• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے بدھ کے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو، عالمی اقتصادی فورم سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بات چیت کے دوران متعدد امور پر اظہار خیال کیا جن میں عالمی وباء کورونا کی نئی لہر سے پیدا ہونے والے چیلنجز کو خاص اہمیت حاصل ہے جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)، خارجہ حکمت عملی اور لاہور اور کراچی کو گنجان آبادی کے مسائل سے پیدا ہونے والے سنگین مسائل سے بچانے کے منصوبے (راوی ریور ڈیولپمنٹ پراجیکٹ اور بنڈل آئی لینڈ) سمیت کئی موضوعات شامل ہیں۔ اِس وقت پوری دنیا کو کورونا کی جس نئی طاقتور اور خطرناک لہر کا سامنا ہے اس سے بچائو کیلئے اگرچہ کئی مقامات سے ویکسین کی تیاری کی خبریں آئی ہیں مگر تریاق کے سامنے آنے اور زیر استعمال آنے میں ابھی وقت درکار ہے۔ اِس لئے برطانیہ میں پورا لاک ڈائون کردیا گیا ہے، یورپ سمیت کرہ ارض کے متعدد علاقوں میں احتیاطی تدابیر پر عمل جاری ہے جبکہ بعض مقامات پر درمیانی وقفوں کے ساتھ تیسری اور چوتھی بار کورونا کا حملہ ہوا ہے جس سے ایک طرف انسانی جانوں کا اتلاف ہورہا ہے دوسری جانب عالمی معیشت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ اسی لئے ہر جگہ کورونا سے بچائو کی تدابیر پر خاص زور دیا جارہا ہے۔ امریکہ کے نومنتخب صدر جوبائیڈن نے بھی اپنی ترجیحات میں اسے اولین مقام دیا ہے۔ پاکستان کیلئے اس معاملے کی سنگینی اِس لئے بڑھ جاتی ہے کہ اس کے پاس نہ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح ایسے معاشی وسائل ہیں جو کاروبار کی بندش سمیت مکمل لاک ڈائون کا بوجھ سنبھال سکیں نہ ہی ایسی سہولتیں موجود ہیں جو مریضوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے کی صورت میں بروئے کار لائی جاسکیں۔ چنانچہ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپیل کی ہے کہ جس طرح کورونا کی پہلی لہر کے دوران احتیاطی تدابیر پر عمل کیا گیا اسی طرح اس بار بھی عمل کیا جائے۔ کورونا کیسز اور اموات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، ہم یورپ اور دیگر ممالک کی طرح فیکٹریاں اور کاروبار بند کرکے یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ لوگ بھوک سے نذر اجل ہو جائیں۔ کورونا سے بچائو کی تدابیر میں بھیڑ بھاڑ سے گریز اور سماجی فاصلے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور پچھلے عرصے کے دوران کئی اہم شخصیات نے ازخود سماجی تنہائی اختیار کرکے جو انفرادی مثالیں قائم کیں ان کی عام لوگوں کو بھی تلقین کی جانی چاہئے۔ وزیراعظم نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو بیروزگاری سے اور کاروباری طبقے کو مالی مشکلات سے بچانے کے لئے جو مثبت یقین دہانیاں کرائی ہیں اُن کا اسی مثبت انداز میں جواب دیا جانا چاہئے۔ تاہم حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شاپس اور کاروباری مراکز کھولنے کے اوقات کار کے تعین میں عملی حقیقتوں کو ملحوظ رکھے۔ وزیراعظم نے لاہور اور کراچی کے پھیلائو کے تناظر میں سنگین تر ہوتے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ راوی ریور اور بنڈل آئی لینڈ منصوبوں کا مقصد ان شہروں کو بچانا ہے۔ خارجہ حکمت ِعملی کی کامیابی کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر پاکستان آج جتنا قابل قبول ہے اتنا ماضی میں کبھی نہیں تھا۔ عالمی اقتصادی فورم سے وڈیو لنک خطاب میں وزیراعظم نے سی پیک کو ملکوں کے درمیان روابط کے فروغ کا منصوبہ قرار دیا اور بتایا کہ دوسرے مرحلے میں اقتصادی زونز کے قیام اور ریلوے کی اپ گریڈنگ پر توجہ دی جارہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت مستحکم اور درست سمت میں گامزن ہے۔ زرعی ترقی اور گورننس کا نظام بہتر بنانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ ان سب باتوں کے اہمیت یقیناً مسلم ہے مگر کیا ہی اچھا ہو کہ کورونا کی نئی لہر سمیت اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ کی کوششیں بارآور ہوں۔ حکومت اِس ضمن میں ’’این آر او‘‘ کے تاثر سے بچتے ہوئے بھی پہل کاری کرسکتی ہے۔ اِس طرح پارلیمان کی کارروائی سمیت اہم معاملات میں زیادہ درستی لائی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین