• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انعم وصی

کسی بھی نئے نظام کے نفاذ سے قبل ایک ایسی ٹیم تیار کرنی ہوتی ہے، جو نہ صرف اُس نئے نظام کی جزئیات سے آگاہ ہو، بلکہ اُس پر غیر متزلزل یقین بھی رکھتی ہو۔ اِسی بنیادی اصول کے پیشِ نظر حضور اکرمﷺ نے ایک طویل عرصہ مکّۃ المکرّمہ میں اسلام کی تبلیغ کرتے گزارا۔ آپﷺ کی اَن تھک کوششوں سے بہت سے افراد مسلمان ہو گئے، تو ایک ایسے خطۂ زمین کی ضرورت محسوس ہوئی، جہاں کی آبادی مکمل طور پر یا اکثریت نئے نظام کو قبول کرنے پر تیار ہو۔ لہٰذا، اِس مقصد کے لیے سب سے مناسب خطّہ مدینۂ منوّرہ کی سَرزمین ہی تھی۔نبی اکرمﷺ کی مدینہ منوّرہ تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجدِ نبویؐ کی بنیاد رکھی گئی۔ عام زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کے لیے ایک’’ سیکریٹریٹ‘‘ قائم کر دیا گیا۔ 

اس کے ساتھ، معاشرے کے معاشی مسائل کے حل کو اوّلیت دی گئی۔ ایک طرف ریاست میں ہنگامی حالت تھی، تو دوسری طرف انصارِ مدینہ تھے، جن میں متوسّط بھی تھے اور مال دار بھی۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اُن دنوں مدینہ منوّرہ کی معیشت کا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا، مگر حضورِ اکرمﷺنے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو، کیوں کہ اِس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی۔ آپﷺ نے انصارِ مدینہ سے فرمایا کہ’’ اپنے بھائیوں کی مدد کرو‘‘ اور پھر قرضِ حسنہ کا نظام رائج فرمایا۔ جب لوگ باہمی تعاون کے ذریعے بلاسود قرضوں پر معیشت چلانے کے قابل ہوگئے، تب سودی لین دین ختم کر دیا گیا۔

مدینہ منوّرہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصے میں ارتقا کی مختلف منازل طے کر کے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی، جس کی حدودِ حکم رانی شمال میں عراق وشام کی سرحدوں سے لے کر جنوب میں یمن وحضر موت تک اور مغرب میں بحرِ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیجِ فارس اور سلطنتِ ایران تک وسیع ہو گئیں۔ یوں عملی طور پر پورے جزیزہ نمائے عرب پر اسلام کی حکم رانی قائم ہو گئی۔اگرچہ، شروع میں اسلامی ریاست کا نظم ونسق عرب قبائلی روایات پر استوار تھا، تاہم جلد ہی وہ ایک مُلک گیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہو گیا۔ یہ عربوں کے لیے ایک بالکل نیا سیاسی تجربہ تھا، کیوں کہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی، سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے۔

یہ سیاسی اکائیاں آزاد وخود مختار ہوتی تھیں، جو ایک طرف قبائلی آزادی کے تصوّر کی علم بردار تھیں، تو دوسری طرف، سیاسی افراتفری اور اُس کے نتیجے میں تسلسل کے ساتھ سیاسی چپقلش، فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمّے دار تھیں۔ عربوں میں نہ صرف مرکزیت کا فقدان تھا، بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصوّر تک سے عاری تھے۔ اگرچہ، نئے نظریات اُن کی مَن مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے کہ وہ کسی’’غیر‘‘ کی حکم رانی تسلیم ہی نہیں کرتے تھے، مگر یہ رسول اکرمﷺ کا معجزہ ہے کہ آپﷺ نے ایک دوسرے کے دشمن قبائل کو ایک سیسہ پلائی قوم میں تبدیل کر دیا۔ اُن کی اَن گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرما دی، جس کی اطاعت بدوی اور شہری، تمام عرب باشندے کرتے تھے۔ اس کا سب سے بڑا، بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب قبیلے یا خون کی بجائے صرف اسلام ہی معاشرے اور حکومت کی اساس تھا۔ 

اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیالوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھی، جنھیں اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا، اُن کے لیے بھی بعض اسباب کی وجہ سے اس ریاست کی سیاسی بالادستی تسلیم کرنا ضروری تھی۔نبی کریمﷺنے جب راہِ ہجرت میں قدم رکھا، تو آپﷺ کی زبانِ مبارک پرسورہ ٔبنی اسرائیل کی یہ آیت تھی’’اے میرے ربّ! مجھے خُوبی کے ساتھ پہنچا دے اور مجھے خُوبی کے ساتھ نکال لے اور میرے لیے اپنی طرف سے غلبہ دے، جس کے ساتھ نصرت ہو۔‘‘ (آیت 80)چناں چہ، اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی دُعا قبول فرمائی اور اسلامی مملکت کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کو غلبہ عطا فرمایا۔گویا آپﷺ کی مَدنی زندگی بھرپور مصروفیت کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ انتہائی مشکل حالات میں بھی آپﷺ نے اپنی بصیرت سے سلامتی کی راہیں نکالیں۔ 

مدینہ منوّرہ میں تشریف لانے کے بعد آپﷺ کی حیثیت مکّے سے مختلف ہو گئی تھی، کیوں کہ مکّے میں مسلمان ایک مختصر سی اقلیت کے طور پر رہ رہے تھے، جب کہ یہاں اُنھیں اکثریت حاصل تھی۔ پھر آپﷺ نے شہریت کی اسلامی تنظیم کا آغاز کیا، جس میں آپﷺ کو منتظمِ ریاست کا مقام حاصل تھا۔ اس میں شک نہیں کہ مکّی زندگی کے مقابلے میں یہ بڑی کام یابی تھی، لیکن پُرسکون معاشرے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔ مدینے میں موجود مختلف قبائل سے تعلقات استوار کرنا بہت اہم تھا، جسے رسول اللہﷺ نے معاہدات کے ذریعے طے کیا۔ان معاہدات میں’’ مواخاتِ مدینہ‘‘ اور’’ میثاقِ مدینہ‘‘ نمایاں ہیں۔

مواخاتِ مدینہ:مواخات کے طرزِ عمل نے مسلم معاشرے کو استحکام بخشا اور اُسے ہر جارحیت کے خلاف مجتمع ہو کر لڑنے میں مدد دی۔مدینے میں مسلمانوں کی عدوی اکثریت تھی اور انصار وہاں کا ایک مضبوط گروہ تھا۔ہجرت کے بعد سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری کا درپیش تھا، کیوں کہ وہ دین کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ آئے تھے۔اس سلسلے میں آپﷺنے ایک نہایت اہم قدم اُٹھاتے ہوئے انصار اور مہاجرین کو اسلام کے رشتۂ اخوّت میں منسلک کر دیا۔ 

ایک مہاجر کو دوسرے انصار کا بھائی بنا دیا گیا۔ انصار نے اپنے مہاجر بھائیوںسے فیّاضی اور ایثار کا جو ثبوت دیا، وہ اسلامی اور عالمی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے۔آپﷺ کے ساتھ آنے والے مہاجر اور مقامی انصار میں ہم آہنگی، یک جہتی اور استحکام کا یہ اہم مسئلہ آپﷺ نے جس سیاسی حکمتِ عملی سے طے کیا اور مسلم معاشرے کی بنیاد مواخات کے اصول پر جس طرح مضبوط کی، وہ حکم رانوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔بحیثیت حکم ران آپﷺ کی فکر اور دُور اندیشی بے مثال تھی۔یہی وجہ ہے کہ ارباب دانش کا آپﷺکی اصابتِ فکر کے سامنے سَرجُھکائے بنا چارہ نہیں۔

مدینے میں قائم ہونے والے اس جدید مستقر کو آپﷺ نے ایسی وحدت میں بدل دیا، جو عرب کے وہم وخیال میں بھی نہ آسکتی تھی۔مواخاتِ مدینہ سے معاشرے کو اطمینان وسکون حاصل ہوا، کیوں کہ وہاں کے منافقین، اوس اور خزرج قبائل میں پُھوٹ ڈالنے کی تدابیر کر رہے تھے۔اسی طرح منافقین نے مہاجر و انصار کی بنیاد پر منافرت پھیلانے کی مہم بھی شروع کر رکھی تھی، مگر معاہدۂ مواخات نے اُن کی چالیں اُن ہی پر اُلٹ ردیں۔

میثاق مدینہ:نبی کریمﷺکی سیاسی پالیسی کی دوسری اہم مثال’’ میثاقِ مدینہ‘‘ ہے۔ آپﷺ نے مواخات قائم کرکے اہالیانِ مدینہ کو مستحکم کیا اور اب مدینہ منوّرہ کو بیرونی خطرات سے بچانا مقصود تھا۔ اِس مقصد کے لیے مسلم اور غیر مسلم شہریوں کو کسی ایسے نکتے پر جمع کرنا تھا، جس پر سب متفّق ہوں۔لہٰذا، مسلمان اور یہودی اِس معاہدے کے ذریعے شہر کے دفاع پر متفّق ہوگئے۔ اِن ہی اغراض و مقاصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حضورِ اکرمﷺ نے ہجرت کے چند ہی ماہ بعد ایک دستاویز مرتّب فرمائی، جس کے مطابق یہودیوں سے سمجھوتا کرلیا۔ 

یہ حکم رانِ وقت کا ایک فرمان تھا، ساتھ ہی تمام اہم لوگوں کا اقرار نامہ بھی، جس پر اُن کے دست خط تھے۔ معروف سیرت نگار، ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے پہلا تحریری دستور قرار دیا ہے۔یہ آپﷺ کا سیاسی تدبّر ہی تھا، جس سے مدینے کو بیرونی اور اندرونی حملوں سے حفاظت اور سکون میّسر آیا۔یوں آنحضرتﷺکچھ عرصے تک یہودیوں کی مخالفت کے خطرے سے نجات حاصل کر کے اسلام کی ترقّی و اشاعت میں مصروف ہوگئے، تو دوسری طرف اندرونی معاملات اور مذہبی آزادی برقرار رہنے سے یہودیوں پر بھی اچھے اثرات مرتّب ہوئے۔پھر یہ کہ یہودیوں نے آنحضرتﷺ کو حکم ران تسلیم کر لیا۔ یہ اس معاہدے کی سب سے اہم شق اور آنحضرتﷺ کی عظیم فتح تھی۔

اِس معاہدے سے نبی کریمﷺ نے مدینے کی شہری ریاست کو ایک مستحکم نظام عطا کیا اور اس کے لیے خارجی خطرات سے نمٹنے کی بنیاد قائم کی۔ اس دستاویز نے نبی کریمﷺ کو ایک منتظمِ اعلیٰ کی حیثیت سے پیش کیا اور یہ آپﷺکی زبردست کام یابی تھی۔ دستاویز میں ایک بار لفظ ’’دین‘‘ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اِس لفظ میں بیک وقت مذہب اور حکومت دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ ایک ایسا اہم اَمر ہے کہ اسے پیشِ نظر رکھے بغیر مذہبِ اسلام اور سیاسیاتِ اسلام کو اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔

یہ ایک ایسا تحریری معاہدہ ہے، جس کی رُو سے حضرت محمّد مصطفیٰﷺ نے14 سو سال قبل ایک ایسا معاشرتی ضابطہ قائم کیا، جس سے معاہدے میں شامل ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔ اس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی اور اموال کے تحفّظ کی ضمانت ملی۔ارتکابِ جرم پر گرفت اور مؤاخذے نے دباؤ ڈالا اور معاہدین کی یہ بستی، وہاں کے باسیوں کے لیے امن کا گہوارا بن گئی۔یہ معاہدہ، درحقیقت اسلامی ریاست کی بنیاد تھا، یہاں سے حضورِ اکرمﷺ کی زندگی نے نیا رُخ اختیار کیا۔ اب تک آپﷺ کے اقدامات کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کے لیے تھے، جہاں سے اسلام کی اشاعت اور تبلیغ مؤثر طریقے سے کی جا سکے، لیکن اب آپﷺ منتظمِ ریاست کے طور پر سامنے آئے اور مدینے میں باقاعدہ اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔

تازہ ترین