• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن… آصف ڈار
برطانیہ میں 8/9 ماہ کی سخت پابندیوں، 60 ہزار کے قریب اموت اور رشتہ داروں کے آپس میں میل ملاپ نہ ہونے کے باعث ان لوگوں کو بھی نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے جو کورونا کے شر سے محفوظ رہے ہیں۔ صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ پورے یورپ اور مغربی دنیا کے لوگوں کا یہ مزاج نہیں کہ وہ پابندیوں کی وجہ سے گھروں میں محصور رہیں یا اپنی نقل و حرکت کو محدود کردیں۔ یہ لوگ ہفتے میں دو تین مرتبہ اگر کھانا باہر سے نہ کھائیں اور پب یا بارز میں نہ جائیں تو ان کی زندگی مکمل ہی نہیں ہوتی۔ مگر ان لوگوں نے اپنی زندگیوں کو محفوظ رکھنے اور دوسروں کو بھی بچانے کے لئے ان پابندیوں پر نہ صرف عمل کیا بلکہ ایمانداری کے ساتھ قانون کا احترام بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں برطانیہ میں اموات بہت کم ہوئیں جبکہ جن یورپی ممالک نے بروقت اقدامات کئے وہاں صورتحال بہت بہتری رہی تاہم اب ایسا لگ رہا ہے کہ برطانیہ کے عوام کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن کا پیمانۂ صبر لبریز ہوتا جارہا ہے۔ اگرچہ حکومت اس بات پر مضر ہے کہ لوگ اس وباء کی ویکسین کے نتائج حاصل ہونے تک محتاط رہیں مگر حکومت کے اپنے ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد اب پابندیوں کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ اپوزیشن کی پارٹیاں بھی اس حوالے سے محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں تاکہ کہیں سارا ملبہ ان پر نہ آن گرے۔ تاہم اب امید کی ایک کرن نظر آرہی ہے کہ کورونا کی ایک ویکسین (فائزر) کو تو حکومت نے استعمال کے قابل بھی قرار دے دیا ہے اور اس کی پہلی کھیپ برطانیہ میں پہنچ بھی گئی ہے مگر اس کے باوجود حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس بات کے حق میں ہیں کہ اس موسم سرما میں سخت احتیاط کی جائے کیونکہ اب بھی روزانہ اموات کی تعداد سینکڑوں میں ہے، جبکہ فائزر کی ویکسین اتنی زیادہ نہیں کہ اس سے راتوں رات سب ٹھیک ہوجائے گا۔ جو کھیپ پہنچی ہے اسے پہلے کیئر ہومز، پھر NHS سٹاف، پھر مختلف بیماریوں میںمبتلا اور 65 سال سے اوپر کے لوگوں کو لگایا جائے گا چنانچہ یہ سفر ذرا طویل ہوگا۔ اسی دوران آکسفورڈ ویکسین بھی آسکتی ہے جس سے اس کام میں تیزی آئے گی مگر پھر حالات کو سنبھلنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس دوران لوگوں خصوصاً نسلی اقلیتوں کو بہت زیادہ احتیاط کرنا ہوگی کیونکہ ایشیائی اور سیاہ فاموں کی اموات مقامی آبادی سے تناسب کے اعتبار سے بہت زیادہ ہوئی ہیں۔ پاکستانی، بنگلہ دیشی اور بعض دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے تو اب تک کورونا کو ایک حقیقت تسلیم ہی نہیں کیا، بے احتیاطی کی وجہ سے ان کے اندر اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہی حال وطن عزیز میں بھی ہے جہاں اگرچہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس حقیقت سے آشنا ہوگئی ہے مگر اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کورونا کو مغرب کا پروپیگنڈہ قرار دیتے ہیں، بے احتیاطی کرتے ہیں اور کئی مرتبہ ہسپتالوں میں بھی پہنچ نہیں پاتے۔ جہاں بہت سے لوگوں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے وہاں حکومت اور اپوزیشن بھی اس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہے۔ حکومت اپنی توانائی اپوزیشن کے جلسوں کو ناکام بنانے اور اپوزیشن کورونا کی اس بری صورتحال میں بھی لوگوں کو جلسوں میں لانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب پاکستان کے اندر اموات کی شرح پہلی لہر کے مقابلے میں آٹھ، دس گنا بڑھ گئی ہے اگر یہی صورتحال رہی تو خدانخواستہ ہمسایہ ملک انڈیا جیسی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے؟۔
تازہ ترین