
کہیں سارا ملبہ ان پر نہ آن گرے۔ تاہم اب امید کی ایک کرن نظر آرہی ہے کہ کورونا کی ایک ویکسین (فائزر) کو تو حکومت نے استعمال کے قابل بھی قرار دے دیا ہے اور اس کی پہلی کھیپ برطانیہ میں پہنچ بھی گئی ہے مگر اس کے باوجود حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس بات کے حق میں ہیں کہ اس موسم سرما میں سخت احتیاط کی جائے کیونکہ اب بھی روزانہ اموات کی تعداد سینکڑوں میں ہے، جبکہ فائزر کی ویکسین اتنی زیادہ نہیں کہ اس سے راتوں رات سب ٹھیک ہوجائے گا۔ جو کھیپ پہنچی ہے اسے پہلے کیئر ہومز، پھر NHS سٹاف، پھر مختلف بیماریوں میںمبتلا اور 65 سال سے اوپر کے لوگوں کو لگایا جائے گا چنانچہ یہ سفر ذرا طویل ہوگا۔ اسی دوران آکسفورڈ ویکسین بھی آسکتی ہے جس سے اس کام میں تیزی آئے گی مگر پھر حالات کو سنبھلنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس دوران لوگوں خصوصاً نسلی اقلیتوں کو بہت زیادہ احتیاط کرنا ہوگی کیونکہ ایشیائی اور سیاہ فاموں کی اموات مقامی آبادی سے تناسب کے اعتبار سے بہت زیادہ ہوئی ہیں۔ پاکستانی، بنگلہ دیشی اور بعض دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے تو اب تک کورونا کو ایک حقیقت تسلیم ہی نہیں کیا، بے احتیاطی کی وجہ سے ان کے اندر اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہی حال وطن عزیز میں بھی ہے جہاں اگرچہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس حقیقت سے آشنا ہوگئی ہے مگر اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کورونا کو مغرب کا پروپیگنڈہ قرار دیتے ہیں، بے احتیاطی کرتے ہیں اور کئی مرتبہ ہسپتالوں میں بھی پہنچ نہیں پاتے۔ جہاں بہت سے لوگوں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے وہاں حکومت اور اپوزیشن بھی اس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہے۔ حکومت اپنی توانائی اپوزیشن کے جلسوں کو ناکام بنانے اور اپوزیشن کورونا کی اس بری صورتحال میں بھی لوگوں کو جلسوں میں لانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب پاکستان کے اندر اموات کی شرح پہلی لہر کے مقابلے میں آٹھ، دس گنا بڑھ گئی ہے اگر یہی صورتحال رہی تو خدانخواستہ ہمسایہ ملک انڈیا جیسی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے؟۔