• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمالی نصف کرۂ ارض میں سرد موسم تیزی سے آرہا ہے اور تحقیق کار تنبیہ کررہے ہیں کہ کووڈ 19 کی وبا ء کی موجودہ صورت ِحال ان ملکوں کے لیے مزید نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔جہاں وائرس کا پھیلائو کنٹرول نہیں کیا گیا ہے ۔کیلی فور نیامیں قائم اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے مائیکرو بایو لوجسٹ ڈیو ڈر یلمان کے مطابق مستقبل میں کوروناوائرس بڑھنےکے آثاربہت زیادہ ہیں۔ انفلو ئینز اور نظام تنفس کی وہ تمام بیماریاں جن کی وجہ کورونا وائرس ہے۔

سردی کے موسم میں مزید بڑھتی ہے اور بہار میں انتہائی کم ہوجاتی ہے ۔ محققین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ کیا کووڈ 19 بھی سارس کوو 2 کی طر ح موسمی وائرس بن جائے گا۔

البتہ یہ پھیل بہت تیزی سے رہا ہے ۔موسم کی تھوڑی سی تبدیلی بھی سردی میں وبا میں اضافے کا باعث ہوگی ۔یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وائرس کس طر ح پھیلتا ہے اور سرد موسم کے مہینوں میں لوگوں کا طرز عمل اور رویوں میں تبدیلی اس کو کیسے بڑھا سکتی ہے ۔ ہارورڈ میڈیکل اسکو ل کے میتھے میٹکس کی ما ہر مارو سیو سینٹیلا کا کہنا ہے کہ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ لوگ سردی میں سر گرمیاں بند جگہوں میں کرتے ہیں ،جس میں ہوا کی آمدورفت کا منا سب انتظام نہیں ہو تا اور وائرس کا ایک دوسرے کو منتقلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔

پرنسٹن یونیورسٹی نیو جرسی میں وبائی بیماریوں کی ماہر راچیل بیکر کے مطابق لوگوں کو موسم بہار میں بھی ان جگہوں پر جاکر مطمئن نہیں ہونا چا ہیے ،البتہ بیماری کےپھیلائو میں بڑا حصہ اس بات پر منحصر ہوں گا کہ اس کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیسے کیے گئے ہیں ۔جن میں لوگوں کا باہمی فاصلہ اور ماسک کا استعمال سب سے اہم ہوگا۔ 

ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے میں موسمی حالات میں بہت سے عوامل ہیں جن میں لوگوں کا طرز عمل اور وائرس کی خصوصیات شامل ہوتی ہیں۔ مثلا ًکچھ وائرس گرم مرطوب حالت پسند نہیں کرتے ہیں۔لیباریٹری میں تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ سارس کوو2 وائرس سرد اور خشک ماحول میں زیادہ پھیلتا ہے ۔

خاص طور پر اس جگہ پر جو سورج کی روشنی سے محروم ہو ۔لہٰذا اگر مصنوعی الٹر وائیلٹ ریڈی ایشن (روشنی )سارس کوو 2 کی سطح پر موجود ہو تو ہوا میںموجود حصوں کو غیر فعال کردیتی ہے خاص طور پر جب درجہ ٔ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ ہو ۔متاثر کرنے والا وائرس گرم سطحوںاور مر طوب ماحول میں بہت تیزی سے تباہ ہوجاتا ہے۔

پرنسٹن یونیورسٹی میں میتھے میٹیکل بایو لوجسٹ ڈیلن مورس کے مطابق سر دی کے موسم میں لوگ اپنے گھروں کو20 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم کرتے ہیں اورہوا خشک ہوتی ہے۔ جہاں اس کی آمدو رفت بھی بہتر نہیں ہوتی اورسرد موسم میںبند جگہیں وائرس کے لیے بہت موافق ہوتی ہیں۔

اس بات کو طے کرنے کے لیے کہ وائرس انفیکشن کیا موسم کے اتار چڑھائو سے گرتے بڑھتے ہیں؟ تحقیق کار اس کے لئے مخصوص جگہوں پر بیماری کے پھیلائو کا ایک سال میں کئی مرتبہ جائزہ لیتے ہیں جو کئی سالوں پر محیط ہوتے ہیں۔ 

لیکن تحقیق کرنے والوں نے سارس کوو2کے موسمی جائزہ کے لیےپوری دنیا کے مختلف علاقوں میں اس کےپھیلائو کا جائزہ لیا ہے۔ ایک جائزےمیں سارس کوو2کی وباکے پھیلائو کا شروع کے چار مہینوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔ جب زیادہ ممالک نے کنٹرول کرنے کے اقدامات نہیں کیے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہاں پر الٹرا وائلٹ شعاعوں کی مقدار کم تھی۔ وہاں پر یہ وباسب سے زیادہ تیزی سے پھیلی تھی۔

جس کے بعد انھوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ کسی مداخلت کے بغیر موسم بہار میں کیس کم ہو جائیں گے ۔اور سردی کے موسم میں دوبارہ کیسز بڑھ جائیں گے ۔چناں چہ سردی کے موسم میں وائرس کے پھیلنے کے خطرات زیادہ ہوں گے لیکن اپنے رویہ میں تبدیلی سے ان کو ڈرامائی طور پر کم کیا جاسکتا ہے۔ 

یہ بات یونیورسٹی آف کنیکٹی کٹ کی کوری میرو نے کہی تھی جو ماحول کی ماہر اور جائزے کی شریک کار بھی ہیں۔ موسم تو برتن میںصرف ایک قطرہ ہے۔ لیکن بارسلونہ اسپین کی یونیور سٹی کے اینوائرنمینٹنل ایکونومسٹ فرینکوئس کوہن کا کہنا ہے کہ وبا کے ابتدائی دور میں چوں کہ ٹیسٹنگ بھی بہت محدود اور قابل بھروسہ نہیں تھی۔ 

لہٰذا فی الوقت یہ کہنا ناممکن ہے کہ وائرس کے پھیلنے میں موسم کا اثرکتنا ہوگا؟ بیکرنے وبا کے دور میں بیماروں کی تعداد پر آب وہواکے موسمی اثرات کو علیحدہ کرنے کےلئے ایک اور کورونا وائرس کی رطوبت کی حساسیت کا ڈیٹا استعمال کیا تھا۔ بیکر اوران کے ساتھیوں نے نیویارک شہر میں چند سالوں کے درمیان انفیکشن پر موسمی اثرات کے بغیر کنٹرول کے مختلف طریقے اختیار کرنے کے بعداس کے کم ہونےاور بڑھنے کی شرح معلوم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کو معلوم ہوا کہ موسم کی تھوڑی سی تبدیلی کے نتیجہ میں بیماروں کی بہت بڑی تعداد بڑھ جائے گی اگر وائرس کو صرف قابو میںرکھنے کے لیےاقدامات کئے جائیں گے۔ 

یہ وہ مقام ہے جہاں آب وہوا آپ کو شکست دیدے گی ۔ بیکر اور ان کی ٹیم کی تجویز ہے کہ سردی میں بیماری کے پھیلائو کے خطرات روکنے کے لیے انتہائی سخت کنٹرول کے اقدامات کی ضرورت ہوگی، جس میں باہمی فاصلہ اور ماسک کا استعمال ضروری ہوگا۔لندن اسکو ل آف ہا ئیجین اور ٹرو پیکل میڈیسن کی میتھے میٹیکل ایپی ڈومولوجسٹ کیتھلین اورریلی کا کہنا ہے کہ مستقبل میں سارس ۔کوو2اگر سرد ماحو ل میں خود کوبرقرار رکھ سکتا ہے۔ تو بھی اس میں لوگوں کے رویوں کے اثرات کو علیحدہ کرنا بہت مشکل ہوگا ۔ فلو کی بیماری تقریباً ایک صدی سے موجود ہے لیکن پھر بھی اس کے مخصوص میکانزم کو آج تک سمجھا نہیں جاسکا ہے کہ وہ سردی میں کیوں پھیلتا ہے۔

تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے پاس سارس 2 کا قابل بھروسہ ڈیٹا بھی موجود ہو تو بھی وبا کے اتنے ابتدائی دور میں اس کے موسمی اثرات یا تو بہت کم ہوں گےیا وہ ناقابل ذکر ہوں گے۔ جب کہ آبادی کا بڑا حصہ اس سے متاثر ہونے کے قابل ہے۔ ریلمن کے مطابق البتہ آگے چل کر موسمی اثرات بھی انفیکشن کے ٹرینڈ کو سمجھنے میں معاون ہوسکتے ہیں جب زیادہ لوگوں میں وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوجائے گی۔ اگر یہ مزاحمت قدرتی طور پر پیدا ہو تو اس میں پانچ سال کا عرصہ درکار ہوگا یا پھر اس کو ویکسی نیشن کے ذریعہ پیدا کیا جاسکے گا۔ 

بیکر کا کہنا ہے کہ موسم کے لحاظ سے کوئی پیٹرن ابھرتا ہے یانہیں اور یا پھر وہ کیسا ہوگا اس کا انحصار کئی چیزوں پر مبنی ہے جو ابھی پوری طرح سمجھی بھی نہیں گئی ہیں ،جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بیماری کے خلاف مزاحمت کب تک برقرار رہتی ہے؟ اور صحت یابی میں کتنا وقت درکار ہے؟ پھر کیا وہ دوبارہ بھی انفیکٹ ہوسکتے ہیں ؟یہ بات کولن کارلسن نے کہی تھی جو واشنگٹن ۔ڈی۔ سی کے بایو لوجسٹ اور نئی بیماریوں پر تحقیق کرتےہیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین