• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا دورہ پاکستان اگرچہ دونوں برادر ہمسایہ ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کے مستقل مشاورتی عمل کا حصہ ہے مگر جیو اسٹرٹیجک تبدیلیوں کے تناظر میں اس کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے بھارتی اقدامات و ریشہ دوانیوں، آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کارا باخ تنازع پر جنگ اور ترکی و روس کی مداخلت سے ہونے والے معاہدے کو دیکھا جائے یا امریکی انتخابات کے نتائج سے آنے والی تبدیلی کا جائزہ لیا جائے، تمام معاملات عالمی جغرافیائی صورتحال کے حوالے سے بھی اہمیت رکھتے ہیں اور جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سمیت خطے کے امور کے حوالے سے دوررس نتائج کے حامل بھی ہوسکتے ہیں۔ امریکی انتخابات کے بعد اکثر تھنک ٹینکس اور تجزیہ کار اس امر پر بڑی حد تک متفق ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات کے تمام راستے کابل سے ہوکر گزرتے ہیں اور پاکستان کی ایک خاص حیثیت اس کے ایٹمی قوت، افغان مفاہمتی عمل کے سہولت کار اور اقوام متحدہ کی امن کوششوں میں اہم کردار ادا کرنے والے ملک کے طور پر مسلمہ ہے، تاہم منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی پاکستان سے متعلق رائے کا تعین افغان مذاکرات کے مستقبل کے حوالے سے کلیدی اہمیت کا حامل ہوگا۔ واشنگٹن طویل عرصے سے افغانستان میں پھنسا رہا ہے اور مستقل کی حکمت عملی کا جائزہ لے رہا ہے جبکہ تہران اور اسلام آباد ہمسایہ ہونے کے حوالے سے کابل کی صورتحال سے ماضی سے متاثر ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اس تناظر میں منگل کی شام اعلیٰ سیاسی و اقتصادی ماہرین پر مشتمل وفد کے ہمراہ اسلام آباد آنے والے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے وزیراعظم عمران خان، ہم منصب شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جو علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں، وہ اس اعتبار سے یقینی طور پر نتیجہ خیز وثمر آور ہیں کہ ان میں خطے میں امن کے لئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا گیا جبکہ دیگرامور پر دیے گئے اشاروں کو چابہار اور گوادر بندر گاہوں کو ایک دوسرے کا معاون بنانے کے فیصلوں، بعض ایرانی معاملات، بھارتی اثر ونفوذ سے نکلنے اور مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی تہران کی طرف سے مضبوط حمایت کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ توہین آمیز خاکوں پر دونوں ملکوں نے اپنا یہ موقف دہرایاکہ آزادیٔ اظہار کی آڑ میں توہین آمیز رویہ قابلِ برداشت نہیں۔ ڈاکٹر ظریف سے ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں امن کو پورے خطے کے مفاد کی ضرورت قرار دیتے ہوئے پاک ایران دو طرفہ تعلقات مستحکم تر کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کوویڈ19کی وجہ سے ایران میں قیمتی جانوں کے نقصان پر تعزیت کی اور خطے میں امن، سلامتی اور ترقی کے لئے مل کر کام کرنے کی اہمیت اجاگر کی۔ معزز مہمان نے ایرانی صدر کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ دوطرفہ تعاون مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات میںپاکستانیوں کے دلوں کو چھونے والا یہ عمل دیکھنےمیں آیا کہ جواد ظریف نے مصور پاکستان علامہ اقبال ؔ کے یوم پیدائش کا کیک کاٹاجبکہ دوطرفہ تعلقات ، کثیر الجہتی شعبہ جات میں تعاون کے فروغ، کورونا کی وبائی صورتحال پرتبادلہ خیال کیا گیا۔ بہتر بارڈر مینجمنٹ اور زائرین کی سہولتوں سمیت کئی دیگر امور پر تجاویز سامنے آئیں۔ آرمی چیف سے ملاقات میں علاقائی سلامتی،افغان مفاہمتی عمل، پاک ایران سرحدی انتظام، سرحدی مارکیٹوں کے امور زیرغور آئے۔ ایران کی طرف سے رمدان کے مقام پر تجارتی مقاصد کے لئے بارڈر کراسنگ پوائنٹ بنانے کا فیصلہ سامنے آیا۔ توقع کی جانی چاہئے کہ ایرانی وزیر خارجہ کے دورے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی و تجارتی روابط بڑھیں گے اور خطے کی صورتحال پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔

تازہ ترین