• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سال گندم برآمد، رواں برس درآمد میں تاخیر سے اربوں کا نقصان


کراچی (ٹی وی رپورٹ) پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ میں تجزیہ دیتے ہوئے میزبان شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ گزشتہ سال گندم برآمدکرکےاور رواں برس درآمد میں تاخیر سے اربوں روپے کا نقصان ہوا۔

وزیراعظم کو وزراء اب بھی نامکمل اور غلط معلومات دے رہے ہیں تاکہ 225ارب روپے کے گندم میں نقصان ،185ارب سے زائد کا چینی میں نقصان اوراس سال گندم چینی اورکپاس کی مد میں4ارب ڈالر زکی متوقع درآمدات میں ضائع ہونے کا وزیراعظم ان سے سوال نہ کریں اوران کا احتساب نہ کریں اوراحتساب نہیں ہوگا تو خدشہ ہے کہ جو بحران گزشتہ دو برس میں آیا وہ کہیں تیسرے برس بھی نہ آجائے۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق اسپیشل پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے کہا کہ ایک بار جب اگر کسی ملزم کی ضمانت ہوجائے تو پھر گرفتاری کیلئے اس کی ضمانت منسوخ کرانا ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ نیب شریف خاندان کیخلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنانا چاہ رہا ہے، مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے کہا کہ لاہور جلسہ ہر حال میں ہوگا۔ 

تفصیلات کے مطابق جیو کے پروگرام میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم عوا م اور وزیراعظم کے سامنے حقائق رکھتے ہیں لیکن وزرا اور معاونین خصوصی ہم پر ہی الزام لگا دیتے ہیں اور پھر ہمارے حقائق درست ثابت ہوجاتے ہیں۔

ہم کہتے رہے ہیں کہ وزرا ور معاونین خصوصی وزیراعظم کو غلط معلومات دے رہے ہیں،وہ اپنے فیصلوں سے ملک کا مالی اور وزیراعظم کا سیاسی نقصان کررہے ہیں چینی ،گندم ،ایل این جی میں 550ارب سے زائد کا نقصان ہم اس پروگرام کے ذریعے عوام کے سامنے رکھ چکے ہیں۔

ہم باربار کہہ چکے ہیں کہ چینی اور گندم وقت پر درآمد نہیں کی جائے گی تو بحران پیدا ہوگاجس سے نقصان ہوگا اور پھرایسا ہوا مگر وزیراعظم کے معاونین خصوصی شہبازگل نے کہہ دیا کہ کورونا کی وجہ سے چینی اورگندم درآمد نہیں کرسکتے تھے۔ 

شہبازگل صاحب کا یہ میدان نہیں انہیں معلوم نہیں کہ مصر اور اردن نے ریکارڈ درآمد کی اور اپنے ملک و عوام کو بحران سے بچایا ۔ہم پر حملے کئے گئے مگر پھر وزیراعظم نے مان لیا کہ بحران کی ایک وجہ گندم دیر سے درآمد کرنا تھی ۔ 

کبھی کہا جاتا ہے کہ بارشوں کی وجہ سے فصلیں خراب ہوئیں اور بحران آیا کبھی غلط اعدادوشماردے کر کہا جاتا ہے کہ ابھی درآمد کی ضرورت نہیں ہے گزشتہ سال وقت پر گندم کی برآمدات نہ روکنے کی وجہ سے بحران آیا اور اس سال وقت پر گندم درآمد نہ کرنے کی وجہ سے بحران آیا ۔

گزشتہ سال حکومتی دعوے کے مطابق گندم کی پیداوار بارش سے متاثر ہوئی مگر پھر بھی پیداواراور اسٹاک اتنا تھا کہ ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ گندم تھی گندم کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ملک میں 24.4ملین ٹن گندم کی پیدوار ہوئی جبکہ پچھلے سال کا اسٹاک 3.7ملین ٹن تھا یعنی 28.2ملین ٹن گندم ملک میں موجود تھی جبکہ ضرورت 26.9ملین ٹن کی تھی یعنی لاکھوں ٹن اضافی گندم موجود تھی۔ 

اب سوال یہ ہے کہ گندم ضرورت سے زیادہ تھی تو بحرا ن کیوں پیدا ہوا اس کی وجہ بھی گندم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بتائی رپورٹ کے مطابق ملک کی پیداوار اورزخائرپانچ سال کی کم ترین سطح پر تھے صورتحال کو دیکھ کر جارحانہ procurementکی جاتی اورہدف حاصل کیا جاتا۔ 

حکومت خود زیادہ گندم خریدتی مگر حصولی 35فیصد کم ہوئی اور یہاں سے بحران کا آغاز ہوا وزارت خوراک کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبوں سے سپورٹ پرائزکے حوالے سے مشاورت کرے اورحصولی کا ہدف مقرر کرے اورنگرانی کرے کہ صوبے ہدف حاصل کرپارہے ہیں یا نہیں ملک بھر میں گندم کے ذخائر پر نظر رکھے۔

گزشتہ سال کے مقابلے میں بارہ لاکھ ٹن گندم کم پیدا ہوئی اس حوالے سے وزارت خوراک کی ذمہ داری تھی کہ وہ خبردار کرتی اوروفاقی حکومت کو کہتی کہ وہ فوری طور پر اقدامات کرے کمیٹی نے لکھا کہ ماضی میں گندم اس وقت بر آمد کی جاتی رہی ہے جب گندم کا اسٹا ک سرپلس ہوتاہے تاکہ ملک میں فارن ایکسچینج آئے اور ذاتی ذخیرہ بھی نکل جائے اورنئی پیداوار کی جگہ بن سکے۔

نومبر 2018میں وزارت خوراک نے ای سی سی کو کہا کہ گندم برآمد کرنے کی اجازت دی جائے جس کی وجہ بتائی گئی کہ اسٹاک زیادہ ہے اورگندم خراب ہونے کا خدشہ ہے وزارت نے امید ظاہر کی کہ آئندہ سال بمپر فصل ہوگی اس لئے بر آمد کی اجازت دی جائے۔

تازہ ترین