• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: عالیہ کاشف عظیمی

لگ بھگ تین دہائیاں قبل ایک چار سالہ بھولے بھالے بچّے نے اپنے ماموں کی ایڈورٹائزنگ ایجینسی( ایم این جے کمیونی کیشنز )کے بینر تلے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا، پھر جوں جوں اُس بچّے کےقدم آگے بڑھتے گئے، کام یابی کے رستے بھی کُھلتے چلے گئے۔ بطور اداکار، گلوکار، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر جو بھی کام کیا، جدّت کے ساتھ کیا اور ہمیشہ کچھ نیا ہی کرکے دکھایا۔

حال ہی میں شارٹ فلموں کی سیریز پر کام شروع کیا، جس کے پلیٹ فارم سے ریلیز ہونے والی پہلی ہی فلم’’آزاد‘‘ نے پاکستان سمیت دُنیا بَھر سے کام یابیاں سمیٹیں۔ 

جی ہاں، یہ ذکر ہے، ملٹی ٹیلنٹڈ سُپر اسٹار یاسر اختر کا، جنہوں نے کئی معروف اداکار و گلوکار بھی متعارف کروائے،جیسے ہمایوں سعید، شمعون عباسی، جویریہ عباسی، طوبیٰ صدیقی، بنیتا ڈیوڈ، زارا شیخ، ارمینا رانا خان، سلمان ثاقب(مانی)شہزاد رائے، کومل رضوی اور نجم شیراز وغیرہ۔ 1996ء میں انہوں نے اپنا پروڈکشن ہاؤس"Pegasus"کے نام سے قائم کیا، جسے 2010ء میں برطانیہ سے رجسٹر کروایا، تاکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پروڈکشنز کا آغاز کیا جاسکے۔ یاسر اختر اُن چند پاکستانی فن کاروں میں شامل ہیں، جن کا پروفائل بی بی سی میوزک کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ 

وہ 2014ء میں مانچسٹر میں پاکستان قونصلیٹ کے ساتھ مل کر جشنِ آزادی کے موقعے پر’’پاکستان پریڈ‘‘ کا آغاز کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ انہیں واشنگٹن ڈی سی میں35ہزار پاکستانیوں کے سامنے’’وَن مین انڈسٹری ایوارڈ‘‘سے بھی نوازا گیا ہے۔ 

والدہ کی خواہش تھی کہ میں اسٹار بنوں
والدین کی ایک یادگار تصویر

ان کے کام یاب ڈراموں میں، دستک، تپش، خواب سُہانے، یہ جہاں، مون سون، پھر یوں ہوا، کشش اور راہیں، جب کہ گانوں میں کبھی تو ہوگا میرا ملن، چاندنی، تیرے نال دِل ملیا، پیار دیاں گلاں، جوگی، مائی لَو، سایاں، سنسنی اور ٹیک اِٹ ایزی وغیرہ شامل ہیں۔

گزشتہ دِنوں ہم نے یاسر اختر سے’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے معروف سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے بطورِ خاص بات چیت کی، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔

س: اپنے خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میری جائے پیدایش کراچی ہے۔ البتہ ننھیال کا تعلق حیدرآباد دکن،بھارت سے ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت نانا احمد عبدالجبار نے، جو ہائی کمشنر کے عُہدے پر فائز تھے، اپنے دونوں بچّوں رضوانہ(والدہ مرحومہ)اور جاوید جبّار(ماموں)کے ساتھ پاکستان ہجرت کی،جب کہ نانی وہیں رہ گئیں ۔میرے دادا محمّد شفیع کی، کراچی کے علاقے صدر میں’’محمّد شفیع اینڈ سنز‘‘ نامی ایک ڈیزائنرز شاپ تھی۔ والدصاحب بتاتے تھے کہ یہ قیامِ پاکستان کے بعد پہلی ڈیزائنرز شاپ تھی، جس نے پی آئی اے سمیت کئی سرکاری و نجی اداروں کے لیے یونی فارمز اور دیگر ملبوسات تیار کیے۔

البتہ والد محمّد اختر شفیع نے70کی دہائی میں گاڑیوں کا شوروم بنایا۔ اُس زمانے میں اکّا دکّا شوروم ہی ہوا کرتے تھے۔ والدہ مرحومہ نے ماما پارسی اسکول سے میٹرک کے بعد سینٹ جوزف کالج سے گریجویشن کیا۔انہیں لکھنے لکھانے کا شوق تھا اور کالج میگزین میں اکثران کے مضامین شایع ہوتے رہتے تھے۔ والد مرحوم نے اسلامیہ کالج سے بیچلرز کیا۔ والدین کی شادی کراچی کی یادگار شادیوں میں سے ایک تھی، جس میں سینٹ جوزف کالج سے فارغ التحصیل اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی۔ 

ہم بہن بھائیوں کی تربیت کے معاملے میں والدین نے کبھی سختی نہیں برتی، مگر کڑی نگاہ ضرور رکھی۔ رہی بات میری تعلیم کی تو مَیں نے حروفِ تہجّی کی پہچان سے لے کر کامرس گریجویشن تک تمام تعلیمی مدارج کراچی ہی سے طے کیے۔ چوں کہ ٹین ایج میں ڈائریکٹر بن گیا تھا، تو بس پھر اس سے آگے پڑھنے کا وقت ہی نہ مل سکا۔

والدہ کی خواہش تھی کہ میں اسٹار بنوں
پاکستانی برٹش ایشین میڈیا انڈسٹری کے لیے خدمات پرمانچسٹر میں کاؤنسلر سے ایوارڈ لیتے ہوئے

س: کتنے بہن بھائی ہیں، آپ کا نمبر کون سا ہے، آپس میں کیسی دوستی ہے؟

ج:ہم چار بہن بھائی تھے، مگر سب سے بڑے بھائی عامر اختر کے انتقال کے بعد ہم تین رہ گئے ہیں۔ دوسرے نمبر پر زبیر اختر ہیں،جوانٹیرئیر ڈیزائنر ہیں۔ اس کے بعد تیسرے نمبر پر مَیں اورمیرے بعد ہماری اکلوتی بہن شازیہ اختر ہیں۔

ہم بہن بھائی اگر گھر میں اکیلے ہوں توآپس میں ذرا کم ہی بات ہوتی ہے، البتہ کسی تقریب یا محفل میں ہوں تو پھر خُوب گپ شپ ہوتی ہے۔ ہم ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں، ضرورت کے وقت ساتھ نہیں چھوڑتے۔ بس، محبّت کا اظہار الفاظ میں نہیں کرسکتے۔

س: بچپن کیسا گزرا ،شرارتیں کرتے یا سنجیدہ مزاج تھے؟

ج: بچپن فلمیں دیکھتے گزرا ۔ اصل میں امّی فلمیں دیکھنے کی بےحد شوقین تھیں اور یہ اُن ہی کی خواہش تھی کہ مَیں اداکاری کروں۔ ویسے میں بچپن میں خاصاشرمیلا تھا، مگر پرفارم کرتے ہوئے کوئی دوسرا ہی یاسر سامنے آجاتا تھا۔ پھر وقت کے ساتھ سوشل ہوتا چلا گیا۔ 

اسکول، کالج میں اکثر فِری پیریڈز میں کلاس فیلوز کی فرمایش پر گانے گاتا تھا۔ ویسے کامرس کالج میں ایک مخصوص درخت تھا، جس کی چھاؤں میں مَیں گھنٹوں کھڑا رہتا ۔ ایسا نہیں کہ میرے دوست نہیں تھے، بہت تھے، مگر مجھے اکیلے رہنا اچھا لگتا تھا۔

والدہ کی خواہش تھی کہ میں اسٹار بنوں
اہلیہ اور بچّوں کے ساتھ

س: آپ نے کب اور کن حالات میں انڈسٹری میں قدم رکھا؟

ج: جب میں چار برس کا تھا تو اپنے ماموں جاوید جبّار کی ایڈورٹائزنگ ایجینسی کے توسّط سے بسکٹ کے ایک اشتہار میں کام کیا۔ یوں پہلی بار میرا کیمرے سے تعارف ہوا۔اس کے بعد اشتہارات کے مزید مواقع ملتے چلے گئے۔5 برس کا ہوا تو ماموں کی پروڈکشن میں بننے والی پہلی انگریزی فلم"Byond The Last Mountain" میں کام کیا۔جب17برس کا تھا، تو شازیہ اخترکو ڈراما’’دستک‘‘کے لیے کاسٹ کرلیا گیا، لہٰذا مجھے گھر والوں نے انہیں ریہرسل پر لے جانے اور واپس لانے کی ذمّے داری سونپ دی۔وہیں سیٹ پر میری ملاقات شہزاد خلیل مرحوم سے ہوئی۔

انہوں نے مجھے بھی اسی ڈرامے میں کام کی پیش کش کردی، جو مَیں نے بغیر کسی تردّد کے قبول کرلی۔ اس کے بعد ساحرہ کاظمی نے اپنے ڈرامے’’تپش‘‘ کے لیے کاسٹ کیا۔جب کہ پہلی بار بطور ہیرو ڈراما’’خواب سُہانے‘‘میں کام کیا۔ جن دِنوں مَیں تپش میں کام کررہا تھا، تو ساتھ ہی اپنا میوزک بینڈ’’The Arid Zone‘‘ بھی بنایا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یاسر نے جنید جمشید کی ٹکر کا بینڈ متعارف کروایا ہے۔ 

اُسی دَور میں پہلا میوزک البم ریلیز کیا، جسے بےحد شہرت ملی۔اُن ہی دِنوں جب مَیں یہ کام یابیاں سمیٹ رہا تھا، تو غضنفر علی صاحب نے مجھے پاکستان کا پہلا پاپ چارٹ شو ’’میوزک چینل چارٹ‘‘ بطور ڈائریکٹر پروڈیوس کرنے کی ذمّے داری سونپ دی۔جس کی کم از کم50اقساط ریکارڈ ہوئیں۔

اسی شو کے ذریعے مَیں نے شہزاد رائے، ندیم جعفری، فخرِ عالم، کومل رضوی اور نجم شیراز سمیت موجودہ دَور کے کئی نام وَر گلوکار متعارف کروائے۔ چوں کہ اس عرصے میں مَیں بطور ڈائریکٹر اپنی پہچان بنانے میں کام یاب ہوچُکا تھا، تو1996ء میں اہلیہ کے مشورے سے ایک پروڈکشن ہاؤس "Pegasus" قائم کیا۔ 

مجھے اس بات پر بہت فخر ہے کہ مَیں نےپی ٹی وی کے سُنہرے دَور میں نام وَر پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز کے ساتھ نہ صرف کام کیا ،بلکہ بہت کچھ سیکھا بھی۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ برطانیہ میں رہتے ہوئے مختلف گروپس جیسے سہارا، بھنگڑا اور اپاچی انڈین وغیرہ کے ساتھ مل کر کام کیا، ویڈیوز بھی بنائیں اور مختلف کنسرٹس میں اُن کے ساتھ مل کر پرفارم بھی کیا۔تو یہ ہے میرا مختصر سا سفر نامہ ،مگر …سفر ہنوزجاری ہے۔

والدہ کی خواہش تھی کہ میں اسٹار بنوں
بہن شازیہ اختر کے ساتھ خوش گوار موڈ میں

س: آپ کے پروڈکشن ہاؤس سے پہلا ڈراما کون سا ریلیز ہوا، اور فن کار کون کون سے متعارف کروائے؟

ج: پہلا ڈراما’’فرنچ ٹوسٹ‘‘تھا، جس میں ایک میوزک بینڈ کی جدوجہد دکھائی گئی تھی۔ اپنی نوعیت کے اس منفرد ڈرامے کو شائقین سے خاصی پذیرائی ملی۔ ایک ڈراما’’میرا گھر ایک ورل پول‘‘بھی خاصا مقبول ہوا۔عموماً جب کوئی ڈراما نشر ہوتا ہے، تو بریک میں اشتہارات دکھائے جاتے ہیں، لیکن ہم نے اس ڈرامے ہی میں ایک ملٹی نیشنل برانڈ کی پراڈکٹس دکھائیں۔پھر ٹپال سنیما کے زیرِ اہتمام بھی کام کیا۔ 

میری کوشش رہی کہ گھسے پٹے موضوعات سے ہٹ کر کام کروں اور اللہ کا شُکر ہے کہ اب تک جتنے تجربات کیے، کام یاب ہی ہوا۔اور مجھے جن فن کاروں کو متعارف کروانے کا اعزاز حاصل ہے، اُن میں ہمایوں سعید، شمعون عباسی، جویریہ عباسی، صنم بلوچ، ندا یاسر، زارا شیخ، ارمینا رانا خان، بنیتا ڈیوڈ، طوبیٰ صدیقی اور سلمان ثاقب(مانی) وغیرہ شامل ہیں۔

س:آپ نے کئی معروف گلوکار، اداکار متعارف کروائے،جن کی آج اپنی شناخت، نام و مقام ہے، تو کیسا محسوس ہوتا ہے اور کیا وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آج وہ جس مقام پر ہیں، آپ کی وجہ سے ہیں؟

ج:جی، ان میں سے کچھ فن کار اعتراف کرتے ہیں اور بعض نہیں بھی کرتے، مگر یقین جانیے، مجھے اس کا رتی بَھر دُکھ نہیں ۔دیکھیں ،مَیں نے کبھی کسی کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کی، کبھی یہ نہیں سوچا کہ کہیں مَیں خود پیچھے نہ رہ جاؤں۔ شاید قدرت کچھ لوگوں کا انتخاب اِسی کام کے لیے کرتی ہے۔

س: برطانیہ میں ٹی وی کے لیے فلموں کی ایک سیریز’’ملٹی نیشنل فلم‘‘کی شوٹنگز میں مصروف ہیں،اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں ؟

ج: اس سیریز کی پہلی فلم ’’آزاد‘‘ ہے، جس کی کہانی رومی زاہد نے لکھی۔ رومی، فلم ریلیز ہونے سے قبل ہی سرطان سے جنگ لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گئے۔بہرحال، ہم نے اس فلم میں بھی کئی نئے چہرے متعارف کروائے۔ جیسے عمران علی اسد،گگن چوپڑا اور حرا تحسین وغیرہ۔ لیڈنگ رول مومل شیخ نے کیا ہے، جب کہ اہلیہ نے بطور ایگزیکٹیو پروڈیوسر سپورٹ کیا۔فلم کی شوٹنگ لندن سمیت برطانیہ کے کئی شہروں میں کی گئی اور شوٹنگ کے دوران ہمیں خاصی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کبھی موسم یک دَم ہی خاصا سرد ہوجاتا تھا ، تو کبھی بارش برسنے لگتی۔

اگر چہ یہ فلم پاکستان میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ریلیز نہ ہوسکی، مگر ٹی وی اسکرینز پر لانچ کی گئی۔ دوسری فلم’’مجھ کو پتا ہے‘‘ کی کہانی بھی خاصی مختلف ہے۔ اس کی کاسٹ میں پاکستانی اداکارہ نمرہ خان، لندن کے یاسر عباس(جو نیاچہرہ ہے)، گجرات سے تعلق رکھنے والی برطانیہ کی نام وَر رقاصہ، اداکارہ منوّرما جوسی اور مَیں خود شامل ہوں۔یہ فلم نومبر کے آخر تک ریلیزکردی جائے گی، جب کہ ایک اور فلم’’رنگ، دورنگی‘‘ پاکستان میں بنانے کا ارادہ ہے، جس کی کاسٹ ابھی فائنل نہیں ہوئی۔

والدہ کی خواہش تھی کہ میں اسٹار بنوں
آزاد فلم کا ایک منظر

س: آپ کو مُلک اور بیرونِ مُلک دونوں جگہ کام کا وسیع تجربہ ہے، کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟

ج: مَیں نے کئی مُمالک میں مختلف لوکیشنز پر شوٹنگز کیں اور ہر جگہ کام کا طریقہ الگ ہی رہا، اس کے باوجود کبھی کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ میرا تو یہی ماننا ہے کہ اگر آپ ٹیلنٹڈ ہیں، تو دُنیا کے کسی بھی کونے میں کام کرسکتے ہیں۔رہی بات برطانیہ کی، تو وہ میرے لیے دوسرا پاکستان ہے کہ وہاں کی پاکستانی کمیونٹی بہت سپورٹنگ ہے۔ پھر لڑکے لڑکیوں میں ٹیلنٹ بھی بہت ہے، مگر افسوس کہ انہیں کام کے مواقع نہیں ملتے۔ اور میری یہ خواہش ہے کہ مَیں زیادہ سے زیادہ پاکستانی ٹیلنٹ متعارف کرواؤں۔

س:آپ نے متعدّد شعبوں میں کام کیا، خود اپنی کون سی پہچان اچھی لگتی ہے؟

ج:گلوکاری اور نغمہ نگاری پر عبور حاصل ہے اورمَیں پروڈیوسر بھی ہوں،مگر بطور ڈائریکٹر مجھے اپنے کام پر زیادہ عبور حاصل ہے۔

س: آپ نے خودکئی معروف پاکستانی ڈراموں میں اداکاری کی، ماضی میں اور اب نشر ہونے والے ڈراموں میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟

ج:آج کل جو ڈرامےنشر ہورہے ہیں، وہ یک سانیت کا شکار ہیں، کوئی چیلنجنگ کام نہیں ہورہا، بس ریٹنگ کی دوڑ ہے اور کچھ نہیں۔ پی ٹی وی کے سُنہرے دَور میں تخلیقی کام ہوتا تھا۔ مختلف اسٹیشنز سے نشر ہونے والے ڈراموں میں ہر لحاظ سے مقابلہ تھا کہ کس ڈرامےکی کہانی، ڈائریکشن اچھی ہے،کون سا فن کار زیادہ اچھا کام رہا ہے۔ اب تو 50فی صد کمرشلز کے لیے کام ہورہا ہے۔ 

پہلے ڈائریکٹر کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا تھا، مگر اب ڈائریکٹر، پروڈیوسر کی ہدایت کے مطابق کام کرتا ہے۔ ریہرسل کا تصوّر ختم ہوچُکا ہے۔ اسکرپٹ تیار ہوتا ہے اور اس ڈیمانڈ کے ساتھ ڈائریکٹر تلاش کیا جاتا ہے کہ ایک ہی دِن شادی، موت سمیت مختلف نوعیت کے سین شُوٹ کرنے ہیں۔اب جوایک ہی دِن میں 12سے14سین شوٹ کرلے، تو اُسی کا سکّہ چلتا ہے۔ تو بھلا ایسی فضا میں تخلیقی کام کہاں پنپ سکتا ہے۔

س:آپ خود کو ’’شرارتی ڈائریکٹر‘‘ کہتے ہیں، اس کی کوئی خاص وجہ؟

ج:اصل میں مجھے سرپرائز دینا اچھا لگتا ہے، لوگ جو کام کرنے کا تصوّر نہیں کرتے، مَیں وہ کرکے دکھا دیتا ہوں۔تو بس اسی لیے خود کو شرارتی ڈائریکٹر کہتا ہوں۔

س:میوزک انڈسٹری میں کچھ بہتری دیکھ رہے ہیں یا…؟

ج: میوزک انڈسٹری میں بہتری اس لیے نہیں آرہی ہے کہ چینل مالکان کے دِل تنگ ہوگئے ہیں، اب کام کو صرف کمرشل ازم کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔آسان الفاظ میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ اس وقت پاکستان میوزک چینلز کی شرائط مشکل ہوگئی ہیں۔ اگر ان شرائط میں ذرا نرمی برتی جائے تو بہتری آسکتی ہے،ورنہ جمود ہی طاری رہے گا۔

س2019ء میں ایک سیاسی گانا بھی کمپوز کرنا چاہ رہے تھے، تو اس کی وجہ کیا تھی؟

ج: 1995ء میں’’گاڑی بَھر کے‘‘گانا ریلیز کیا ، جس میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی عکّاسی کی گئی، جو طاقت کے زور پر کام کرواتی تھی۔2019ء میں بھی سوچا تھا کہ کسی سیاسی گانے پر کام کروں گا، مگر اب امّی کے انتقال کے بعد اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ارادہ ہے۔اس سے قبل بڑے بھائی کے انتقال پر ایک نعت’’السلامُ علیکم یا نبیﷺ‘‘ ریکارڈ کرکے اُنہیں ڈیڈیکیٹ کرچُکا ہوں۔ 

س: آپ کی بہن شازیہ اختر نے ’’دستک‘‘ ڈرامے میں کمال اداکاری کی، پھر شوبز سے کنارہ کشی اختیار کرلی، کیوں؟

ج: شازیہ نے دستک ڈرامے کے بعد ٹیلی فلم’’تتلی‘‘سمیت کئی سیریلز، اشتہارات میں کام کیا۔ پھر اُن کی شادی میرے فرسٹ کزن ایاز نائیک سے ہوگئی، جو زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ جب شازیہ اس فیز سے باہر نکلیں، تو والدہ علیل ہوگئیں۔ سو، والدہ کی خدمت کے لیے وہ شوبز انڈسٹری ہی نہیں، تقریباً ہرسوشل ایکٹی ویٹی سے کنارہ کش ہوگئیں۔

حال ہی میں ہم اپنی والدہ کے شفیق سائے سے محروم ہوئے ہیں اور یہ صدمہ ہم سب کے لیے بہت گہرا ہے،جس نے ہمیں توڑ کررکھ دیا ہے، خصوصاً شازیہ کے لیے کہ وہ ہمہ وقت والدہ کے ساتھ رہتی تھیں۔ میرا ارادہ ہے کہ شازیہ کو ذہنی طور پر مصروف، پُرسکون رکھنے کے لیے دوبارہ فیلڈ میں لاؤں اور اُمید ہے کہ پرستار جلد ہی اُنہیں اسکرین پر دیکھیں گے۔

س: شادی اپنی پسند سے کی یا…؟

ج: مَیں نے والدہ کی پسند سے شادی کی۔ والدہ نے لبنیٰ کو دیکھا نہیں تھا، مگر ان کی آواز اس قدر بھائی کہ میری دلہن بنانے کا ارادہ کرلیا۔ اصل میں جن دِنوں مَیں میوزک چینل چارٹ شو کررہا تھا، لبنیٰ ایک میگزین کے لیے لکھتی تھیں۔ 

میرا انٹرویو کرنے کے لیے انہوں نےکئی بار مجھ سے فون پر رابطے کی کوشش کی، مگر ہر بار والدہ ہی سے بات ہوجاتی تھی۔بہرحال ،لبنیٰ نے میرا انٹرویو کیا اور والدہ نے اُن کا۔ یوں والدہ کے بےحد اصرار پر ماموں باقاعدہ طور پر لبنیٰ کے والد آفتاب جاوید کے گھر، جو اسکواش کے چمپیئن رہ چُکے ہیں، رشتہ لے کر گئے۔اور ہم رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔

س:اہلیہ سے متعلق کچھ بتائیں؟ اُن سے ذہنی ہم آہنگی کس قدر ہے؟

ج:لبنیٰ نے برطانیہ سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا، جس کے بعد وہیں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئیں۔آج کل کووڈ-19کی وجہ سے آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری ہے۔ 

وہ اپنے شوق کی خاطر کیک بیکنگ بھی کررہی ہیں۔ میری پروڈکشن کمپنی کی ایگزیکٹیو پروڈیوسر بھی ہیں۔ لبنیٰ مضبوط اعصاب کی مالک ہیں۔ ویسے ہم دوستوں کی طرح رہتے ہیں، مگر وہ میری باس ہیں۔

س:بچّوں سے متعلق بھی کچھ شئیر کریں؟

ج: بڑے بیٹے کا نام زریاب اختر ہے،جس نے حال ہی میں گریجویشن کا امتحان دیا ہے۔ بیٹی علیزے یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم ہے اور دونوں ہی کو شوبز سے کوئی دِل چسپی نہیں۔

س: سُنا ہے آپ کو غصّہ بہت آتا ہے، عموماً وجہ کیا ہوتی ہے اور ردِّعمل کیسے دیتے ہیں؟

ج: مجھے غصّہ کم ہی آتا ہے، مگر جب آتا ہے، تو لہجہ سخت اور آواز بُلند ہوجاتی ہے۔دراصل مجھے جھوٹ اور بے ایمانی سے سخت نفرت ہے اور یہی باتیں غصّے کی وجہ بنتی ہیں۔

س:شہرت نے مغرور کردیا یا منکسر المزاج ہیں؟

ج: سچ تو یہ ہے کہ مجھے جتنی شہرت، عزّت ملی، اُتنا ہی سَر جھکتا چلا گیا۔ ہزاروں کے ہجوم میں پرفارم کیا،بہت محبّتیں ملیں، مگر رب کا احسان ہے کہ کبھی کسی بات کا غرور نہیں کیا۔

س: تنقید کے کس حد تک قائل ہیں؟

ج: دیکھیں،میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی آپ کے سامنے آپ پر تنقید کررہا ہے، تو حقیقتاً وہ آپ کا خیر خواہ ہے کہ پیٹھ پیچھے تو بُرائی ہی کی جاتی ہے، تنقید نہیں۔

س: کبھی اُداس بھی ہوجاتے ہیں یا یوں ہی ہنستے مُسکراتے رہتے ہیں؟اور اس خوش مزاجی کا راز کیا ہے؟

ج: مجھے میرے ذاتی معاملات کبھی اُداس نہیں کرتے، ہمیشہ مُسکراہٹیں ہی بکھیرتا رہتا ہوں کہ یہ سنّتِ رسولﷺاور صدقۂ جاریہ ہے۔ہاں بس بھوک، افلاس، ظلم و ستم دیکھ کر دِل ضرور افسردہ ہوجاتا ہے، تب چارہ سازی کی سعی کرتا ہوں۔

س:اگر کبھی شوبز انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑی تو کیا کریں گے؟

ج:شوبز انڈسٹری سے کنارہ کش ہوہی نہیں سکتا کہ یہی میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔

س: زندگی کا کوئی یادگار لمحہ؟

ج: جب مجھے’’وَن مین انڈسٹری ایوارڈ‘‘سے نوازا گیا ۔

س: کوئی ایسا لمحہ ،جب لگا کہ زندگی بدل گئی ہے؟

ج: 1985ء میں برین ٹیومر سے جنگ لڑتے ہوئے جب والد صاحب کا انتقال ہوگیا، تو زندگی یک دَم ہی بدل گئی تھی۔

س: ستارہ کون سا ہے، سال گِرہ مناتے ہیں؟

ج: 23نومبر1972ء تاریخِ پیدایش ہے، تو میرا ستارہ قوس ہے۔ مَیں فیملی اور دوستوں کی پُر زور خواہش پر سال گِرہ ضرور مناتا ہوں۔(جنگ، سنڈے میگزین کی طرف سے سال گِرہ مبارک ہو)۔

س: سیاست سے دِل چسپی ہے؟

ج: ہاں، جب کامیڈی شو دیکھنا ہو، تو نیوز چینل لگا لیتا ہوں۔

س:زندگی سے کیا سیکھا اورزندگی کا کون سا دَور سب سے اچھا لگتا ہے؟

ج:زندگی سے تو سیکھ ہی رہا ہوں۔ رہی بات دَور کی، تو اپنا ’’آج‘‘ اچھا لگتا ہے کہ وہی سب کچھ ہے۔

س:کام یاب زندگی گزارنے کا سُنہرا اصول، آپ کے نزدیک کیا ہے؟

ج: نیک نیّت، محنت، صبر اور عبادت، کام یاب زندگی کے سُنہرے اصول ہیں۔

س: آپ کی کوئی انفرادیت، اپنی شخصیت کو ایک جملے میں بیان کریں؟

ج: کسی ڈر و خوف کے بغیر دوسروں کو آگے بڑھنے کا موقع دینا۔

س: اپنے پرستاروں، خصوصاً نوجوان طبقے کے لیے کوئی پیغام؟

ج: مَیں یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ اللہ نے آپ کو جس صلاحیت سے نوازا ہے، اُسی فیلڈ میں کام کریں۔ ترقّی یا تنزّلی اللہ کے ہاتھ میں ہے، آپ کا کام صرف خُوب دِل لگا کے محنت کرنا ہے۔

تازہ ترین