• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے عمران خان ۔ سنو …سنو…۔ میری بات غور سے سنو… اس قوم نے آپ سے بہت پیار کیا ہے۔ بہت محبت کی ہے آپ سے۔ آپ جب کرکٹ کھیلتے تھے تو ایک بال پر پوری قوم کے دل دھڑکتے تھے۔ ایک ایک شاٹ پر دعائیں ہوتی تھیں۔ آپ کی تصویروں کے پوسٹر بلیک میں بکتے تھے۔ میگزینز میں ٓآپ کے انٹرویو لاکھوں کی تعداد میں چھپتے تھے۔ آپ نے ورلڈ کپ جیتا ، پوری قوم نے اس فتح کا سارا کریڈٹ آپ کو دیا۔ باقی چودہ کھلاڑیوں کا نام آج تک کسی کی زبان پر نہیں آتاہے۔ آپ ہی ہمارے ہیرو ، ہمارے فاتح قرار پائے۔ آپ نے پھر کینسر اسپتال کی مہم کا آغاز کیا۔ ہماری مائوں، بہنوں نے اپنے زیور بیچ ڈالے۔ بچوں نے اپنا جیب خر چ چندے میں دے ڈالا۔ لوگوں نے اپنی زمینیں آپ کے نام کر دیں۔کینسر اسپتال اس قوم نے بنایا اور اسکا سارا کریڈٹ آپ کو دیا۔آپکی محبت میں اپنا سب کچھ وار دیا۔پھر آپ سیاست میں آگئے۔ لوگوںکو ایک بار پھر عمران خان کی دھن لگ گئی۔ ایک نیا جذبہ ، نئی لگن پیدا ہو گئی۔ عورت ، مرد ، بچے ، بوڑھے، جوان سب نے آپکی آواز پر لبیک کہا اور دو ہزار تیرہ کا الیکشن آگیا۔ وہ جماعت جو کبھی ایک سیٹ سے زیادہ نہ جیت سکی تھی اس قوم کی محبت نے اس جماعت کو ایک بہت بڑی جماعت بنا دیا۔اسمبلی میں کمال نمائندگی دی۔ اس ملک کے عوام نے سب سے زرخیز صوبہ آپ کی جماعت کو جتوا دیا۔اب لوگوں کو امید ہوئی کہ وہ صوبہ بقعہ نور بن جائیگا۔ ملک میں درست اپوزیشن کا وجود سامنے آئیگا۔ مسائل کی نشاندہی ہو گی۔ لوگوں کی مشکلات کا حل سامنے آئے گا۔ اور دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں یہ پورا ملک آپ کے نام ہو جائے گا۔ لیکن خان صاحب آپ نے اس قوم کو اس مرحلے پر مایوس کیا۔
میرے عمران خان ۔ سنو …سنو…میری بات غور سے سنو…سیاست کرکٹ کا میدان نہیں کہ اپنی مرضی کی فیلڈ کھڑی کی اور بیٹسمین کو بائونسر سے ڈرا دھمکا کر ایک ہی یارکر سے اس کا ٹخنہ تو ڑ دیا۔ سیاست چندہ جمع کرنے کی مہم نہیں کہ ایک آواز لگائی اور سب اپنے گھروں سے جمع پونجی اٹھائے آپ کے در پر حاضر ہو گئے۔ سیاست صرف جلسہ نہیں کہ چند جوشیلے نعرے لگائے اور اپوزیشن کا کردار ادا ہو گیا۔ سیاست صرف دھرنا نہیں کہ ایک ہی بات پر مصر ہو گئے اور ایک سو چھبیس دن اسی کو دہراتے رہے۔ سیاست کوئی پریس کانفرنس نہیں کہ جس میں جوش خطابت میں بلند بانگ دعوے کر لئے، رپورٹر سے ڈانٹ پھٹکار کر لی۔ سیاست کوئی شادی نہیں کہ اچانک آج کر لی اور کل ا چانک ہی ناطہ توڑ لیا۔ سیاست کسی اسپتال کاکوئی ہنگامی دورہ نہیں کہ مریضوں کی دلجوئی کی اور عوام کی جانب ہاتھ ہلاتے ، نعروں کی گونج میں واپس لوٹ آئے۔ سیاست کوئی سانحہ نہیں کہ جس کیلئے صرف ایک تعزیتی بیان سے کام چل جائیگا۔ سیاست کوئی دھمکی نہیں کہ جس سے لوگ ڈرجائینگے۔ سیاست کوئی تماشہ نہیں کہ لوگ تالیاں بجاتے رہیں گے۔ خوشنودی کے نعرے لگاتے رہیں گے۔ بے وجہ آپ کی کارکردگی کو سراہتے رہیں گےآپ کی شخصیت کو بڑا بناتے رہیں گے۔ یقین کریں گے ہر اس بات پر جو آپ فرماتے رہیں گے۔
میرے عمران خان ۔ سنو … سنو…میری بات غور سے سنو… اس ملک کے عوام کے مسائل آپ کی لاابالی طبیعت کے مقابلے میں بہت گمبھیر ہیں۔غربت دہائیوں سے یہاں رقص کر رہی ہے۔ مفلسی کا عوام پر مدتوں سے راج ہے۔ لاقانونیت اس خطے کاخاصہ ہے۔ بے انصافی ہمیں ورثے میں ملی ہے۔تھانہ کچہری ہمارے لئے دہشت کا سبب ہے ۔ بد امنی ہماری قسمت بن گئی ہے۔ دہشت گردی کا عفریت ہمیں چاٹ رہا ہے۔ تعلیم کی زبوں حالی ہم پر ہنس رہی ہے۔ کرپشن ہمیں کھا گئی ہے۔انصاف ہمارے لئے خواب بن گیا ہے۔روزگار کے دروازے بند ہو گئے ہیں۔ دولت چند ہاتھوں میں ہی تھم گئی ہے۔ صحت عامہ کے معاملات ابتر ہو گئے ہیں۔ سرکاری اسپتال، بیماریوں کی آماہ جگاہ بن گئےہیں۔ ملکی ترقی خواب ہو گئی ہے۔پکی سڑک اور پکا اسکول بہت سے علاقوں میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ عزت کی روٹی کا حصول ناممکن ہوتا جا رہاہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے راستے میں اب بھی بہت رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ اقلیتوں کو اب بھی ان کا حق نہیں دیا جا رہا۔ بہت سے علاقوں میں خواتین کو اب بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ اختیارات کی منتقلی ضلعی حکومتوں کو اب بھی ممکن نظر نہیں آ رہی۔ عوامی نمائندے اب بھی عوامی خدمت سے بہت دور ہیں۔ خان صاحب اس ملک کے عوام کے مسائل بہت گمبھیر ہیں۔
میرے عمران خان ۔ سنو … سنو…میری بات غور سے سنو…دکھ اس قوم کو اس بات کا نہیں کہ آپ نے عوامی خواہشات کی ترجمانی نہیں کی ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ آپ کو اپنی کوتاہیوں کا احساس تک نہیں۔ سانحہ یہ نہیں کہ آپ نے عوام کے خوابوں کو توڑ کر چکنا چور کر دیا المیہ تو یہ کہ ان کرچیوں پر پائوں رکھ کر آپ گزرتے ہی رہے اور آپ کو انکے تلے دبی خواہشوں کا ملال تک نہ ہوا۔ جمہوریت صرف وزیر اعظم بننا نہیں ہے۔ قوم سے خطاب کرنا نہیں ہے۔واسکٹ کے ساتھ سفید شلوارقمیص زیب تن کرنا نہیں ہے۔ عوام کی خدمت بھی کرنا پڑتی ہے۔ مسائل کو حل کرنا پڑتا ہے۔ ان کو سننا پڑتا ہے۔ تحمل سے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ آپ سے مایوس عوام صرف خیبر پختون خوا میں نہیں یہ لوگ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کراچی میں تحریک انصاف کے ساتھ جو ہو رہا اور جو سلوک تحریک انصاف کی مقامی قیادت وہاں کے لوگوں کے ساتھ کر رہی اس کا خمیازہ آپ کو دوہزار اٹھارہ سے بہت پہلے بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پنجاب میں جن جن لوگوں کو آپ ٹکٹ تھما رہے ہیں وہ آپکے اس منشور کی نفی کرتے ہیں جس کی بنیاد پر آپ نے ووٹ لئے تھے۔ آپ کی پارٹی شکست و ریخت کا شکار ہے۔ گروپ بن رہے ہیں۔ محلاتی سازشیں ہو رہی ہیں۔ پارٹی الیکشن ایک طعنہ بن گیا ہے۔ جن لوگوں پر انٹرا پارٹی میں دھونس اور دھاندلی کا الزام لگا وہی لوگ اب ٹکٹیں تقسیم کر رہے ہیں۔ آپ کو سمجھنا ہو گا کہ خیبر پختون خوا میں کیا ہو رہا ہے۔ آپ کو وزیر اعظم کی بتی کے پیچھے لگا کر کرپشن کے کون کون سے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔منصفانہ سوچ کے لوگ آپ کو چھوڑتے جا رہے ہیں۔ حق بات کرنے والوں کی جگہ اب خوشامدی ٹولہ لے رہا ہے۔ ٹمبر مافیا آپ کو ہر جگہ ایک ارب درختوں کا نعرہ لگانے کو کہہ رہا ہے۔نیب کا سربراہ کے پی کے میں دستبردار ہو چکا ہے۔ انصاف کی امید مٹی میں مل چکی ہے
میرے عمران خان ۔ سنو …سنو… میری بات غور سے سنو… اس قوم نے آپ سے بہت پیار کیا ہے۔ اب اس قوم کیلئے کام کریں۔ خیبر پختو ن خوا کو بہتر بنائیں۔ عوام کی امنگوں پر پورا اتریں۔ اور اگر یہ سب ممکن نہیں تو بس اس قوم کی ایک درخواستہے۔ کہ فرضی وزیر اعظم بن کر اپنا مذاق نہ بنوائیں ۔ اپنے چاہنے والوں کا تمسخر نہ اڑوائیں۔
تازہ ترین