• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایرانی سائنسدان پر حملہ، اسرائیل کی بائیڈن کو حملے کیلئے اکسانے کی سازش

کراچی (نیوز ڈیسک) امریکی میرین کور کے سابق انٹیلی جنس افسر اسکاٹ ریٹر کا کہنا ہے کہ ایران میں سینئر جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کا قتل اسرائیل کی چال ہو سکتی ہے تاکہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کیلئے ایران کے ساتھ سفارت کاری کا راستہ بند کیا جا سکے اور اس کے جوہری عزائم سے نمٹنے کیلئے جنگ کا راستہ اختیار کیا جا سکے۔ تاہم، دیکھنا یہ ہے کہ جو بائیڈن کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے وقت امریکا کے صدر بارک اوباما اور نائب صدر جو بائیڈن تھے۔ غیر ملکی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں اسکاٹ ریٹر کہتے ہیں کہ محسن فخری زادہ ایران کی پاسدارانِ انقلاب میں بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر تعینات تھے اور ایرانی قومی سلامتی کے نصابی پہلوئوں پر کام کرتے تھے اور ساتھ ہی ایران کے فزکس ریسرچ سینٹر کے سربراہ بھی تھے جہاں انہوں نے ایران کے جوہری افزودگی کی کوششوں میں ساز و سامان کی خریداری و تیاری کے ماسٹر مائنڈ کا کردار ادا کیا۔ ماضی میں دیکھیں تو اپریل 2018ء میں اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے فخری زادہ کو ایران کی خفیہ فوجی پروگرام کا سربراہ قرار دیا تھا تاہم ایران نے اس کی تردید کی تھی۔ اُس کے بعد 28؍ نومبر 2020؍ کو فخری زادہ کو دارالحکومت تہران میں قتل کر دیا گیا۔ اگرچہ اس قتل کی ذمہ داری اب تک کسی نے قبول نہیں کی لیکن ایران نے اسرائیل کو قصور وار قرار دیا ہے۔ رواں سال جون میں، امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ محسن فخری زادہ نے جوہری پروگرام کے دہرے استعمال (سویلین اور عسکری) کی تکنیک اختیار کرنے کیلئے ایران کے جوہری ہتھیاروں پر کام کرنے والے سابقہ سائسندانوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں تاکہ ایسی ٹیکنالوجی تیار کی جا سکے کہ مستقبل میں اگر ایران کو معطل کردہ کام دوبارہ شروع کرنا پڑے تو آسانی سے پیشرفت کی جا سکے۔ مئی 2019ء میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تو ایران نے بھی معاہدے کے تحت اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع کیا اور اس مقصد کیلئے اس نے معاہدے کی شق نمبر 26؍ اور 36؍ کا حوالہ دیا جس کے مطابق یہ طے ہوا تھا کہ معاہدے میں شامل کوئی بھی فریق اگر اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹے گا دوسرے فریق پر بھی معاہدے یا اس کی شقوں پر عمل لازم نہیں ہوگا۔ ایران کا کہنا ہے کہ امریکا کے دستبردار ہونے کے بعد یورپ کی جانب سے معاہدے پر عمل نہ کرنا ہی ایران کیلئے پیچھے ہٹنے کا سبب بنا۔ اگرچہ ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل کی انٹیلی جنس معلومات ایسے ذرائع سے حاصل کردہ ہیں جن کی ساکھ پر سوالات اٹھ سکتے ہیں اور یہ غیر نتیجہ قسم کے ذرائع اور رپورٹس ہیں، لیکن ان سب کے باوجود اسرائیل نے تمام باتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایران پر ’’گھونسے برسانے‘‘ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ایسا کرکے وہ اپنے ’’مشکوک‘‘ ذرائع کی رپورٹس کو ’’اچھی ساکھ‘‘ کا ثابت کر رہا ہے۔ بصورت دیگر یہ ذرائع اور رپورٹس ایسے ہیں جنہیں دراز کے آخری کونے میں ڈالنا چاہئے۔ اپنی کوششوں کیلئے حمایت حاصل کرنے کی خاطر اسرائیل نے ہر چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے، حتیٰ کہ ایران کیخلاف انٹیلی جنس کے معاملے میں اس کی کئی باتیں من گھڑت بھی ہیں۔ حتیٰ کہ 2018ء کے اوائل میں جب اسرائیل نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس کے انٹیلی جنس ذرائع نے ایران سے جوہری معلومات پر مشتمل دستاویزات چوری کی ہیں تو بعد میں یہ ثابت ہوا تھا کہ جن دستاویزات کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہ ایرانی ٹھکانے سے چوری کی گئی تھیں وہ اصل میں اسرائیلی دستاویزات ہی تھیں جنہیں چھیڑ چھاڑ کرکے ایرانی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

تازہ ترین