گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں جہاں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی ساکھ دائو پر لگی ہوئی تھی پاکستان تحریک انصاف نے میدان مار کر اِس روایت کو زندہ رکھا جس کے تحت آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں وہی پارٹی فتح یاب ہوتی ہے جو وفاق میں حکومت کر رہی ہوتی ہے اگرچہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے بڑے بڑے جلسوں نے اِن دونوں پارٹیوں کے لئے بھی امید کے دیے روشن کئے تھے مگر وزیراعظم عمران خان کا ایک دورہ اور وفاقی وزرأ کے عوامی اجتماعات سے خطابات کام کر گئے اور پی ٹی آئی ان سے بازی لے گئی۔ پولنگ کے روز شدید بارش اور برفباری کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے نتائج موصول نہیں ہوئے اب تک موصول ہونے والے نتائج کے تحت پی ٹی آئی نے قانون ساز اسمبلی کی 24میں سے جن 23نشستوں پر پولنگ ہوئی اِن میں سے 9نشستیں جیت لی ہیں ایک نشست ان کی اتحادی پارٹی ایم ڈبلیو ایم کے حصہ میں آئی جبکہ سات نشستیں آزاد امیدواروں نے حاصل کر لی ہیں۔ پیپلزپارٹی کو چار جبکہ مسلم لیگ ن کو دو سیٹیں مل سکیں۔ اِس طرح تحریک انصاف اپنے اتحادیوں اور آزاد ارکان کی حمایت سے بآسانی حکومت بنا سکے گی۔ گلگت بلتستان میں یہ تیسرے عام انتخابات ہیں، پہلے دو انتخابات بالترتیب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے جیتے تھے مگر اِس مرتبہ پاکستان کی تینوں بڑی پارٹیوں کی بھرپور انتخابی مہم نے اِن کی اہمیت دو چند کردی اور عوام میں موسم کی شدت کے باوجود زبردست جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ ووٹنگ پُرامن رہی اور ٹرن آئوٹ50فیصد سے زیادہ رہا۔ لڑائی جھگڑوں کے دو واقعات اسکردو اور دیامیر میں پیش آئے مگر یہ پولنگ مکمل ہونے کے بعد رونما ہوئے ووٹروں کی تعداد سات لاکھ سے زائد تھی۔ ان میں سوا لاکھ وہ تھے جو پہلی مرتبہ ووٹر بنے۔ خواتین نے بھی ووٹنگ میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ بھرپور شرکت کی۔ ووٹروں کی تعداد میں اضافہ اور خواتین کی غیر معمولی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ علاقے کے لوگ اپنے حقوق اور شہری سہولتوں کے لئے کتنے ترس رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے حسب روایت حکومت پر شدید دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں جبکہ پی ٹی آئی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ یہ دراصل عوام کی طرف سے مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کے بیانیے کو مسترد کرنے کا عملی اظہار ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے بھی دھاندلی کے الزامات بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹوں کی گنتی پولنگ ایجنٹوں کے سامنے شفاف طریقے سے ہوئی پھر بھی کسی کو شکایت ہے تو بیان بازی کی بجائے الیکشن کمیشن سے رجوع کرے۔ گلگت بلتستان ایک حساس علاقہ ہے تقسیم ہند سے پہلے یہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا جس نے ڈوگرہ راج کے خلاف جنگ لڑکر آزادی حاصل کی۔ جموں و کشمیر کا تنازعہ ابھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تصفیہ طلب ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو غیرقانونی طور پر ضم کر لیا ہے جس کے خلاف کشمیری عوام جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ایسے میں گلگت بلتستان کے معاملے پر سنجیدہ سوچ بچار کی ضرورت ہے کہ کہیں دنیا ہمیں بھی بھارت کی صف میں نہ کھڑا کردے اس لئے ایک تو گلگت بلتستان کے انتخابات کو متنازع بنا کر دشمن کو سیاسی فائدہ اٹھانے نہیں دینا چاہئے۔ دوسرے 29ہزار مربع میل کے اس وسیع و عریض دشوار گزار اور انتہائی پسماندہ علاقے کے عوام کے مسائل پر پوری توجہ دے کر اسے ملک کے دوسرے حصوں کے برابر لانے کی جامع منصوبہ بندی کی جانی چاہئے۔ یہ علاقہ سی پیک کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اسٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے اس کی ترقی پر توجہ بھی زیادہ دینی چاہئے۔