• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نشہ آور اشیا اور جرائم سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان کی سرحدیں بالخصوص مغربی سرحدی علاقے منشیات اور کئی دوسری اشیا کی اسمگلنگ اور غیرقانونی تجارت، انسانوں کی اسمگلنگ اور لوگوں، خاص طور پر جرائم پیشہ افراد کی غیرقانونی آمد و رفت کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ اِن علاقوں میں بین الاقوامی اسمگلروں کے منظم گروہ کام کر رہے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کے لئے اِن مشکل اور دشوار گزار علاقوں کو راستے اور مرکز کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ایک امدادی پروگرام کے تحت اقوامِ متحدہ کا متعلقہ ادارہ اِن ماورائے قانون اور مذموم سرگرمیوں کی روک تھام اور عوام کو اِن جرائم سے محفوظ ماحول مہیا کرنے کے لئے پاکستان کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو تربیت کے علاوہ اسی نوعیت کی بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ اشتراک عمل کی سہولت فراہم کی ہے تاکہ آپس میں معلومات کے تبادلے سمیت ہر قسم کے تعاون سے ملک خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قائم جرائم پیشہ گروہوں کے سنڈی کیٹس کا قلع قمع اور اُن کی غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کی جاسکے۔ یہ بارڈر مینجمنٹ سے جڑا ایک بڑا مسئلہ ہے جس سے ملک کی اقتصادی ترقی کے علاوہ قومی سلامتی کے لئے بھی گھمبیر اور پیچیدہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اِس حوالے سے پیر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں بعض وفاقی وزرا کے علاوہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی شریک تھے۔ اجلاس میں وزیراعظم نے بارڈر مینجمنٹ کے موجودہ سسٹم کو مزید فعال اور بہتر بنانے کے لئے خصوصی ڈویژن قائم کرنے کا حکم دیا۔ اجلاس میں یہ تعجب خیز انکشاف ہوا کہ اِس وقت اِس سسٹم کے ساتھ دس محکمے منسلک ہیں لیکن اِسے مانیٹر کرنے والی کوئی مرکزی اتھارٹی موجود نہیں ہے، خصوصی ڈویژن اسی کمی کو پورا کرے گا وزیراعظم نے متعلقہ محکموں سے کہا ہے کہ وہ بارڈر سیکورٹی اور مینجمنٹ سے متعلق معلومات اور اعداد و شمار کا بروقت آپس میں تبادلہ کریں، حکومت آزادلیکن محفوظ بارڈر پالیسی پر یقین کھتی ہے۔ اُنہوں نے بارڈر محفوظ بنانے کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لئے بھی ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی، خصوصاً افغانستان کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی توجہ دینے پر زو دیا۔ اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ سرحدوں پر غیر قانونی راستوں کی بندش اور سمگلنگ کی روک تھام سے ملکی معیشت کو ایک سال کے دورانیے میں اربوں روپے کا فائدہ ہوا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ان لوگوں کے بارے میں جو زمینی فضائی یا سمندری راستوں سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تمام معلومات ایک جگہ جمع ہونی چاہئیں تاکہ ان کا بروقت اور آسانی سے تبادلہ کیا جاسکے۔ بارڈر مینجمنٹ کا خصوصی ڈویژن جو وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری کی نگرانی میں کام کرے گا یہ فریضہ بخوبی ادا کر سکے گا۔ بارڈر مینجمنٹ ایک انتہائی اہم اور حساس معاملہ ہے ۔ اس کی نگرانی کیلئے جو خصوصی ڈویژن اب قائم ہو رہا ہے بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ ہماری مغربی سرحد یں پر پیچ پہاڑی راستوں کی وجہ سے اسمگلروں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں جو منشیات اور مال و اسباب کے ساتھ انسانوں کو بھی اسمگل کرتے ہیں۔ اِن علاقوں میں دہشت گرد بھی پھلتے پھولتے ہیں جو ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ قانونی راستوں سے بھی جائز دستاویزات کے بغیر لوگوں کے آنے جانے کے امکانات موجود ہیں، اِس لئے بارڈر مینجمنٹ کو مضبوط بنانا ملکی معیشت ہی کے لئے نہیں قومی سلامتی اور امن و امان کے لئے بھی ضروری ہے۔ توقع ہے کہ نئے انتظامات کے تحت سرحدوں کی نگرانی کا نظام زیادہ فعال اور موثر ہو جائے گا جس سے قومی معیشت کو فائدہ پہنچے گا اور سرحدیں بھی زیادہ محفوظ ہو جائیں گی۔

تازہ ترین