• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ، حق کی فتح، جنگ جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی 8 ماہ بعد ضمانت منظور

سپریم کورٹ، میرشکیل الرحمٰن کی 8ماہ بعد ضمانت منظور


اسلام آباد ( رپورٹ:، رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے جنگ،جیو میڈیا گروپ کے چیئرمین اور ایڈیٹر ان چیف ،میر شکیل الرحمان کے خلاف جائیداد کے ایک 34سال پرانے معاملہ کے حوالے سے قائم کئے گئے نیب کے ر یفرنس میں242 روز کے بعد انکی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری منظورکرلی ہے ۔

دوران سماعت جسٹس یحیٰ آفریدی نے پراسیکیوٹر نیب سے استفسار کیا ہے کہ یہاں پر تو لاء افسران کوبھی اضافی زمین اسی قیمت پرہی ملی ہے، کیاان کیخلاف بھی نیب کے مقدمات بنائے گئے ہیں ؟میرشکیل الرحمان نے جو دستاویزات دکھائی ہیں ، یہ درست ہیں یا غلط؟ جس پر انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ دستاویزات درست ہیں، جسٹس یحیٰ آفریدی نے ان سے استفسار کیا ہے کہ نیب نے دوسرے متعددافراد کے خلاف ریفرنس کیوں نہیں بنائے ہیں ؟جس پر پراسیکیوٹر نے کہاہے کہ مارکیٹ ریٹ کاتعین بعد میں کیاگیاہے۔

فاضل جج نے کہا ہے کہ نیب کو اس بات کاتعین کرنا چاہیئے کہ ایل ڈی اے کی پالیسی کے مطابق یہ کیس درست ہے یا غلط ؟لاہور کی جو احتساب عدالت میر شکیل الرحمان کے کیس کی سماعت کررہی ہے ،اس میں اس نوعیت کے کتنے مقدمات زیر سماعت ہیں؟ 

انہوں نے ریمارکس دیے ہیں کہ فوجداری قانون کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا ہے،یہ کیس درست طور پر قائم نہیں کیا گیا ہے جبکہ جسٹس مشیرعالم نے استفسار کیا ہے کہ ایل ڈی اے نے کسی اورسے بھی مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت وصول کی ہے ؟

کیا نیب نے کسی دوسرے الاٹی کو بھی اضافی اراضی کی ریزرو قیمت کے حوالے سے مارکیٹ ویلیو کے مطابق ادائیگی کے لئے نوٹس بھجوایا ہے؟جس پر پراسیکوٹرنیب نے کہا ہے کہ ریکارڈ سے ایساثابت نہیں ہوتا ہے۔

دوران سماعت درخواست گزار میرشکیل الرحمان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل پر قومی خزانے کو ایک پیسے کا بھی نقصان پہنچانے کا الزام نہیں ہے، نیب نے میرے موکل کو 34سال پرانے پرائیویٹ پراپرٹی کیس میں8ماہ پہلے گرفتار کیا اور چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے جس روز وارنٹ گرفتاری جاری کیے اسی روز ہی ان کے خلاف انکوائری کی بھی منظوری دے دی تھی۔

تاہم میرے موکل کے سوا دیگر ملزمان سابق ڈی جی، ایل ڈی اے اور ڈائریکٹر لینڈ ڈیویلپمنٹ کو آج تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے ،جبکہ اس معاملے سے متعلقہ ادارہ ایل ڈی اے نے آج تک میرے موکل کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی ہے اور نہ ہی وہ شکایت کنندہ ہے ، ا نہی پلاٹوں پر میرے موکل نے ایل ڈی اے سے نقشہ منظورکروا کے مکان تعمیرکروایا تکمیل کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور رہائش اختیار کی ہے لیکن آج تک ایل ڈی اے نے کسی قسم کے کوئی واجبات نہیں طلب کئے ہیں۔

نیب کی جانب سے میرے موکل پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے 4 کنال 12 مرلہ اضافی اراضی کی قیمت مارکیٹ ریٹ کے مطابق نہیں دی ہے جبکہ اضافی زمین کی قیمت 1987 میں ادا کردی گئی تھی،لیکن 34 سال بعد نیب کی جانب سے انہیں گرفتارکرلیاگیا ہے۔

دوران سماعت نیب کے پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا ہے کہ درخواست گزار پر گلیوں کو اپنے پلاٹ میں شامل کرنے کا الزام ہے،جس پر میر شکیل الرحمان کے وکیل نے کہا ہے کہ جس جگہ کو نیب والے گلیاں کہہ رہے ہیں یہ وہی اضافی اراضی ہے، 1986 میں اس جگہ پر کوئی گلیاں نہیں تھیں بلکہ کھیت کھلیان تھے، ایل ڈی اے کا ماسٹر پلان 1990 میں منظور ہوا ہے۔

میرے موکل پر 1986 میں گلیاں پلاٹ میں ڈالنے کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے؟جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ اور معاون فیصل صدیقی ایڈووکیٹ جبکہ نیب کے پراسیکیوٹر حیدر علی خان پیش ہوئے۔

جسٹس قاضی امین نے امجد پرویز ایڈووکیٹ سے درخواست گزار کے ایک اور وکیل خواجہ حارث احمد کی عدم موجودگی سے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے کہاکہ ان کی طبیعت ناساز ہے اور میں ہی دلائل دوں گا۔

انہوں نے اس کیس میں اپنے موکل میر شکیل الرحمان کو نیب کی جانب بدنیتی سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے 12مارچ کو ایک ہی دن میرے موکل کے خلاف انکوائری کرنے کی منظوری دی اور اسی روز ہی ان کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کردیے جبکہ 16جون کو ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جس میں میرے موکل سمیت تین اور ملزمان (اس وقت کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف ، سابق ڈی جی، ایل ڈی اے ہمایوں فیض رسول اور ڈائریکٹر لینڈ ڈیویلپمنٹ میاں محمد بشیر) بھی شامل ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا کہ میرے موکل کے علاوہ کسی اور ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے جبکہ میاں نواز شریف کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعہ 87,88کے تحت انہیں مفرور قرار دیتے ہوئے جائیداد کی قرقی کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ نواز شریف اور دونوں سرکاری ملزمان نے ساز باز کرکے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے محمد علی جوہر ٹائون اسکیم فیز 2میں استثنیٰ پالیسی میں نرمی کرتے ہوئے میرے موکل کو الاٹمنٹ میں ایگزمنشن دیا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ میرے موکل کے پاس اس اسکیم میں واقع180کنال18مرلہ اراضی کی پاور آف اٹارنی تھی، اس اراضی کو لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے محمد علی جوہر ٹائون اسکیم فیز 2 لاہور بنانے کے لئے 1982میں ایکوائر کیا تھا جبکہ میرے موکل نے یہ اراضی سابق مالکان سے خریدی تھی، اس حوالے سے اس کا نو ٹیفکیشن جاری ہوا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اراضی کا سابق مالک محمد علی فوت ہوگیا تھا اور اس کے بعد اس اراضی کا ملکیتی فرد ان کے ورثاء کو جاری ہوا تھا اور اس کی پاور آف اٹارنی میرے موکل کے پاس تھی۔ 

انہوں نے کہاکہ اس جگہ پر ابھی ترقیاتی کام شروع نہیں ہوا تھا اس لئے میرے موکل نے ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر لینڈ کو عبوری طور پر اس اراضی کی ڈیویلپمنٹ کرنے کے لئے درخواست دائر کی تھی جو کہ خارج کردی گئی اور ڈی جی ایل ڈی اے کی جانب سے انہیں ایک خط بھیجا گیا کہ استثنیٰ پالیسی کے تحت انہیں استثنیٰ دیا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد 5 اگست 1986 کو استثنیٰ لیٹر جاری کردیا گیا۔ 

انہوں نے کہاکہ استغاثہ کا کیس یہ ہے کہ درخواست گزار کا حق کل اراضی کے 30 فیصد حصہ سے متعلق تھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اراضی کے ایریا سے متعلق کوئی تنازعہ نہیں ہے، یہ کل 54کنال 5مرلہ بنتی ہے اس پر کوئی تنازعہ نہیں ہے ملکیت پر بھی کوئی تنازعہ نہیں ہے،ان کا موقف ہے کہ 15کنال اکٹھے پلاٹ ملنے کے بعد باقی کم سائز کے پلاٹس ملنے تھے لیکن انہوں نے 54پلاٹس اکٹھے لے لئے، تاہم اس اقدام سے قومی خزانے کو ایک پیسے کے نقصان کا بھی ذکرموجود نہیں ہے۔ 

انہوں نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ جس وقت پلاٹ الاٹ ہوئے تھے اس وقت فیز ٹو میں لوکیشن کا کوئی معاملہ ہی نہیں تھا ہر طرف ایک جیسے کھیت کھلیان تھے اور سارے فیزکی ریزرو قیمت ایک جیسی تھی، جس پر جسٹس قاضی امین نے ان سے استفسار کیا کہ کیا اس سے صوبائی حکومت کو کوئی نقصان نہیں ہوا تھا ؟ تو انہوں نے کہا کہ اس میں صوبے کا کائی معاملہ ہی نہیں تھا البتہ اراضی کی منتقلی تاخیر سے ہوئی تھی ،انہوں نے بتایا کہ آج تک ایل ڈی اے نے اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی کارروائی یا شکایت نہیں کی ہے نہ ہی کسی اور ادارے نے شکایت کی ہے۔

انہوں نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ میرے موکل کے قبضے میں 54کنال اراضی ہے جبکہ اس کے علاوہ انہیں4کنال 12مرلے زایداراضی بھی دی گئی تھی، جس کی قیمت فی کنال 60ہزار روپے ادا کی گئی تھی ،اور اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں ہے،جسٹس یحیٰ آفریدی نے پراسیکیوٹر نیب سے استفسار کیا کہ کیا درخواست گزار کے ذمہ اس کے علاوہ بھی کوئی واجبات ہیں تو انہوں نے کہاکہ جی ہاں ،فاضل جج نے درخواست گزار کے وکیل کوکہا کہ وہ نیب کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب سے ادائیگی کا شیڈول پڑھیں۔

جس کے بعد فاضل وکیل نے کہا کہ 28دسمبر1987کو ایل ڈی اے کی پالیسی کے مطابق مروجہ ایس او پیز کو فالو کرتے ہوئے زائد اراضی کی ریزرو قیمت کے مطابق ایل ڈی اے کو ادائیگی کردی گئی تھی لیکن نیب کا موقف ہے کہ ریزرو کی بجائے مارکیٹ ویلیو کے مطابق ادائیگی کی جانی چاہیئیے تھی ، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے انہیں ہدایت کی کہ وہ پالیسی کی وہ پرویژن دکھا دیں جس کے تحت آپ کا موکل زاید اراضی کی ریزرو قیمت ادا کرسکتا تھا ؟

جسٹس قاضی امین کے ایک سوال پر فاضل وکیل نے بتایا کہ ہر ہائوسنگ سکیم میں استثنیٰ پالیسی بنائی جاتی ہے کہ اراضی کے مالکان کو کیا کیا استثنیٰ دیا جائے، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ مالک کو آپشن دیا جاتا ہے کہ وہ معاوضہ لے گا یا کل اراضی کے 30فیصد کے برابر پلاٹ لے گا؟

فاضل وکیل نے کہاکہ میرے موکل کو بھی ایل ڈی اے نے 30فیصد کے برابر پلاٹ لینے کی پیشکش کی تھی، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے موکل نے پالیسی کے مطابق عمل کیا ہے اور کسی قسم کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے؟ فاضل جج نے نیب کے پراسیکیوٹر کو کہا کہ آپ نے عدالت کو بتانا ہے کہ زائد اراضی کے حصول کے اور کتنے کیس تھے اور ان کی جانب سے کی جانے والی ادائیگیوں کے حوالے سے نیب نے کیا کیا کارروائی کی ہے ۔

دوران سماعت فاضل وکیل نے پالیسی اور قواعدو ضوابط کا باآواز بلندمطالعہ کیا’’کہ مالک اراضی کا کل اراضی کے 30فیصد پر استحقاق ہوگا اور اس سے زائد ایریا لینے کی صورت میں وہ ریزرو قیمت دینے کا حقدار ہوگا‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ نیب کا موقف ہے کہ میرے موکل کو زائد لی جانے والی 4کنال12مرلہ اراضی کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے قیمت ادا کرنی چاہیئے تھی،جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے پراسیکیوٹر نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ عدالت کو وہ نوٹس دکھائیں کہ کیا یہ اصول ہر ایک کے لئے تھا؟

درخواست گزار کے وکیل نے26 ستمبر 1990کا ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے کا ایک حکم نامہ پڑھ کر سنایا کہ آئندہ سے استحقاق یا ملکیت سے زائد زمین کیلئے ریزرو پرائز نہیں لی جائے گی بلکہ پرائس کمیٹی کی طرف سے مقرر کی گئی قیمت وصول کی جائے گی جبکہ میرے موکل نے زائد زمین کی ادائیگی ریزرو پرائس کے حساب سے 1987 میں کی تھی۔

جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے انہیں کہا کہ آپ کے موکل نے جو رقم جمع کروائی ہے، وہ عدالت کو دکھائیں ، جس پر فاضل وکیل نے انہیں نیب کی متفرق درخواست کا متعلقہ صفحہ نمبر بتاتے ہوئے کہا کہ نیب کا دعویٰ ہے کہ میرے موکل کو اس وقت کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق رقم جمع کروانی تھی ،جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ان سے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے اسے 1990سے قبل تسلیم کیا تھا ؟ تو انہوں نے کہاکہ جی ہاں۔

انہوں نے عدالت کے ایک سوال پر بتایا کہ نیب اسی 4کنال 12مرلے کو ہی روڈ یا سڑکیں کہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 28اگست 1990کو جوہر ٹائون فیز ٹو کا ماسٹر پلان منظور ہوا تھا جبکہ میرے موکل کا معاملہ 1986کا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ میرے موکل کا کیس ہے کہ انہوں نے پالیسی کے عین مطابق 4کنال 12مرلہ کی قیمت ادا کردی تھی لیکن 34سال بعد ایک صبح چیئرمین نیب کی جانب سے طلبی کا نوٹس وصول ہوا، جس پر جسٹس قاضی امین نے کہاکہ آپ 34سال کو بھول جائیں ،جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ آج تک ایل ڈی اے سے ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کیس میں شکایت گزار ہے،لیکن نیب کا کیس ہے کہ انہوں نے دیگر سرکاری ملزمان کے ساتھ ساز باز کرکے مکمل قیمت ادا نہیں کی ہے۔ 

انہوں نے عدالت کے ایک سوال پر کہا کہ 1992میں بھی ایل ڈی اے نے صرف قیمت کی بات کی تھی ،اکٹھے پلاٹوں کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا ،صرف مارکیٹ ویلیوکے تحت ادائیگی کا ذکر تھا۔

انہوں نے کہاکہ ایل ڈی اے کے قانون کی موجودگی کے باوجود میرے موکل کو ایک فوجداری مقدمے میں ملوث کردیا گیا ہے،حالانکہ اصول ہے کہ اگر متعلقہ ادارے کا کوئی قانون ہوا تو اس کے تحت ہی کارروائی کی جاسکتی ہے،اس قانون کی موجودگی میں نیب قانون کے تحت کارروائی کا کوئی جوا ز ہی نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ میرے موکل نے 1992کے بعد انہی پلاٹوں پر ایل ڈی اے سے ہی نقشہ منظور کروایا ،گھر بنایا ،پھر تکمیل کا سرٹیفکیٹ لیا اور رہائش اختیار کی ہے لیکن کسی نے نہیں کہا کہ آپ کے ذمہ کوئی واجبات باقی ہیں، انہوں نے مزید کہاکہ ایل ڈی اے ایکٹ 1975کی دفعہ 7کے تحت اگر کسی کے کوئی واجبات بھی ہوں تو بھی کوئی فوجداری جرم نہیں بنتا ہے، جس پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ کا موکل کوئی عام آدمی نہیں ہے۔

وہ ملک میں رائے عامہ بناتے ہیں ،نیب کا کیس یہ ہے کہ اس معاملے میں آپ کے موکل نے اپنی حیثیت کا استعمال کیا ہے، انہوں نے کمرہ عدالت میں بیٹھے ہوئے صحافیوں اور اینکرز کی جانب شارہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ لوگ عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کریں مقدمات کے فیصلے عدالتوں نے کرنا ہوتے ہیں تجزیہ نگاروں نے نہیں ؟

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اراضی کے سابق مالک نے میرے موکل کو 180کنال 18مرلہ اراضی دی تھی تاہم استعمال اراضی کے بعد وہ کم ہو کر 180کنال 8مرلہ رہ گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل پرائس ایسسمنٹ کمیٹی نے جائزہ لینے کے بعد لکھا ہے کہ 1986 میں 4کنال12مرلے کی ریزرو قیمت منظور شدہ سمری اور اس زمانے کے مروجہ قواعد کے مطابق ادا کی گئی تھی۔ 

انہوں نے مزید کہاکہ ایل ڈی اے نے کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ میرے موکل نے غلط ادائیگی کی ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ اور لوگوں کو بھی ریزرو قیمت پر ہی پلاٹ الاٹ کئے گئے ہیں تو صرف درخواست گزار کے خلاف ہی کیس کیوں بنایا گیا ہے ؟

انہوں نے پراسیکیوٹر نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اس رہائشی اسکیم میں اور لوگوں نے بھی ریزرو پرائس پر زائد زمینیں خریدی ہیں، آپ نے ریزرو پرائس کی بنیاد پر اور کسی کے خلاف کیس کیوں نہیں بنائے ہیں؟جس پر انہوں نے کہاکہ درخواست گزار نے استثنیٰ پالیسی اور ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کی ہے۔

دوران سماعت فاضل وکیل نے کہا کہ استثنیٰ پالیسی تمام لوگوں کے لئے تھی ،میرے موکل کے لئے خاص طور پر نہیں بنائی گئی تھی ،بنچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے نیب کے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیاکسی اور نے بھی زائد اراضی حاصل کی ہے یا نہیں؟تو انہوں نے کہاکہ میرے علم میں نہیں ہے کہ اگر کسی نے لی ہے تو ایل ڈی اے نے اس پر کیا کارروائی کی ہے؟ 

انہوں نے عدالت کے استفسار پر بتایا کردرخواست گزار کے ذمہ 14کروڑ 35لاکھ روپے بنتے ہیں ،انہوں نے پاک پنجاب ہائوسنگ سوسائٹی کے ایک مقدمہ کی نظیر پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے قرار دیاتھا کہ اگر ملزمان رقم جمع کروادیں تو ان کی ضمانت کی درخواستیں منظور کی جاسکتی ہیں،جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جس کیس کی نظیر پیش کررہے ہیں وہ 1990کے بعد کا ہے جبکہ درخواست گزار کامعاملہ اس سے پہلے کا ہے۔ 

انہوں نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ بتائیں کہ کیا ہم اس درخواست ضمانت پر فیصلہ جاری کردیں؟ بہتر ہوگا کہ آپ درخواست ضمانت کی مخالفت نہ کریں ،جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا ہم لکھ کردیتے ہیں کہ درخواست ضمانت کی مخالفت نہیں کرتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ اگر درخواست گزار 14کروڑ 35لاکھ روپے عدالت میں جمع کروادیں ،اپنا پاسپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس سرنڈر کردیں اور ٹرائل کورٹ میں کیس کا سامنا کریں تو ہمیں ان کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ نیب کا جو ملزم بھی بیرون ملک گیا ہے واپس نہیں آیا ،انہوں نے کہاکہ درخواست گزار 12یا 10کروڑ روپے بھی جمع کروادیں تو بھی ہمیں قبول ہوگا ،جس پر فاضل عدالت نے مختصر حکم جاری کرتے ہوئے میر شکیل الرحمان کی ضمانت منظور کرنے کا اعلان کیا۔ 

تازہ ترین