• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں ہمارے ہاں سینکڑوں شاعر، جن میں نوجوانوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے، بہت عمدہ شاعری کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی حیثیت مستندہے اور بہت سے اپنی کامیابی کے ہدف کی طرف رواں دواں ہیںمگر میں نے انہی دنوں ایک عجیب و غریب شاعر کی عجیب و غریب شاعری پڑھی ہے، مجھے ایک دوست نے اس کا ویڈیو کلپ بھیجا ہے، ایک خوبصورت نین نقش والا نوجوان، سر پر گرم لمبی ٹوپی جو کان بھی ڈھانپ لیتی ہے، چہرے پر مسکینی، شعر پڑھتے ہوئے عجز و انکساری نمایاں___ اس نوجوان کا نام افکار علوی ہے، لیہ سے آگے کسی گائوں کا رہائشی ہے۔ اس کی شاعری میں رومان نام کی کوئی چیز نہیں اور نہ ہی یہ شاعری بیوٹی پارلر سے سج دھج کر آئی ہے۔ سیدھی سادی باتیں ہیں، میرے آپ کے دکھ ہیں، کسی زیب و آرائش کے بغیر بھی یہ شاعری دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ اس کے شعر پڑھتے ہوئے قاری عروض کی اونچ نیچ بھی بھول جاتا ہے۔ آئیے یہ پراثر نظم پڑھتے ہیں:

مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے

مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا

مرشد ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا

مرشد ہمارے دیس میں اک جنگ چھڑ گئی

مرشد سبھی شریف شرافت سے مر گئے

مرشد ہمارے ذہن گرفتار ہو گئے

مرشد ہماری سوچ بھی بازاری ہو گئی

مرشد بہت سے مار کے ہم خود بھی مر گئے

مرشد ہمیں زرہ نہیں تلوار دی گئی

مرشد ہماری ذات پہ بہتان چڑھ گئے

مرشد ہماری ذات پلندوں میں دب گئی

مرشد ہمارے واسطے بس ایک شخص تھا

مرشد وہ ایک شخص بھی تقدیر لے اڑی

مرشد خدا کی ذات پہ اندھا یقین تھا

افسوس اب یقین بھی اندھا نہیں رہا

مرشد محبتوں کے نتائج کہاں گئے

مرشد مری تو زندگی برباد ہو گئی

مرشد ہمارے گاؤں کے بچوں نے بھی کہا

مرشد کوں آکھیں آ کے ساڈا حال ڈیکھ ونج

مرشد ہمارا کوئی نہیں ، ایک آپ ہیں

یہ میں بھی جانتا ہوں کہ اچھا نہیں ہوا

مرشد ! میں جل رہا ہوں ، ہوائیں نہ دیجیے

مرشد ! ازالہ کیجئے ، دعائیں نہ دیجیے

مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہو گیا

اور آپ ہیں کہ آپ کو احساس تک نہیں

مرشد وہاں یزیدیت آگے نکل گئی

اور پارسا نماز کے پیچھے پڑے رہے

مرشد کسی کے ہاتھ میں سب کچھ تو ہے ، مگر

مرشد کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا

مرشد میں لڑ نہیں سکا ، پر چیختا رہا

خاموش رہ کے ظلم کا حامی نہیں بنا

مرشد ! جو میرے یار بَھلا چھوڑیں، رہنے دیں

اچھے تھے جیسے بھی تھے خدا مغفرت کرے

مرشد ! ہماری رونقیں دوری نگل گئی

مرشد ! ہماری دوستی شبہات کھا گئے

مرشد ! اے فوٹو پچھلے مہینے چھکایا ہم

ہنڑ میکوں ڈیکھ ! لگدئے جو اے فوٹو میڈا ھ ؟

یہ کس نے کھیل کھیل میں سب کچھ الٹ دیا

مرشد یہ کیا کہ مر کے ہمیں زندگی ملے

مرشد ! ہمارے ورثے میں کچھ بھی نہیں ، سو

ہم بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائینگے

مرشد کسی کی ذات سے کوئی گلہ نہیں

اپنا نصیب اپنی خرابی سے مر گیا

مرشد وہ جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز ہے

شاید ہمارے ساتھ وہی ہاتھ کر گیا

مرشد ! دعائیں چھوڑ ، ترا پول کھل گیا

تو بھی مری طرح ہے ، ترے بس میں کچھ نہیں

انسان میرا درد سمجھ سکتے ہی نہیں

میں اپنے سارے زخم خدا کو دکھاؤں گا

اے ربِ کائنات ! ادھر دیکھ ، میں فقیر

جو تیری سر پرستی میں برباد ہو گیا

پروردگار ! بول ، کہاں جائیں تیرے لوگ

تجھ تک پہنچنے کو بھی وسیلہ ضروری ہے

پروردگار ! کچھ بھی صحیح نہیں رہا

یہ کس کو تیرے دین کے ٹھیکے دیے گئے

پروردگار ! ظلم پہ پرچم نِگوں کیا

ہر سانحے پہ صرف ترانے لکھے گئے

ہر شخص اپنے باپ کے فرقے میں بند ہے

پروردگار ! تیرے صحیفے نہیں کھلے

جو ہو گیا سو ہو گیا ، اب مختیاری چھین

پرودگار ! اپنے خلیفے کو رسی ڈال

جو تیرے پاس وقت سے پہلے پہنچ گئے

پروردگار ! انکے مسائل کا حل نکال

پروردگار ! صرف بنا دینا کافی نئیں

تخلیق کر کے بھیج تو پھر دیکھ بھال کر

ہم لوگ تیری کن کا بھرم رکھنے آئے ہیں

پروردگار ! یار ، ہمارا خیال کر

تازہ ترین