دُنیا بَھر میں ہر سال 17 نومبرصحت سے متعلق مختلف این جی اوز اور فاؤنڈیشنز کے زیرِاہتمام ’’ورلڈ پِری میچوریٹی ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔ اِمسال اس یوم کا تھیم"Together For Babies Born Too Soon-Caring For The Future" ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں سالانہ ڈیڑھ کروڑ بچّے وقت سے پہلے پیدا ہوجاتے ہیں۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ہر دس میں سے ایک بچّہ وقت سے پہلے پیدا ہوتا ہے اور فی الوقت پوری دُنیا میں نوزائیدہ بچّوں کی اموات کا سب سے بڑا سبب یہ قبل از وقت پیدایش ہی ہے۔
ان پِری ٹرم بچّوں میں سےاندازاً دس لاکھ انتقال کرجاتے ہیں اور کئی بچّے تاعُمر عمومی صحت سے متعلقہ اُن پیچیدگیوں کا سامنا کرتے رہتے ہیں، جو قبل از وقت پیدا ہونے کی وجہ سے انہیں لاحق ہوجاتی ہیں۔ ان میں سےزیادہ تر بیماریوں کا تعلق دماغ، پھیپھڑوں، قوّتِ سماعت اور قوّتِ بینائی سے ہوتا ہے۔ پِری میچور بچّوں کو خصوصی نگہداشت کے اسپتال کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ایسے بچّوں کا ہر اعتبار سے بہت خیال رکھا جانا چاہیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ان بچّوں کے طبّی مسائل اور دیگر مشکلات میں کمی لاسکتے ہیں؟ تو ایسا سو فی صد ممکن ہے۔اور یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں، بس اس حوالے سے معاشرے میں آگہی عام کرنا ہوگی ۔
یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے 2011ء سے اِس تاریخ کو یہ یوم منانے کا آغاز کیا، جس کا بنیادی مقصد قبل از وقت پیدا ہونے والوں بچّوں کی پیدایش کی شرح میں کمی لانا اور عوام النّاس، خصوصاً حاملہ خواتین اور ہیلتھ ورکرز میں قبل از وقت پیدایش سے متعلق احتیاطی تدابیر اور دیگر معلومات عام کرنا ہے، تاکہ دورانِ حمل خاص خیال رکھا جائے اور رحمِ مادر میں نشوونما پانے والا بچّہ اپنی مقررہ مدّت یعنی 37ہفتے مکمل ہونے کے بعد ہی جنم لے۔ چوں کہ پِری ٹرم بچّے عام بچّوں کی نسبت زیادہ حسّاس اور منفرد ہیں، پھر انہیں فوری طبّی نگہداشت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اِسی لیے ورلڈ پِری میچوریٹی ڈے کا علامتی رنگ جامنی یا کاسنی منتخب کیا گیا ہے، جو حسّاسیت اور انفرادیت کی نمائندگی کرتا ہے۔
بچّے کی قبل از وقت پیدایش کے مسئلے سے کوئی بھی حاملہ دوچار ہوسکتی ہے، جو نہ صرف پیدا ہونے والے بچّے کے لیے کئی طرح کے طبّی مسائل کا سبب بنتا ہے، بلکہ ان خاندانوں کے لیے بھی مالی، جسمانی اور ذہنی مشکلات کا باعث بن جاتا ہے۔ نیز، ترقّی پذیر مُمالک میں ترقّی کرتے صحت کے نظام پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ عالمی دِن ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عوام النّاس میں شعور و آگہی عام کریں تاکہ لاکھوں بچّوں کی موت، صحت کے مسائل اور ان کے خاندانوں کے لیے تکلیف کا سبب بننے والے مسئلےکا تدارک ہو سکے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قبل از وقت پیدایش سے کیا مُراد ہے؟ تو حمل ٹھہرنے کے پہلے دِن سے لے کر زچگی تک کا دورانیہ عام طور پر40 ہفتوں پر محیط ہوتا ہے۔ اگر کوئی بچّہ حمل کے37ہفتے مکمل ہونے سے قبل پیدا ہوجائے، تو طبّی اصطلاح میں اسے قبل از وقت پیدایش کہا جائے گا۔ ان بچّوں کا وزن عموماً ڈھائی کلو سے کم ہوتا ہے۔
قبل از وقت پیدایش کی کئی وجوہ ہیں۔ اگر یہ بروقت تشخیص ہوجائیں، تو ایسی خواتین کو فوری طبّی امداد فراہم کرکے خاص توجّہ دی جاسکتی، تاکہ حمل کی مدّت مکمل ہوسکے۔ اِن وجوہ میں سب سے عام Vaginal Infection ہے۔ قریباً 50فی صد کیسز میں یہ انفیکشن بچّے دانی میں درد کا باعث بنتا ہے۔
دیگر محرّکات میں بچّہ دانی کی سوزش، تمباکو نوشی، غیرمتوازن غذا، ذہنی دباؤ، تناؤ، 35 سال سے زائد عُمر میں پہلا حمل ٹھہرنا، بیک وقت ایک سے زائد بچّوں کی پیدایش، ذیابطیس، بُلند فشارِخون، حاملہ کا وزن بہت تیزی سے بڑھنا یا معمول سے کم ہونا، فضائی آلودگی، رطوبت میںfibronectin کا اخراج، بچّے دانی کے منہ کی لمبائی قدرے چھوٹی ہونا، حاملہ کا پس ماندہ طبقے سے تعلق اور حاملہ کے دیگر بچّوں میں سے کسی کا قبل از وقت پیدا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
یوں تو تمام والدین اپنے بچّوں کو بڑھتا ، پھلتا پھولتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں کہ وہ کب مُسکرایا، کب پہلا قدم اُٹھایا، لیکن قبل از وقت پیدا ہونے والے بچّوں کے والدین کے دِل اس خدشے سے دھڑک رہے ہوتے ہیں کہ کہیں ان کا بچّہ پیچیدگیوں کا شکار ہو کر بیمار نہ پڑجائے۔ اصل میں قدرتی نظام کے تحت ایک خاص مدّت تک کے لیے ماں کے پیٹ میں بچّے کو نشوونما کے لیے جو ماحول فراہم ہوتا ہے،وہ اُسے کئی طبّی مسائل اور پیچیدگیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
لہٰذا بچّہ اگریہ مدّت مکمل ہونے سے قبل پیدا ہوجائے، تو باہر کی دُنیا میں اسے کئی طبّی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مثلاً بچّے کی جسمانی و ذہنی نشوونما سُست ہوتی ہے۔ نیز ،دیگر پیچیدگیوں میں پھیپھڑوں کے طویل عرصے تک لاحق رہنے والے امراض، ذہنی معذوری، ارتکازِ توجّہ میں دشواری، قوّتِ سماعت متاثر ہونا، بینائی کی کم زوری، دِل کا پیدایشی نقص، پھیپھڑوں کا تاخیر سے نشوونما پانا، دیر سے مضبوط ہونا، ضرورت کے مطابق دودھ نہ پینے کے باعث خون میں شکر کی کمی، سوکھے کی بیماری، انتڑیوں کی سوزش، خون کی کمی، شدید یرقان اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ذہنی معذوری، خون جمانے والے ذرّات کی کمی، انفیکشن بڑھ جانے کی صُورت میں جسم میں زہرپھیل جانا، نمونیا، بار بار پیشاب میں انفیکشن ہونا، نئی چیزیں سیکھنے میں دقّت محسوس کرنا، مرگی، ٹین ایج میں ڈیپریشن کا زیادہ شکار ہونا اور گُردوں کے عوارض وغیرہ شامل ہیں ۔
شادی کے بعد ماں بننا اور صحت مند بچّے کو جنم دینا ہر عورت کی فطری خواہش ہوتی ہے۔ اس ضمن میں خواتین کو چاہیے کہ وہ فولک ایسڈ کا باقاعدگی سے استعمال کریں، تمباکو نوشی سے اجتناب برتا جائے، کام کرنے کے اوقات ہفتے میں 42گھنٹوں سے زیادہ نہ ہوں، دِن بَھر میں چھے گھنٹے سے زیادہ کھڑا نہ ہونا پڑے، رات کی ڈیوٹی سے اجتناب بہتر ہے۔ اگر ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا ارادہ ہو، تو ایمبریوز کی تعداد کم رکھی جائے،بچّے دانی میں پیدایشی نقص ہوتو حمل ٹھہرنے سے قبل لازماً علاج کروالیا جائے، اگر ذیابطیس یا بُلند فشارِ خون کا شکار ہوں، تو ادویہ پابندی سے استعمال کریں اور مرض پر کنٹرول رکھا جائے۔
حمل ٹھہرنے کے بعد جو احتیاط برتی جائے، اس میں تمباکو نوشی سے اجتناب لازمی ہے۔ معالج کے مشورے سے وٹامنز اور کیلشیم کا باقاعدگی سے استعمال کریں، پیشاب میں جراثیم کی جانچ کے لیے ٹیسٹ کروائیں، الٹراساؤنڈ کے ذریعے بچّےدانی کے منہ کی لمبائی جانچی جائے، اگر ڈھائی سینٹی میٹر سے کم ہوتو اس پر ٹانکا لگوایا جاسکتا ہے۔
قبل از وقت پیدایش کے خطرے کی صُورت میں پروجیسٹرون کا استعمال کر سکتی ہیں، اپنی غذا کا خاص خیال رکھیں، ذہنی تناو ٔسے بچیں،اومیگا۔3فیٹی ایسڈکا استعمال مفید ہے، انفیکشن کی صُورت میں فوری طور پر اپنے معالج سے رابطہ کریں۔ دورانِ حمل مناسب آرام کریں، فضائی آلودگی سے بچیں، تھائی رائیڈز، دَمے، شوگر اور بلڈ پریشر پر مناسب علاج کے ذریعے کنٹرول رکھیں۔ پانی مناسب مقدار میں پیا جائے کہ جسم میں پانی کی کمی قبل از وقت دردِ زہ کا باعث بن سکتی ہے۔علاوہ ازیں، بعض ادویہ کا استعمال بھی قبل از وقت پیدایش کے امکانات معدوم کردیتا ہے۔ مثلاً:
٭ ہارمون پروجیسٹرون کا استعمال :جن خواتین میں قبل از وقت پیدایش کا خطرہ ہو، انہیں دورانِ حمل پروجیسٹرون کا استعمال کروایا جائے، تو خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
٭دردِ زہ روک دینے والی ادویہ: ایسی ادویہ عام طور پر 24 سے 48 گھنٹے تک درد روکنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، جب تک پھیپھڑے مضبوط کرنے والی دوا اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ بعض ایسی ادویہ بھی دستیاب ہیں، جو زیادہ دِنوں تک دردِ زہ روک سکتی ہیں۔جب کہ میگنیشیم سلفیٹ کا استعمال بچّے کو ذہنی معذوری سے بچانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
٭کورٹی کواسٹرائیڈ:(Corticosteroid)یہ آنول نال کے ذریعے بچّے کے جسم میں داخل ہوکر اس کے پھیپھڑے مضبوط کرتی ہے۔جہاں قبل ازوقت پیدایش کا خطرہ موجود ہو، وہاں اس کا استعمال خاصا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ ادویہ بچّے کو دِل، دماغ اور انتڑیوں کے کئی عوارض سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ البتہ ان کے استعمال سے انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اگرکورٹی کواسٹرائیڈز کا ابتدائی کورس مکمل ہوئے سات دِن سے زائد ہوچُکے ہوں، تو اسے بچّے کی پیدایش سے12سے24گھنٹے قبل دوبارہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
٭اینٹی بایوٹکس:مناسب اینٹی بایوٹکس کا بروقت استعمال بچّے اور بچّے دانی کو انفیکشن سے بچاتا ہے، جو قبل از وقت پیدایش کا اہم سبب ہے۔
قبل از وقت پیدایش کی کئی علامات ہیں، لیکن افسوس کہ زیادہ تر خواتین ان پر توجّہ نہیں دیتیں۔جیسے پیٹ کے نچلے حصّے یا کمر میں بار بار درد اُٹھنا، پیٹ کے نچلے حصّے میں شدّت سے دباؤ محسوس ہونا، آخری تین ماہ کے دوران خون کا اخراج، بار بار پانی کا اخراج، بچّے دانی کے منہ کا چھوٹا ہو کر یک دَم کُھل جانا۔ اگر حمل کی مدّت (40ہفتے) پورے ہونے سے قبل زچگی ہوجائے اور ماں اور نوزائیدہ کسی ایسے جگہ ہوں، جہاں بچّےکی نگہداشت کے لیے ضروری آلات جیسے انکیوبیٹر، آکسیجن سلینڈر اور مخصوص مشینریز وغیرہ کی سہولت نہ ہو، تو ایسے میں بچّے کی ماں کو نومولود کو اپنے جسم کے ساتھ مستقل لگا کر گرمی دینی چاہیے۔
اس طریقۂ کار کو عرف عام میں "Kangaroo Care" کہتے ہیں۔ بچّے کو صرف ماں کا دودھ دیا جائے۔اگر ماں کا دودھ میسّر نہ ہو، تو کسی ایسی خاتون کا انتظام کیا جائے جو اپنا دودھ پلاسکے یا پھر اسپیشل فارمولا ملک استعمال کیا جا سکتا ہے۔نومولود کو جراثیم سے بچایا جائے اور درست طریقے سے سانس لینے میں مدد کی جائے۔عموماً پِری میچور بچّوں کو انکیوبیٹر میں خاص مدّت تک کے لیے رکھا جاتا ہے۔ اصل میں انکیوبیٹرز پِری ٹرم بچّوں کو نہ صرف گرمی پہنچاتے ہیں، بلکہ ان کے درجۂ حرارت، تنفّس کے نظام، دِل کی دھڑکن اور آکسیجن کی فراہمی بہتر رکھنے کے لیے بھی مؤثر ہیں۔ نیز، ان میں بچّے کو غذا اور پانی خون کی نالیوں کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ واضح رہے،جو بچّے انکیوبیٹر میں ایک طویل عرصہ گزارتے ہیں، اُن کے سُننے کی صلاحیت کی جانچ بھی ضروری ہے۔
کورونا وائرس جو پوری دُنیا میں خوف و دہشت کی علامت بناہوا ہے، جس کے دوران صحت سے متعلق متعدّد چیلنجیز کا سامنا کرنا پڑا اور کئی امراض کی شرح میں اضافہ بھی ہوا، مگر دُنیا کے زیادہ تر مُمالک میں قبل از وقت پیدایش کی شرح 20 فی صد سے90 فی صد تک کم ہوئی اور اس کی وجوہ میں حاملہ خواتین کا گھر پر آرام، فیملی کی سپورٹ، فضائی آلودگی میں کمی اور لاک ڈاؤن میں رہنے کے باعث مختلف وائرسز اور دیگر انفیکشنز سے بچاؤ شامل ہیں۔
(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ نسواں ہیں۔کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں ،جب کہ عباسی شہید اسپتال، میمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اور ابنِ سینا اسپتال، کراچی میں بطور کنسلٹنٹ فرائض انجام دے رہی ہیں)