• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشرے میں بڑھتی عدم برادشت دیکھ کرخوش ہوں والد زندہ نہیں ہیں، منیزہ ہاشمی

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)دنیا بھر میں فیض کی شاعری کو آج بھی سراہا جاتا ہے۔ انہیں اپنی اسی خوبصورت شاعری کے لیے مختلف انعامات سے بھی نوازا گیا جس میں نشانہ امتیاز اور لینن پیس ایوارڈ بھی شامل ہے۔فیض کی انقلابی شاعری نے جہاں مختلف ادوار میں چلنے والی بیشتر تحریکوں مں روح پھونکی وہیں عوام میں انقلابی جذبات ابھارنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔یہاں تک کہ اب تو ہمسایہ ملک بھارت کے طالب علم بھی اپنی تحریکوں میں فیض کا کلام پڑھ کر روح گرماتے ہیں۔فیض احمد فیض 20نومبر 1984کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی چھوٹی بیٹی منیزہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ وہ آج بھی اپنے والد کے لمس کو محسوس کر سکتی ہیں۔ ’میری ایک ہی شکایت ان سے رہی اور ان کے جانے کے 36 برس بعد بھی مجھے وہی شکایت ان سے ہے کہ میں نے انہیں بہت کم دیکھا اور ان کے ساتھ بہت کم وقت گزارا۔’فیض احمد فیض کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ اپنے وقت سے آگے کے انسان تھے۔ لوگ بھی جب ان سے ہنس کر پوچھتے تھے کہ یہ کلام تو آپ نے 1956 میں لکھا تھا اور اب تو 1970 ہے۔ یہ تو لگتا ہے کہ آج ہی لکھا ہے تو وہ ہنس کر کہتے تھے ’تم لوگ اپنے حالات ہی نہیں بدلتے، ہم نے تو لکھ دیا سو لکھ دیا۔‘منیزہ ہاشمی کہتی ہیں کہ وہ تو اب اکثر بہت سنجیدگی سے یہ بات سوچتی ہیں کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ان کے والد اس وقت زندہ نہیں ہیں۔’ایک آدمی جو اتنا پرامن ہو، انسانیت کی بات کرے، پیار کی بات کرے، حقوق کی بات کرے اور کوشش کرے کہ لوگ ایک دوسرے کی بات سنیں، تو میرے خیال میں انہیں ان وقتوں میں بہت تکلیف ہونی تھی جب معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہو چکا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ہم نے پورا ارادہ کر لیا ہے کہ 12 سے 14 فروری 2021، فیض فاؤنڈیشن، گلوبل فیض میلہ آن لائن کرنے جا رہا ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، گھر بیٹھ کر اس میلے میں شرکت کر سکیں گے۔ اس میلے کے ذریعے فیض کا پیغام پوری دنیا تک مزید پھیلے گا اور اس کے ذریعے ہم آپ کو امید کا پیغام دیتے رہیں گے۔

تازہ ترین