• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی ائیر لائن گزشتہ کئی برسوں سے خبروں میں ہے۔ کبھی پائلٹوں کی نمائندہ یونین پالپا اور کبھی سی بی اے یونین کی ہڑتالوں کے باعث یہ قومی ورثہ سیاست کا مرکز رہا ہے۔ موجودہ دورِ حکومت میں بالخصوص پی آئی اے اور اُس کے اثاثوں کے متعلق ایسا تاثر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو انتہائی منفی ہے جیسا کہ امریکی شہر نیویارک میں 1924میں قائم ہونے والا پی آئی اے کا ملکیتی روزویلٹ ہوٹل تقریباً ایک صدی بعد اچانک بند کر دیا گیا۔ یہ صرف ایک ہوٹل ہی نہیں تھا بلکہ امریکا میں پاکستان کی علامت تھا۔ واضح رہے کہ پی آئی اے اِس سے قبل اُس وقت خبروں میں آئی تھی جب کابینہ کے ایک اہم ترین رُکن اور وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر پی آئی اے کے پائلٹوں سمیت 658ارکان کی ڈگریاں ’’مشکوک‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تمام لوگ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے سابقہ ادوارِ حکومت میں 2008 سے 2018کے دوران بھرتی کیے گئے۔ عالمی ایوی ایشن انڈسٹری میں اُن کے اِس بیان کے بعد تشویش کی لہر دوڑ گئی اور پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ جانے والی پروازوں پر پابندی عائد کر دی گئی جسے یورپین کمیشن ڈائریکٹوریٹ فار موبیلٹی اینڈ ٹرانسپورٹ نے اپنے حالیہ اجلاس میں بھی برقرار رکھا ہے اور سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل کو پائلٹوں کو لائسنسوں کے اجرا پر ایک بار پھر نظرثانی کی ہدایت بھی کی ہے۔ پی آئی اے صرف ایک قومی ورثہ نہیں بلکہ یہ ایک تاریخی اثاثہ ہے جسے بنانے میں ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان جیسی ویژنری قیادت کا اہم کردار ہے۔ وزیراعظم عمران خان اِس حوالے سے خصوصی کمیٹی تشکیل دیں جو اِس سارے معاملے کا جائزہ لیتے ہوئے تجاویز مرتب کرے جن پر عمل کرتے ہوئے پی آئی اے کو ایک بار پھر دنیا کے نمایاں ہوا باز اداروں میں شامل کیا جا سکے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین