مفادات نے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کا درجہ دیا اور کبھی ڈومور کے مطالبات ہوتے رہے۔ اسی طرح ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سمیت دنیا کا ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کررہا ہے، بھارت کسی زمانے میں سویت یونین کا اہم اتحادی تھا جو آج امریکہ کے ساتھ ہے وہ عربوں کے بھی قریب ہے اور اسرائیل کا بھی اسٹریٹیجک پارٹنر ہے، اسی طرح مشرق وسطیٰ کے نمایاں ملک متحدہ عرب امارات نے بھی صرف اپنے مفادات کی خاطر اسرائیل سے دوطرفہ سفارتی تعلقات استوار کرلئے ہیں۔اگر ٹرمپ کے چار سالہ دور حکومت کا جائزہ لیا جائے تو ٹرمپ نے اپنی ماضی کی انتخابی سیاسی مہم میں پاکستان مخالف زبان استعمال کی تھی لیکن جب وہ حکومت میں آئے تو ان کے رویے میںمرحلہ وار تبدیلی آتی گئی، مجھے نہیں یادکہ حال میں ٹرمپ نے پاکستان مخالف بیانیہ اپنایا ہو، بلکہ ٹرمپ کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہوئی، ٹرمپ نے پاکستان کو اپنا دوست ملک قرار دیا ،دورہ پاکستان کی خواہش کا اظہار کیا،دیرینہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی بات کر کے پاکستانیوں کے دل جیت لئے ،برصغیر کے امن پسند حلقوں میں امید کی کرن روشن ہوئی کہ جس طرح ٹرمپ نے اپنے دورِ حکومت میں کوریا کے دو دشمن ممالک کو قریب کر دیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں سے تصفیہ طلب کشمیر کا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہوجائے اور خطے میں امن کی راہ ہموار ہوسکے۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا لیکن اس سے ایک چیز ثابت ہوتی ہے کہ امریکہ میں بھی انتخابی مہم کے موقع پر جو بیانات دئیے جاتے ہیں وہ جوشِ خطابت میںعوام کی توجہ حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی حکومت میں آکر زمینی حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو امریکی صدر اپنے آپ کو ریاستی مفادات کے تابع کرلیتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ حکومت نے چین اور ایران کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی ہے، اگلی امریکی حکومت بھی اسی کو جاری رکھے گی تاوقتیکہ امریکی مفادات میں تبدیلی ناگزیر نہ ہوجائے ،پاکستان کے اپنے دونوں پڑوسی ممالک ایران اور چین سے خوشگوار تعلقات ہیں، اگر پاکستان کےبارڈر کے پار امریکہ کوئی نئی مہم جوئی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو لامحالہ پاکستان کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، سپرپاور امریکہ کی طرف سے حمایت کے مطالبات ماننے کی صورت میں ہماری ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی بھی داؤ پر لگ سکتی ہے اور عوامی دباؤ وسیع پیمانے پر بے چینی کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمیں ایسی ممکنہ صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے ابھی سے خارجہ محاذ پر سرگرم ہوجانا چاہے، تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی دقیانوسی خارجہ پالیسی کو خیرباد کہتے ہوئے فارن پالیسی کی تجدید نو کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو عہد کرنا چاہئے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی خاص ملک یا شخصیت کی خوشنودی کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کے ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے ہوگی، پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی میں فرق نہیں پڑنا چاہئے، پاکستان کی ترقی و خوشحالی، امن و استحکام اور عالمی برادری میں نمایاں مقام کا حصول ہماری خارجہ پالیسی کا اہم جز ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے میری تجویز ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیئر سیاست دانوں، خارجہ امور پر دسترس رکھنے والے ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور سیکرٹری صاحبان پر مشتمل ایک ایسا تھینک ٹینک تشکیل دیں جس کے سامنے واحد ایجنڈا ہو کہ پاکستان میں چاہے کسی کی حکومت آئے ، کوئی بھی وزیر اعظم بنے لیکن پاکستان کی خارجہ پالیسی صرف اور صرف پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرے گی ۔ بطورذمہ دار ریاست ہمیںدونوں امریکی صدارتی امیدواروں کو یکساں اہمیت دینی چاہئے، تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے کسی بھی امریکی امیدوار کے حوالے سے غیرضروری بیان بازی سے بھی گریزکرنا چاہئے۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ امریکی انتخابات کے بعد چاہے کوئی بھی جیت کر آئے، اگلے امریکی صدر کے پاکستان سے تعلقات کی نوعیت کا فیصلہ امریکی مفادات کریں گے۔امید کرتا ہوں کہ حالیہ امریکی انتخابات پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہونگے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین