• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اغواء کاروں کا لب و لہجہ انتہائی تلخ، دل میں استاد کی عزت نہیں تھی‘‘ ڈاکٹر لیاقت سنی کی گفتگو

کوئٹہ ( مانیٹرنگ ڈیسک )جن لوگوں نے مجھے اور میرے دو پروفیسر ساتھیوں کو بندوق کے نوک پر اغوا کیا ان کا لب و لہجہ تلخ تھا اور یوں محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ان کے نزدیک تعلیم اور درس و تدریس سے منسلک کسی استاد کی عزت اور اہمیت ہے۔وہ اس پر حیران تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو کیوں نہیں آئے اور میں ان کے سامنے رویا کیوں نہیں۔کہتے تھے جائیداد کی تفصیل بتاؤ ورنہ انگلی کاٹ کر گھر والوں کو بھیج دینگے۔ ان خیالات کا اظہاربلوچستان یونیورسٹی کے سینئر استاد اور شعبہ براہوی کے چیئرمین ڈاکٹر لیاقت سنی نے برطانوی ریڈیو کو ایک انٹرویو میں کیا ۔ڈاکٹر لیاقت سنی نے بتایا کہ میں گاڑی چلارہا تھا۔ جب ہم مستونگ میں ان کے اشارے پر رکے توان کا لب و لہجہ بہت زیادہ تلخ تھا۔ انہوں نے خود میری گاڑی بند کر کے اس کا چابی نکال لی۔میں نے ان کو بتایا کہ ہم یونیورسٹی کے اساتذہ ہیں لیکن انہوں نے میری بات سنے بغیر مجھے اور میرے ہمسفر اساتذہ کو بھی باہر کھینچ لیا اور مجھے ان سے الگ ایک اور گاڑی میں دھکیلا۔انہوں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہاتھوں میں ہتھکڑی لگا کر گاڑی کی پچھلی نشست پر دھکیل دیا۔ میرے دائیں اور بائیں ایک ایک آدمی بیٹھ گیا۔گاڑی نامعلوم سمت روانہ ہوئی ۔ اس کی رفتار تیز تھی۔ اندازاً ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد گاڑی ایک جگہ تھوڑی دیر کے لیے رکی ۔ اس کے بعد مزید ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد مجھے ایک جگہ اتارا گیا۔آنکھوںپر پٹی کی وجہ سے میں یہ نہیں دیکھ سکا کہ وہ کیسی جگہ ہے لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک کمپاؤنڈ تھا جہاں مجھے ایک کمرے میں رکھا گیا۔مجھے جہاں رکھا گیا تھا وہاں سپیکر بھی لگے تھے جن سے رات کو نعتوں کے علاوہ تلاوت کی آوازیں بھی آتی تھیں اور کبھی کبھی جذباتی تقاریر کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔دن میں توکوئی بات کرنے نہیں آیا، تاہم رات کو لوگ آئے اورمجھ سے مختلف سوالات کے علاوہ میری جائیداد کا بھی پوچھتےاور یہ کہتے رہے کہ پیسوں کا انتظام کریں۔ پہلے انہوں نے پہلے میرے بچوں کا سیل فون نمبر لیا مگر تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے اور کہا کہ اپنے بھائی کا فون نمبر دو۔مجھے یہ بھی کہا گیا کہ آپ یونیورسٹی اسکینڈل میں ملوث رہے ہیں۔اس پر میں نے ان کو بتایا کہ یہ معاملہ تو ختم ہوگیا ہے اگر میرے خلاف کوئی ثبوت ہے تو لایا جائے۔پہلی رات کو ایک دو مرتبہ پوچھ گچھ کے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا اور دوسرے روز پورا دن مجھ سے بات چیت کے لیے پھر کوئی نہیں آیا ۔تاہم دوسری رات کو پھر لوگ آکر مختلف باتیں پوچھتے رہے ۔ اور کہتے رہے کہآپ کی جائیداد میں کیا کیا ہے اور پیسوں کا انتظام کرو ورنہ انگلی کاٹ کے گھر والوں کو بھجوائیں گے۔دونوں راتیں مجھے ذہنی طور پر اذیت دینے کے علاوہ جسمانی طور پر تشدد بھی کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے میرے لیے سونا ممکن نہ تھا۔مجھے کھانا اور پانی دیا گیا لیکن میں ان کے تلخ لہجے کے پیش نظر کم پانی اور کم کھانا کھانے کی کوشش کی۔

تازہ ترین